صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی مرحوم

جمعرات 7 نومبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

 یوں تو میں نے معاشرتی مسائل، سیاسی و سرحدی حالات پر بہت سی تحریریں لکھیں مگر آج کی تحریر کا مقصد ایک کامیاب، مضبوط، نڈر اور محنتی ہستی کے بارے میں تحریر کرنا تھا جو بذات خود تو میڈیا کی زینت نا بن سکا مگر وہ ذات میں پاک فوج کا بہادر جوان، علم کا مشتاق اور فلاح و بہبود کے کام کا سرچسمہ تھا۔
25 مئی 1939 کو ضلع راولپنڈی تھانہ جاتلی کے گاؤں جھنگی پھیرو میں پیدا ہونے والا یہ شخص خالد محمود تھا جس کے 6 بھائی اور  بہنیں تھیں یہاں سب کا نام لینا مقصود نہیں۔

خالد محمود کے والد گرامی محمد فضل احمد اور والدہ کرم نور تھیں اگر معاشی حالات کی بات کی جاۓ تو غربت، فکر و فاقہ کا عالم تھا مگر خالد محمود کا بچپن سے لگاو کتب کے ساتھ تھا۔ بقول محترم خالد محمود بھٹی (مرحوم) وہ سردیوں کی راتوں میں ٹھنڈے فرش پر کتب بینی کرتے تھے تاکہ نیند نا آے۔

(جاری ہے)

صبح بعد نماز فجر گاؤں کے سبزہ زار اور کھیتوں میں جا کر اسلامیات اور رات کو ریاضی پڑھتے تھے۔

اگر ذات کی بات کروں تو خالد محمود "اعوان کتب شاہی" تھے جو "ملک اعوان یا علوی" بھی کہلاتے ہیں۔ اب آپ کے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ نام میں تو بھٹی ہے اس کی بھی ایک الگ داستان ہے۔خالد محمود کے استاد محترم آپ کو پیار سے خالد محمود بھٹی پکارا کرتے تھے اور اسی طرح آپ کے میٹرک داخلہ میں بھی نام یہی لکھا گیا۔ غربت کا یہ حال تھا کہ میٹرک کا داخلہ بھیجنے کے لیے بھی خالد محمود کے پاس پیسے نا تھے مگر خاندان کے ایک معتبر شخص محمد حسین نے داخلہ فیس دی۔

خالد محمود نے میٹرک اپنے گاؤں سے پاس کیا۔اگر میٹرک کی بات کی جاۓ تو اس زمانہ میں میٹرک کرنا بہت بڑا کام سمجھا جاتا تھا۔ میٹرک کے بعد اس مرد آہن نے ایک چھوٹی سی دوکان کھول لی اور راولپنڈی سے سامان لا کر گاؤں میں بیچنے لگا۔ ایک دن راولپنڈی میں خالد محمود صاحب سامان لے کر گاؤں واپس آرہے تھے کہ راولپنڈی میں ہی ایک فوجی گاڑی گزر رہی تھی اور ایک فوجی آواز لگا رہا تھا "ہے کوئی میٹرک پاس جو فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ھو" یہی خالد محمود کی زندگی کا اہم موڑ تھا آپ نے سامان وہیں پھینکا اور گاڑی پر سوار ھوگئے۔

گھر والد گرامی کو خط بھیج کر پتا دیا کہ آرمی میں سلیکشن ھوچکی ہے۔ 2 اکتوبر 1958 میں آپ نے پاک فوج میں شمولیت حاصل کی اور اس وقت آپ کی عمر 19 سال تھی۔ فوج میں بھرتی کے بعد ایک مرتبہ جوان خالد محمود کی اپنے گاؤں میں اپنے دوست ملاقات ہوئی جس کے نمبر میٹرک میں آپ سے کم تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس نے ایف۔اے کر لیا ہے۔ خالد محمود نے اس علمی سفر کو دوبارہ شروع کیا اور ایف۔

اے کے بعد بی۔اے، بی۔ایڈ کیا۔ اگر اس زمانے کی بات کی جاۓ تو بی۔ایڈ آج کے دور کی ایم۔ایڈ یا ایم۔فل کے برابر تھی۔
ادھر ایک اور اہم موڑ آیا اور پنجاب پولیس سے آپ کو لیٹر آتا ہے کہ آپ پنجاب پولیس کو باحیثیت افسر جوائن کر سکتے ہیں، مگر والد گرامی کی نصیحت پر آپ نے اس محکمہ کو جوائن نا کیا۔ والد گرامی کی نصیحت تھی کہ یہ شعبہ حرام کمائی کا بھی ذریعہ ہے گویا ادھر مت جاؤ۔

الغرض 2 ماہ میں GHQ راولپنڈی سے خالد بھٹی کو لیٹر آتا ہے کہ آپ ایجوکیشن کور کو جوائن کر سکتے ہیں۔ خالد محمود بھٹی ایجوکیشن کور کا ٹیسٹ دیتے ہیں تو 5 سوالات کا انگلش میں جواب دینا ہوتا ہے اور ہر سوال 20 نمبر کا تھا۔ محترم نے ایک سوال شروع کیا تو اسی پر مدلل و بھرپور تحریر لکھ دی اور پیپر کا ٹائم ختم ھوگیا۔ کم و بیش دس صفحات کا انگلش میں جواب تھا۔

پیپر چیک کرنے کے بعد افسر نے پاس اور فیل جوانوں کو الگ الگ کرنا شروع کیا۔ مرحوم بتاتے ہیں کہ سب سے آخر میں مجھے امتحان پاس ہونے والوں میں کھڑا کیا اور میری انگلش گرامر کی تعریف کی۔گویا یہ بھی رب کعبہ کا اس پر خاص کرم و احسان تھا۔پاک فوج میں آپ نے آرمی لوگوں کو پڑھانا شروع کیا اور دوسری طرف خاندانی پہلو میں خاندان کو غربت سے نکالنے کی تھان لی۔

اپنے چھوٹے اکثریت بھائیوں کو پاک فوج میں بھرتی کروایا۔یہ وہ خطہ پوٹھوہار ہے جہاں سے پاک فوج کے اکثریتی لوگ بھرتی ہوتے ہیں۔وہ بھائیوں کی بھرتی و سمت دینا تھا یا پھر سب کی شادیاں اور خوشی و غمی میں بھرپور حصہ لینا، خالد محمود اولاد، بہن بھائیوں اور پاک فوج کو یکساں لے کر چل رہے تھے۔
آپ نڈر اور دلیر انسان تھے ایک مرتبہ آپ گاؤں میں صبح صبح چہل قدمی کر رہے تھے کہ کچھ لمحے آپ کھڑے ھوگئے۔

جب چلنے لگتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ٹانگ پر سانپ نے گھیرا باندھ لیا ہے۔یہ مرد مجاھد وہیں رکتا ہے نا چیختا ہے اور نا چلاتا ہے۔ہلکا سا ٹانگ کو زمین پر مارتا ہے تو سانپ خاموشی سے اتر کر چلا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ رب نے اس شخص سے اور کام لینے تھے۔ 1965 کی جنگ تھی اور لاہور کا سیکٹر تھا یا 1971 کی جنگ میں لاہور سیکٹر تھا دونوں محاذوں پر مرد آہن کھڑا بھی ہوا اور 1965 کی جنگ میں مرد آہن نے سینے پر گولی بھی کھائی اور غازی رہے۔

یہ اس فوج کا سپاہی تھا جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترتے ہیں اور دشمن کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں۔ یہ وہ شخصیت تھی جس نے پاکستان کو بنتے اور قائد اعظم محمد علی جناح رح و علامہ محمد اقبال کو دیکھا تھا۔ ایوب خان،ذولفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، نواز شریف، بے نظیر بھٹو و آصف زرداری تک کے ادوار دیکھے تھے، انہوں نے 1965 و 1971 کی جنگیں، 1999 کا کارگل محاذ اور پھر تینوں مارشل لا بھی دیکھے۔

1965 کی جنگ کے بعد آپ کو ستارہ جرات اور تمغہ جنگ 1965 دیا۔
اسی طرح 1971 کی جنگ کے بعد آپ کو ستارہ حرب اور تمغہ جنگ 1971 دیا گیا۔ 1988 میں آپ کو تمغہ جہموریت اور اس کے علاوہ گولڈن جوبلی میڈل اور  تمغہ صد سالہ جشن قائد اعظم سے بھی نوازا گیا۔
اس کے علاوہ پاک فوج میں سروس کے دوران آپ نے مختلف شہروں میں بھی افواج پاک کی خدمت کی جن میں لاہور، کراچی، ملتان، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، خیر پور سندھ  اور اٹک (کیمل پور) شامل ہیں۔

لاہور میں قیام کے دوران آپ نے والٹن روڈ سے ملحقہ علاقہ میں کچھ زمینیں خریدیں جو سستی تھیں مگر تب کھیتوں کا منظر پیش کرتی تھیں۔ لوگوں نے آپ کا مزاخ بنایا کہ کیا غلطی کر بیٹھے ہیں نا بندہ نا بندے کی ذات اس جگہ پر اور آپ زمین لے بیٹھے ہیں مگر آپ ثابت قدم رہے۔صبح خود گھر کی تعمیر کا کام کرتے، پھر دفتر جاتے اور رات پھر گھر کی تعمیر کا سفر جاری رہتا۔

مسلسل جدوجہد سے اپنا گھر اور اولادوں کے گھر کے علاوہ بھائیوں کی شادیاں تھی یا اپنی اور بھائیوں کی اولاد کی شادیاں تھیں آپ نے مالی معاملات میں مدد کی۔
اگر فلاح و بہبود کی بات کی جاۓ تو آپ دکھی دل انسان اور غریب لوگوں کی مدد کرنا آپ کا شیوہ تھا۔ غریب، یتیم و مسکین لوگوں کا آپ کے گھر سے رابطہ ہمیشہ رہتا تھا۔ اسی طرح جوانی اور شادی کے بعد جب آپ اپنے گاؤں جاتے تو گاؤں کے غریب بچوں اور تمام رشتہ داروں کے بچوں کو فی سبیل اللہ‎ پڑھاتے۔

جس کے پاس قلم نا ہوتا اسے قلم خرید دیتے، جس کے پاس کاپی نا ہوتی کاپی لے دیتے۔ آج انہیں کے طلبا شعور یافتہ و مقامات پر فبچ کر انہیں دعایں دیتے ہیں۔ تعلق میں آپ میرے دادا جان تھے اگر اولاد کی تعلیم و تربیت بات کی جاۓ تو وہ الگ داستان ہے مگر مجھ سے آپ کا پیار بے حساب تھا۔میری میٹرک میں کامیابی اور امتیازی نمبروں سے کامیابی پر آپ نہایت خوش تھے اور مجھے آپ نے مزید علم کا سفر جاری رکھنے کی نصیحت کی۔


آپ نے کہا کہ "شک تمہیں پڑھنے کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک میں جانا پڑے میں تمہاری مالی مدد کروں گا"۔ پھر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ کالج لائف کی داخلہ فیس سے لے کر یونیورسٹی کی بھاری فیس ادا کرنے میں آپ کا اہم کردار تھا۔ میرے اخراجات میں حتی کہ یونیورسٹی جانے کے لیے موٹر سائیکل کا بھی اہتمام آپ نے کیا اور والد گرامی کو کافی حد تک مالی معاملات میں چھوٹ دی۔

یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ آپ کا علم و تعلیم سے کتنا لگاو تھا۔
صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی 32 سالہ پاک فوج کی سروس کے بعد 2 اکتوبر 1990 پاک فوج سے ریٹائر ھوجاتے ہیں۔ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد فلاحی کاموں میں مصروف رہے۔فلاحی کام تھے یا مساجد کی تعمیر آپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔سیاست اور صحافت سے آپ کو قلبی لگاو تھا۔ ہر روز اخبار کا مطالعہ آپ کا مشغلہ رہا۔

حالات حاضرہ خواہ وہ بین الاقوامی تھے یا ملکی، معاشی، سیاسی و سرحدی ہر پہلو پر نظر رکھتے تھے۔ اس میں معلومات اور حالات حاضرہ پر گفتگو کے لیے مجھ نا چیز صحافی کا استعمال کرتے۔ مسلسل زندگی گزارنے والا یہ شخص اس قدر فٹ تھا کہ روز صبح ورزش آپ کا معمول تھا۔ کسی جوان کی کلائ پکڑ لیتے تو اسے چھڑوانا مشکل ھوجاتا۔مسلسل بھرپور زندگی گزارنے والا اور اپنی نسل کو یکجا رکھنے والا یہ مرد آہن زندگی کے نشیب و فراز دیکھتے دیکھتے اور اپنی آخری منزل کی جانب رواں دواں تھا۔


22 اکتوبر 2019 کی صبح 10 بجے صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی دل کا دورہ پڑنے پر دنیا فانی کو چھوڑ کر چلے گئے۔یہ اس خاندان و ملک و قوم کا وہ چمکتا ہوا تارا تھا جو خود تو روشن تھا ہی مگر ہر وقت محو رہا کہ خاندان و اردگررد کے بچوں میں بھی علم کی روشنی جلاتا رہے۔ یہ وہ چمکتا ہوا تارا تھا جو ملک و قوم خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑتا رہا اور سینے پر گولی تک کھای۔

آپ مذہبی رہنمائی کے لیے تحریک منہاج القرآن کے لائف ممبر تھے۔ محترم خالد بھٹی صاحب کا نماز جنازہ چیئرمین سپریم کونسل۔منہاج القرآن ڈاکٹر حسن محی الدین القادری نے  باب پاکستان گراؤنڈ لاہور میں پڑھایا جبکہ بانی و سرپرست۔منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پسماندگان سے اظہار تعزیت بھی کی اور دعاے مغفرت فرمائی۔ مرحوم کا نماز جنازہ لاہور کے معروف گراؤنڈ، باب پاکستان گراؤنڈ میں ادا کیا گیا۔

یہ وہی تاریخی گراؤنڈ ہے جہاں پر تحریک آزادی کے مہاجرین نے پہلا قیام تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح رح و محترمہ فاطمہ جناح رح خود یہاں تشریف لائیں تھیں۔یہ وہی گراؤنڈ ہے جہاں 15 اگست 2019 کو حالیہ کشمیر مسلہ میں شہید ہونے والے پہلے پاک فوج کے جوان لانس نائیک تیمور اسلم (شہید) کا نماز جنازہ پڑھایا گیا۔ کچھ لوگ زندہ نا ھو کر بھی زندہ رهتے ہیں۔

بے شک صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی نے علم، سماجی و فلاحی کام، دھرتی کی خاطر خون بہا کر اور غربت سے نکل کر کامیاب شخص بن کر پتایا کہ ہمت، حوصلہ اور لگن سے انسان آسمان کی بلندیوں کو بھی چھو لیتا ہے۔ آپ نے وفات سے چند دن پہلے خوش مزاج لہجے میں شعر پڑھا تھا کہ
یہ زندگی کے میلے دنیا سے کم نا ہوں گے
افسوس! ہم نا ہوں گے
بے شک میری تحریر ایک چھوٹی سی کاوش تھی، بے شک یہ بھی انکی ہستی کے لیے کم ہوگی۔

نوجوان نسل کو علم کا دامن تھامنا ہوگا کیونکہ جس نے اس کی قدر کی وہی ترقی کی جانب بڑھا اور اسکی مثال ہی آج ہستی تھی۔اللہ‎ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے مغفرت فرماۓ۔آمین
 بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :