پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ

جمعہ 2 اگست 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

میاں شہباز شریف کا مطالبہ ہے کہ گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر نہ کرنا حکومت کی انتقامی کاروائی ہے ۔بلاول بھٹو کہتے ہیں میں کٹھ پتلی حکمران کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا ہوں ۔مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ ہے کہ حکومت استعفیٰ دے نہیں تو ملین مارچ ہوگا ۔
دنیا میں جمہوریت دیکھی لیکن پاکستان کی جمہوریت نرالی ہے ۔

کسی بھی جماعت نے کبھی بھی اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا ہر الیکشن دھاندلی قرار د یئے جاتے ہیں جیت جاتے ہیں تو جمہوریت جیت جاتی ہے عوام کا فیصلہ درست ہوتا ہے عوامی طاقت کے سرچشمہ عوام کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے جشن منایا جاتا ہے بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں لیکن اگر ہارتے ہیں تو عوام کا مینڈیٹ چوری ہوجاتا ہے دھاندلی ہو جاتی ہے سرِعام احتجاج ہوتا ہے سرِعام ماتم ہوتا ہے اور اس قدر سفید جھوٹ بولا جاتا ہے کہ تویہ بھلی ایوانِ بالا ایوانِ زیریں میں آتے ہیں تو اپنے خاندانی وقار کو بھول جاتے ہیں اپنا مقام بھول جاتے ہیں بولتے ہیں جہالت شرم کے مارے منہ چھپانے لگتی ہے اخلاقیات کے دائرے بھول جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان اور پاکستان کی عوام کو بھول جاتے ہیں ۔
 منتخب ممبرانِ اسمبلی مرد وخواتین میڈیا کے براہِ راست نشریات میں دنیا بھر میں تماشہ بن جاتے ہیں قانون سازی بھول جاتے ہیں اگر کچھ یاد رہتا ہے تو وہ ذاتی مفادات ہیں اس لئے کہ ان کی سوچ ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے بھول جاتے ہیں کہ ہم نے عوام سے کچھ وعدے کیے تھے عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا قومی استحکام اور عوامی خوشحالی کیلئے !!! ہمارے وہ ممبرانِ اسمبلی جو اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے کامیاب ہوتے ہیں اگر حکمرانی ملی تو پاکستان زندہ باد اگر اپوزیشن میں بیٹھ گئے تو حکمران مردہ باد جمہوریت مردہ باد ایک تماشہ ہے جو میرے اور آپ کے پاکستان میں دنیا دیکھ دیکھ کر مزے لے رہی ہے ۔


شہباز شریف نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر کبھی بھی ایوان میں عوام کو نہیں سوچا اگر سوچا ہے تو ذاتی مفاد کو سوچا ہے اُن کا حکومت پر الزام ہے کہ حکومت انتقام لے رہی ہے اگر حکومت انتقام لے رہی ہے تو آپ مجرم ہونے کے باوجود آزاد کیوں ہیں خودضمانت پر ہیں اور دوسروں کیلئے پروڈکشن آرڈر کا شور مچارہے ہیں عوام پریشان ہے مرغی چور جیل کی سلاخو ں کے پیچھے اور اربوں چور جیل میں بھی Aکلاس کی سہولت سے سرفراز کہاں کا انصاف ہے بہتر تو یہ تھا کہ سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتیں اُن اراکین اسمبلی کی رکنیت معطل کردیا کرتی ۔

اُن کو بحیثیت ممبرا سمبلی تنخواہ اور دیگر مراعات اور سہولیات اُس وقت تک روک لی جا تیں جب تک زیر سماعت مقدمات میں ملزم اور مجرم ہونے کافیصلہ نہیں ہوجاتااگر مجرم ثابت ہوجائے تو اُن کی سیاست پر تاحیات پابندی لگا دی جانی چاہیے لیکن بدقسمتی سے قانون صرف عام لوگوں کیلئے ہے خاص لوگوں پر عام لوگوں کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیا ہی بہتر ہوتا کہ گرفتار جیلوں میں بند منتخب اراکین کو جیل کی Cکلاس کے نچلے درجے میں رکھا جاتا اس لئے کہ انہوں نے قوم اور عوام کے اعتماد کو دھوکہ دیا ہے ایسے مجرموں سے رعایت عوام سے ظلم کے مترادف ہے ۔


پی پی کے بلاول بھٹو حکمران جماعت کے خلاف بغاوت کا اعلان کررہے ہیں لیکن دریائے فراط کے کنارے پیاسوں کی پیاس رونے والے کراچی میں سمندر کے کنارے پیاسوں کو کیوں نہیں سوچتے ۔تھر کے ریگستانوں میں زندگی کا ماتم کرنے والے پیاسوں کو کیوں نہیں سوچتے ۔پی پی کی حکمرانی میں عوام کے دکھ درد کا خیال نہیں آیا آج عوام کو رورہے ہیں مہنگائی کا رونا رونے والے اپنے پیرومرشد میاں محمد نواز شریف کادورِاقتدار بھول گئے جس میں پیٹرول 118روپے اور ٹماٹر150کلو تک فروخت ہوتا رہا ۔

مہنگائی کا رونا رونے والے بلاول بھٹو بخوبی جانتے ہیں کہ بھٹو خاندان کی شہید قیادت نے پاکستان اور پاکستان کی عوام کو سوچا لیکن بلاول بھٹو صرف اپنے والد آصف علی زرداری اورپھوپھوفریال تالپور کو سوچ رہے ہیں ۔
پاکستان کی عوام سیاستدانوں کے ظلم وستم کے آگے مجبور ضرور ہیں لیکن باشعور ہیں وہ جانتے ہیں کہ کون پاکستان اور پاکستان کے عوامی استحکام کیلئے سوچ رہا ہے اور ایک ہے ملا ازم کے دعویدار مولانا فضل الرحمان جو گزشتہ 15سال سے کسی نہ کسی حوالے سے حکمرانوں کیساتھ زندگی کی عیاشی کھیل رہا تھا وہ بے چینی کا شکار ہے اُن کو اُن کی پرانی یادیں آرام نہیں کرنے دیتیں اپنی مدر سے کے طالب علموں کو سڑکوں پر لاکر حکومت گرانے کی بات کرتے ہیں کیا ہی بہتر ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان کو قومی امن اور استحکام کو برباد کرنے ،عوام کو پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے جرم میں گرفتار کرکے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے پاس جمع کروادیں اور قوم کو سکون کا سانس لینے میں قوم پر احسان کریں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :