شاخِ گل میں پھول آنے سے پہلے خار آتے ہیں

جمعہ 29 نومبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تحریک انصاف کی حکمرانی اپوزیشن کے خودپرستوں اور اُن کے چاہنے والوں کی نظر میں اُن کیلئے عذابِ جاں ہے لیکن پاکستان کو تحریک انصاف کی حکمرانی کی ضرورت ہے اس لیے کہ جب تک وطن عزیز میں علی بابا اور چالیس چوروں اور ان کے درباریوں تک کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے گا اور نہ ہی ٹماٹر سستے ہوں گے
 کہ مولانا فضل الرحمان نے پہلی APCمیں ایک قومی مجرم کو ملک سے باہر بھجوانے کے لئے راہ ہموار کی اور دوسری APCمیں دوسرے قومی مجرم کی بیماری کا ذکر ہوا مولانا فضل الرحمان جس ایجنڈے پر کام کر رہا ہے پاکستان کی عوام تو نہ دیکھ پائے اور نہ سمجھ پائے لیکن اگر دیکھا اور سمجھا ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر کی وہ مظلوم عوام ہے جو جنت نظیر وادی میں قید پاکستان کیساتھ خوشحال زندگی کے خواب دیکھ رہی ہے ۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں پاکستان کی زرخرید میڈیا کشمیر اور کشمیریوں کو بھول گئی اور جو آواز حکمران جماعت نے عالمی سطح پر اُٹھائی تھی اُس کی گونج اب سنائی نہیں دیتی شور ہے تو کرتارپور راہداری کا ۔دنیا جانتی ہے کہ کرتارپور راہداری بھارت کے سینے پر مونگ دھلنے کے مترادف ہے لیکن کیا کریں بھارت نوازوں کا !!
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کا نعرہ لگانے والوں اور کشمیری قوم پر ظلم وستم کے خلاف بیانات میں مگرمچھ کے آنسو بہانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ش شہہ رگ کٹ چکی ہے لیکن قومی یکجہتی کے دشمن ذاتی مفادات اور خواہشات کیلئے عظمت ِپاکستان کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں بدقسمتی سے وطن زیز میں عمران خان کی حکمرانی کے خلاف ایک سازش ناکام ہوتی ہے تو دوسری سر اُٹھالیتی ہے ۔

مولانا فضل الرحمان کا دھرنا مارچ ناکام ہوا تو عدالت نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا مسئلہ کھڑا کردیا لیکن شکر ہے جمہوریت کے سر سے بلا ٹل گئی۔شاید اس لیے کہ حکمران جماعت نے جنرل مشرف کے خلاف حتمی فیصلہ روکنے کی درخواست کی
اور وزیرِاعظم پاکستان نے اپنی ایک تقریر میں عدلیہ کو مخاطب کر کے کہا انصاف سب کے لئے!!
جنرل پرویز مشرف کے خلاف گزشتہ پانچ سال سے غداری کا مقدمہ زیر سماعت ہے پاکستان میں پہلی بار کسی سابق فوجی حکمران پر آئین شکنی کے الزام میں غداری کا مقدمہ درج ہوا جسے پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا اہم ترین مقدمہ کہا جارہاہے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ مقدمہ پرویز مشرف کے خلاف 1999ء میں جمہوریت پرشپ خون مارنے کے جرم میں نہیں بلکہ 2007ء میں لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف ہے ۔

دراصل جنرل پرویز مشرف نہ تو غدار ہے اورنہ پاکستان کا دشمن اگر دشمن ہے تو سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار احمد ،سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا اگر جنرل پرویز مشرف واقعی آئین کا غدار ہے تو جنرل محمد ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ کیوں نہیں چلا حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے پی پی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے بھٹوکو ماورائے عدالت قتل کیا جیالوں پر پاکستان میں زندگی تنگ کردینے والے جنرل ضیاء الحق کے خلاف بلاول بھٹو خاموش ہے مشرف کے خلاف بول رہا ہے لیکن اپنے والد سے نہیں پوچھ رہا ہے کہ اپنے دور ِحکمرانی میں جنرل مشرف کو اعزاز کیساتھ کیوں رخصت کیا ؟
دراصل وطن عزیز میں اقتدار کی رسہ کشی میں خودپرست اور اقتدار پسند سیاستدان اپنے علاوہ کسی کو بھی محب ِوطن نہیں مانتے لیکن دنیا جانتی ہے کہ قوم اُن کو مسترد کرچکی ہے تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان چھ نشستوں کی برتری پر اپنی حکمرانی میں اپنے اُسی مقام پر ہیں جس کا اُس نے قوم سے وعدہ کیا تھا اگر اپوزیشن میں کوئی دم خم ہوتا تو پارلیمنٹ میں یہ تبدیلی لائی جاسکتی تھی لیکن اپوزیشن بخوبی جانتی ہے کہ اُن کے اپنے ہی اُن سے نالاں ہیں سینٹ میں اپنی برتری کا انجام دیکھ چکے ہیں ۔


وزیر اعظم پاکستان نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)پر امریکی مداخلت کے خلاف سینٹ کے قائمہ کمیٹی میں قرار داد منظور کر کے امریکی مئوقف کو مسترد کرکے ثابت کردیا کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے پاکستان کے حکمران اور عوام ،دوست اور دشمن کو جانتے ہیں لیکن اگر نہیں جانتے تو مولانا فضل الرحمان کی دوسری APCاجلاس میں شریک بلاول بھٹو ،پروفیسر ساجد میر ،محمود خان اچکزئی ،احسن اقبال ،شاہ اویس نورانی ،میاں افتخار ،میر حاصل بزنجواور آفتاب شیرپاؤ نہیں جانتے اس لیے کہ یہ بے روزگار ہیں ۔

پاکستان کی عوام نے ان کو ان کی قیادت کا آئینہ دکھادیا ہے لیکن یہ لوگ اُس آئینہ میں اپنی صورت دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ۔دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہے جسے اپنی قوم اور عوام پر اعتماد ہے اس لیے امریکی مداخلت کے خلاف قرار داد منظور کرکے اب مسئلہ کشمیر پر عالمی کانفرنس بلانے کا سوچ رہے ہیں ۔حکمران جماعت کیلئے ہر آنے والا کل مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے لیکن عمران خان بخوبی جانتا ہے کہ
شاخِ گل میں پھول آنے سے پہلے خار آتے ہیں ۔
( قارئینِ کرام جان لیں کی میرا تعلق خوبصورت پاکستان اور افواجِ پاکستان سے ہے میرا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیںِ،میری سیاسی قیادت شہید ہو چکی ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :