’مودی جی‘ جملے بازی نہیں انسایت اپنائیں

بدھ 17 جون 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

سبھی جانتے ہیں کہ بھارتی حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہ دعوا رہا ہے کہ وہ مساوات اور اعلیٰ انسانی قدروں کے حامل ہیں مگر غیر جانبدار مبصرین دہلی کے ان حکمرانوں کے دعووں پر کسی طور پربھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ،کیوں کہ بھارتی حکمرانوں نے اپنی آزادی کے فورا بعد سے تمام اقلیتوں اور کشمیریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اس لیے تو بھارت کے کئی انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ ہندوستانی حکمرانوں نے بالعموم اور بی جے پی نے خصوصا انسانی حقوق کی جتنی پامالیاں کی ہیں اس کی دوسری مثال شائد ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔


بھارت کا حکمران گروہ کسی پرندے یہ جانور کی مو ت پر تو مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے مگر اپنے غریب عوام کی عزت اور جان سے کھیلنے کو ذرا سا بھی معیوب نہیں گروانتا۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود اپنے 56انچ کے سینے کا راگ صبح و شام الاپتا رہتا ہے اور اپنی اس بہودہ گوئی پر بجائے شرمسار ہونے کے فخر کا اظہار کرتا نہیں تھکتا۔
دوسری جانب کورونا جیسی وبا کے دوران انسانیت نے کئی ایسے مناظر دیکھے جس میں بھارت میں انسان تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس کی کوئی پروا ہ نہیں تھی۔

جس کا اندازہ اورنگ آباد کے درمیان ریلوے پٹریوں پر لاک ڈاؤن کے دوران 16مزدوں کی ہلاکت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ مزدور کئی میل مسلسل پیدل چلنے کے باعث اس قدر تھک گئے تھے کہ وہ پٹریوں پر ہی سو گئے گئے اور ایک لمحہ ایسا آیا کہ مال گاڑی انہیں کچلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئی۔
لگتا ہے انسانیت اب انسانوں کی نہیں بلکہ حیوانوں کی خوبی بن گئی ہے خاص طو ر پر بھارت میں ۔

تبھی تو جنوبی ہند کی ریاست کیرالا کے پال گھاٹ میں ایک حاملہ ہتھنی کی موت سے سارے ہندوستان میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے،مودی کے وزر تلملا اٹھتے ہیں اور رتن ٹاٹا جیسے بڑے بھارتی صنعت کار بے چین ہو جاتے ہیں ہیں۔ اس واقعہ سے وہ اس قدر دکھی ہوتے ہیں کہ بھارتی میڈیا میں ایک طرح سے تعزیتی پیغامات کی بھرمار ہو جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے قیامت آگئی ہو۔

بالی وڈ فلمی اداکار ، بڑے تاجرین اور سیاسی قائدین سب ایک ہتھنی کے مرنے سے اس قدر غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں۔
 دوسری جانب ان لوگوں کو ایک ہتھنی کی موت تو نظر آ گئی تھی لیکن تیرا اپریل سے بھارتی جیل میں بند ایک 27 سالہ حاملہ مسلم سرچ اسکالر نظر نہیں آئی ۔ ایک انسان ہوتے ہوئے انہیں ایک ہتھنی کے ہلاک ہونے کا پتہ چل جاتا ہے جس پر وہ تڑپ جاتے ہیں لیکن دو سے زائد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی صفورہ نہ زر گر کی حالت انہیں دکھائی نہیں دیتی ۔


 مودی، امیت شاہ اور دوسرے بھارتی وزرا ء نے ہتھنی کی موت کو تو یاد رکھا لیکن صورہ ذرگر کو بھلا دیا۔اسی پس منظر میں ایک انسان دوست بھارتی صحافی نے شائد ٹھیک کہا ہے کہ کیا انسان اس قدر گر چکے ہیں اور ان میں حیوانیت درندگی اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ وہ انسانوں سے ہمدردی کرنے کی بجائے جانوروں سے ہمدردی کرنے لگے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہاتھی کی موت پر غم کرنے والوں کوجئے پور شاہراہ پر وہ مزدور غریب ہندوستانی نظر نہیں آیا جو بھوک سے اس قدر نڈھال تھا کہ اس نے حرام جانور کا گوشت کھا لیا۔

افسوس ہے کہ بھارتی سرکار کو وہ لوگ دکھائی نہیں دیتے جو اپنے گھروں کے لئے پیدل چلتے چلتے دنیا سے چل بسے۔اس کے علاوہ کئی ایسے واقعات بھی پیش آئے جہاں حادثات میں ہلاک ہونے والے مزدور کی لاشوں پر معصوم بچے آنسو بہا رہے تھے۔
رتن ٹاٹا جیسے بڑے بھارتی صنعت کار کو بے شمار بھارتی یتیم بچوں کا غم اور ان کی بے بسی نظر نہیں آئی اور نہ انہیں دلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران شاہین باغ کی خواتین سے لیکر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کی بھارتی پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ بھی دکھائی نہیں دی جس میں کوئی طالب علم اپنی آنکھ سے محروم ہو گیا تو کسی کا بازو اس کے جسم سے علیحدہ کرنا پڑا۔


 اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے واقعات چار پانچ ماہ کے دوران ہی پیش نہیں آئے بلکہ مودی کے پچھلے چھ سے زائد برسوں سے ہندوستان اس سے کہیں زیادہ دردناک واقعات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے۔مذہب کے نام پر ہندوستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا، اقلیتوں ،دلتوں اور کشمیریوں کی املاک تباہ کی گئیں ،ان کی عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے، بستیوں کو جلا دیا گیا اور یہ سب کس نے اور کیوں کیا ساری دنیا جانتی ہے۔


اگر دیکھا جائے تو بی جے پی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے بھارتی مسلمانوں،کشمیریوں اور دلتوں کے خلاف ہندو انتہاء پسندی اور بھارتی پولیس کے ظلم میں اضافہ ہو ہے۔ امریکہ میں تو محض ایک جارج فلائیڈ تھا جبکہ بھارت میں بے شمار نسلی تعصب کا شکار افراد مل جائیں گے جو بھارتی پولیس کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے اور جھوٹے الزامات میں گرفتار کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان کو 56 انچ کے سینے کی نہیں بلکہ ایک اعلیٰ طرف کے حامل حکمران کی ضرورت ہے جو کسی مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :