
جنونِ وفا کی تصویر، اہل کشمیر
منگل 28 مئی 2019

حیات عبداللہ
(جاری ہے)
درد انسان کی بنیاد ہلا دیتے ہیں
سیخ پا بھارتی فوج گولیاں برسا دیتی ہے وہ لاٹھی چارج کر دیتی ہے مگر کئی عشروں پر پھیلی محبت کے سامنے سدّ راہ بننے کے لیے یہ گولیاں محض پٹاخوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
پاکستانی پرچموں کو لہراتے وقت اہل کشمیر درحقیقت اپنے دل لہرا رہے ہوتے ہیں، وہ گولیوں کی سنسناہٹ اور گولوں کی گھن گرج میں بیچ چوراہے پر نکل کر ہمارے جھنڈے لہرا لہرا کر بھارت کو دکھاتے ہیں کہ پاکستان ہمیں اپنی جانوں سے بھی پیارا ہے، کیا جذبات و احساسات کی صداقت اور نزہت کا اس سے بھی بڑا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے کہ کوئی گولیوں کی برسات میں سینہ تان کر کھڑا ہو جائے؟ اگر پاکستان میں بھی کسی جگہ گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں تو ہمارے دل دہل جاتے ہیں اور ہم اپنے بچوں اور جوانوں کو وہاں جانے سے روک دیتے ہیں مگر کشمیریوں کا جنونِ وفا دیکھیے کہ وہ اپنے جرم محبت کا اعتراف کرنے کے لیے اپنی جانوں کی پروا نہ کر کے، دیوانہ وار امنڈ آتے ہیں۔
نہتی مگر جان قربان کرڈالنے والی محبتوں کی اس طغیانی کے سامنے آٹھ لاکھ بھارتی فوج آج ناکام و نامراد اور خائب و خاسر ہو چکی ہے، اسی لیے بھارت مزید فوج بھیجنے کا اعلان کرتا رہتا ہے کہ کسی طرح ان بے کراں باغی عقیدتوں کو پابہ زنجیر کر دیا جائے مگر احمق اور پاگل بھارتی حکومت کو کیا خبر کہ وارفتگی اور وابستگی کے ایسے طوفانِ بلاخیز کے سامنے دنیا کی ہر طاقت تارِ عنکبوت ہی ثابت ہوا کرتی ہے (ان شاء اللہ)
مقبوضہ وادی ہماری موت اور زندگی کا مسئلہ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ جب ہم کشمیریوں کے بام دل پر سجا محبتوں کا عنوان ''پاکستان'' دیکھتے ہیں تو ہماری یہ مجبوری دوچند ہو جاتی ہے۔ نواز شریف ہو یا عمران خان ان کے دل کے خوابیدہ احساسات میں بیداری کا کوئی امکان یہ سوچ کر بھی کیوں پیدا نہیں ہوتا کہ اہل کشمیر تو بھارتی فوج کے سامنے بھی ہمارے ساتھ رہنے کے نعرے لگاتے ہیں اور ایسے نعرے لگانا کوئی اتنا سہل اور آسان تو نہیں، وفاؤں کی یہ داستانیں دیکھ کر توپتھریلے دل رکھنے والے اہل جفا بھی وفائیں کرنے کی قسمیں اٹھا لیتے ہیں۔مگر پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ اور متین کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ ہر علاقے کی لوک داستانیں معروف ہیں لیکن اگر یہ جدید دنیا ''گلوبل ویلج'' بن چکی ہے تواس ساری دنیا کی لوک کہانی کشمیر کے اہل وفا لوگوں نے ایک طویل تسلسل کے ساتھ اپنی جانیں قربان کر کے رقم کی ہے، اب ذرا ہم بھی دیکھیں کہ ہم ویسے ہی جذبات کے جلو میں زندہ و جاوید ہیں یا نہیں؟ لاریب ہماری ہزاروں ماؤں نے اپنے گھبرو جوانوں کو نازونعم سے پال پوس کر تحریک آزادی کشمیر کو جلا بخشنے کے لیے بخوشی روانہ کر دیا، یہ بات محض لکھنی اور پڑھنی تو بڑی ہی آسان ہے مگر اپنے جگر گوشوں کو کشمیر کی طرف روانہ کر دینا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے، ہمارے ہزاروں نوجوان آج جنت نظیر کشمیر میں دفن ہیں، ہمیں ان ماؤں اور ان شہدا پر فخر ہے یقیناًیہ ایک گراں مایہ اعزاز اور افتخار ہے مگر لمحہء فکریہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر تحریک آزادی کشمیر کے لیے کس قدر کوششیں کی جا رہی ہیں؟ پاکستانی حکمرانوں سے ہر کشمیری سوال کناں ہے کہ
آنکھیں ملاؤ ہم کو ہمارا جواب دو
تم ناخدا تھے اور تلاطم سے آشنا
کشتی کو کیوں ملا نہ کنارا جواب دو؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حیات عبداللہ کے کالمز
-
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
ہفتہ 5 فروری 2022
-
اشعار کی صحت
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
اشعار کی صحت
جمعہ 19 نومبر 2021
-
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
ہفتہ 14 اگست 2021
-
جب بھی اہلِ حق اُٹھے، دوجہاں اٹھا لائے
منگل 8 جون 2021
-
وہ دیکھو! غزہ جل رہا ہے
ہفتہ 22 مئی 2021
-
القدس کے بیٹے کہاں ہیں؟
منگل 18 مئی 2021
-
کوئی ایک گناہ
بدھ 12 مئی 2021
حیات عبداللہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.