نظام کی تبدیلی ہماری قومی ضرورت ہے

پیر 13 جولائی 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

  پاکستان سے محبت کرے والے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ و طن عزیز میں انتخابات کیوں اور کن مقاصد کے حصول کے لئے ہوتے ہیں انتخابات میں عوام اپنے پسند کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں لیکن طاقت کا سرچشمہ عوام اور ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے والے عوام کا فیصلہ قبول نہیں کرتے تحریکِ انصاف کی حکمرانی پہلی بار آئی ہے لیکن اس حکمرانی سے قبل بھی تو یہ ہی کچھ ہوتا رہا ہے صوبائی اسمبلی سے سینٹ تک کا ہر اجلاس مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے کھبی ان نمائندوں نے پاکستان کی عظمت کو اورنہ ہی ا سمبلی کے وقار کو سوچا نہ عوام کو اور نہ ہی خوبصورت پاکستان کو سوچا کھبی کسی نے اپنا گریبان نہیں دیکھا دوسرے کا گریابان ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے بعض اوقا ت تو یہ لوگ اپنے خاندانی وقار تک کو بھول جاتے ہیں اور اپنے معاشرتی مقا م تک سے اس قدر گر جانے ہیں کہ ان کو ووٹ دینے والے بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کیا یہ لوگ صرف تنخواہوں اور مراعات کے لئے عوام کے اعتماد کو دھوکہ دیتے ہیں قومی خزانے پر بوجھ یہ عوامی نمائندے اپنی حفاظت کے لئے غنڈو ں کی فوج سے معصوم لوگوں کا جینا حرام کر د یتے ہیں دادا گیری کے نشے میں یہ لوگ عام آدمی کا درد کیسے محسوس کر سکتے ہیں یہ کم بخت نقاب پوش غریب کا نام تو لیتے ہیں لیکن انہوں نے غربت کو کب دیکھا اور سوچا ہے اگر یہ لوگ غریب کا درد محسوس نہیں کرتے پاکستان اور استحکام پاکستان کو نہیں سوچتے تو ہم ان کے سیاسی غلام کیوں ہیں ان موروثی بدیانتوں سے چھٹکارا حاصل کیوں نہیں کرتے یہ تو سیاست کے ناسور ہیں حکمرانی کے لئے اپنی قومی اور مذہبی غیرت تک کو نظر اداز کر دیا کرتے ہیں مارشل لاءہو یا نام نہاد جمہوریت یہ ضمیر فروش اس کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اگر حصہ نہیں ہوتے تو حکمران جماعت کے خلاف صدائے احتجاج میں وہ کردار ادا کرتے ہیں جو دشمن بھی ادا نہیں کر سکتا ۔

(جاری ہے)

ہماری آزادی کو ۳۷ سال ہو گئے لیکن ہم قومی ترقی اور خوشحالی میں ان ممالک سے پیچھے ہیں جن کو ہمارے بعد آزادی نصیب ہوئی قوم کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا جب تک ہمارے سیاسی اورقومی شعور میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک نظام میں تبدیلی نہیں آسکتی
تبدیلی کا نعرہ امریکہ میں بھی لگا تھا جب پہلی بار کالوں کے رہنما باراک اوباما صدارتی انتخاب کے لئے میدان میں اترے تو ان کی ٹیم میں ان کے ہم خیال امریکہ اور امریکی عوام سے محبت کرنے والے قوم اور وطن پرست راہنما تھے ان کی تبدیلہ کا نعرہ نظام کی تبدیلی کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پر صرف گوروں کی حکمرانی کا حق نہیں کالے اور کلر بھی امریکہ پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں چونکہ ان کے قول اور فعل میں تضاد نہیں تھا اس لئے کالوں نے دس سال تک امریکہ پر حکمرانی کی لیکن تحریکِ انصاف کے قول و فعل میں تضاد تھا ۔

عمران خان نے نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگایا لیکن وقت آنے پر اپنی جدو جہد کے ان ساتھیوں کو اس وقت نظر انداز کر دیا جب شوگر اور ذ خیرہ اندوز مافیا کے مشورے پر دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوٹوں کو یہ کہہ کر ٹکٹ دئے کہ میں نے الیکشن جیتنا ہے ۔ عمران خان الیکش تو جیت گئے لیکن تبدیلی کا خواب ادھورا رہ گیا اور آج اپنے اس عمل کی سزا بھگت رہے ہیں
عمران خان اپنی ذات میں دیس اور دیس والوں سے مخلص ہیں لیکن تحریکِ انصاف کے اپنے بھی ان کے ساتھ مخلص نہیں اور اس حقیقت کو پاکستان کے عوام،افواجِ پاکستان اور سپریم کورٹ نے بھی محسوس کر لیا ہے سیاست دانوں کی ذاتی لڑائی وطن عزیز کے وقار کی توہین ہے پاکستان پیپلز پارٹی،تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن اور علاقا ئی جماعتوں کے منتخب نمائندے قانوں ساز اسمبلیوں میں جو کھیل کھیل رہے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے کسی بھی جماعت کے نمائندے کو پاکستان اور پاکستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں
   سپریم کورٹ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماتحت عدالتوں میں بھی اقرباءپروری کی حوصلہ افزائی ہو رہیہے سپریم کورٹ کے  120 احتساب عدالتوں کے قیام حالیہ فیصلے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی حکومت اور ماتحت عدالتوں کے ساتھ نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں پور م تذبذب کا شکار ہے قوم موجودہ جمہوری نظام سے بے زار ہو چکی ہے
    موجودہ نظامِ جمہوریت سے بےزار قوم کے کچھ دانشور صدارتی نظام کے لئے آواز اٹھائے ہوئے ہیں لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا وزیرِ اعظم عمران خان کی بھی خواہش ہو سکتی ہے لیکن وہ اس پوز یشن میں نہیں موجودہ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیلی کے لئے آئین میں تبدیلی لازم ہے لیکن تحریکِ انصاف کی حکمرانی تو صرف ۶ ووٹوں کی اکثریت پر قائم ہے سینٹ میں تو سادہ اکثریت بھی نہیں آئین میں تبدیلی کے لئے ایک تہائی اکثریت کی ضرورت ہے اگر یہ مان بھی لیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں عمران خان کے کچھ ہمنوا ہیں لیکن تحریکِ انصاف میں اس کے اپنے بھی ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے اس لئے کہ دورِ حاضر کے موروثی سیاستدا ن کرپشن کے وبائی مریض ہیں یہ لوگ دیس اور دیس والوں کا نام لیکر دیس اور دیس والوں کا خون پیتے ہیں ان کی حکمرانی اور نمائندگی اپنی ذات اور اقرباءکے طواف میں گھومتی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کی صدارتی نظامِ جمہو ریت قوم اور وطن کے لئے بہترین نظام ہے لیکن موروثی سیاست دانوں نے ہم پاکستانیوں کے ذہن پر جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کا صدارتی نظام سوار کر رکھا ہے حالانکہ وہ صدر نہیں مارشل لاءکے آمر تھے اپنے دورِ حکمرانی کو طول دینے کے لئے وہ صداتی نظام کا ڈرامہ کیا کرتے تھے صدارتی نظامِ جمہوریت کی بہترین مثال ہمارے سامنے امریکہ میں ہے صدر اور اراکین اسمبلی براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں تمام تر اختیارات صدر کے پاس ہوتے ہیں عدلیہ کے پاس عدالتی نظر ثانی کے اختیارات ہوتے ہیں صدر اپنی کابینہ میں وزیر تبدیل اور برطرف کر سکتا ہے قومی اسمبلی کے ممبران صدر کو ملیک میل بھی نہیں کر سکتے اگر عمران خان کا یہ خواب ہے تو اسے اپوزیشن کی ہلڑ بازی سے بے پرواہ ہو کر عوامی خوشحالی اور استحکامِ پاکستان کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے بلدیاتی انتخابات کروا کر اختیارات بلدیاتی ادروں کو منتقل کرنا ہوں گے آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے لئے عوام کے دل جیتنا ہوں گے اور ایسا کرنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں کرپشن کے مرتکب سیاستدانوں کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اپنے بے لگام وزیروں کی بے لگام زبانوں کو لگام دیں ۔

ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں عمران خان اگر واقعی نیک نیت ہیں تو اس دیس کا نظام تو کیا تقدیر بھی بدلی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :