اور واشنگٹن ہار گیا

بدھ 11 مارچ 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

وہ درد تھے ہی ایسے کہ کوئی دانا وبینا قلم کار بھی اُن کے جسم وجاں پر ٹُوٹنے والے زخموں کی خون چکاں داستان کو لکھ ہی نہیں سکتا۔وہ زخم تھے ہی اس نوع کے کہ کوئی فصیح وبلیغ مقرر بھی اُن کے تنِ نازک پر لگائے جانے والے چرکوں کو بیان کر ہی نہیں سکتا۔وہ گھاؤ اتنے گہرے تھے کہ کوئی فہیم اور زیرک شخص بھی اُن جان سوز سانحات کو محسوس کر ہی نہیں سکتا۔

زخموں کی شدّت اور حدّت کا احساس ان ہی کو ہوتا ہے جن کے جسم وجاں ان آزار سے برسرِ پیکار رہے ہوتے ہیں۔گوانتا ناموبے کے زندانوں سے لے کر ابو غریب کے عقوبت خانوں تک بلکتی آہوں، سسکتے آنسوؤں، کپکپاتی چیخوں اور دل فگار سسکیوں کا ایک ایسا تسلسل تھا کہ جس نے انسانیت کے دلوں کو دہلا اور ضمیروں کو شرمندہ تر کر ڈالا تھا۔

(جاری ہے)

معلوم نہیں وہ صبروتحمّل کے دھنی کن سانچوں میں ڈھلے تھے کہ دل درد سے لدنے اور جسم وجاں زخموں سے اٹنے کے باوجود اُن کے پائے استقامت میں ذرا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا تھا۔

دنیا کا وہ کون سا گھاؤ تھا جو اُن کے وجود پر نہ لگایا گیا ہو۔انھیں کنٹینروں میں بند کر کے مارا گیا، اُن پر لٹھ برسا کر بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔نہ صرف اُن کی خواتین کی عصمتیں لُوٹی گئیں بلکہ جانوروں کی مانند اُن کی منڈیاں لگا کر بولیاں تک لگا دی گئیں۔دنیا کے 59 اسلامی ممالک کے حکمران اُن چیخوں کو سن کر سہمے سمٹے، کونوں کھدروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے نشے میں دھت ایک رعونت شعار طاقت، تورا بورا کے کوہساروں سے لے کر دشتِ لیلہ کے ریگ زاروں تک سفاکیت کی داستانیں بکھیرتی جا رہی تھی۔ظلم دیکھیے کہ جس کسی نے امریکی بربریت کا بھانڈا پھوڑا، اسے بھی تشدّد کا نشانہ بنایا گیا۔
”جوڈرابی“ ایک ایسے امریکی فوجی کا نام ہے، جسے ابو غریب جیل میں امریکی فوجیوں کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا۔

اُس کی تعیناتی کو سات ماہ گزرے تھے کہ ابوغریب کے عقوبت خانے میں قید عراقیوں پر امریکی فوجیوں کے روح فرسا ظلم کی تصاویر دیکھ کر اُس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔وہ اس قدر پریشان اور غم زدہ ہوا کہ سخت گرمیوں کی رات میں بغداد کی سڑکوں پر سگریٹ پھونکتا پھرتا رہا۔وہ حیران تھا کہ یہ ظلم کرنے والے اُس کے سکول اور کالج کے دوست تھے۔ان تصاویر کی سی ڈی اُس کے دوست چارلس گارنر نے اس شرط پر دی تھی کہ وہ اسے صیغہ ء راز میں رکھے گا مگر ان دل دوز مناظر نے اُس کے دماغ میں بھونچال پیدا کر دیا تھا۔

جوڈرابی نے ایک تصویر میں دیکھا کہ عراقی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بالکل برہنہ کر کے انھیں ایک دوسرے کے اوپر نیچے ڈال کر ایک مینار بنا دیا گیا تھا۔اسے یقین ہی نہ آیا کہ یہ ابوغریب جیل میں قید لوگوں کا مینار ہے۔ان میں سے کچھ تصاویر میں چارلس گارنر خود عراقی قیدیوں پر تشدّد کر رہا تھا۔ایک تصویر میں ایک عراقی نوجوان بالکل برہنہ گھٹنوں کے بل کھڑا تھا اور اس کا سر ایک بوری سے چھپا دیا گیا تھا۔

ان میں جس سفاک امریکی خاتون کی تصاویر سب سے زیادہ تھیں، اُس کا نام”لینڈی انگلینڈ“ تھا۔وہ کسی تصویر میں قیدیوں کے گلے میں کتوں کی طرح رسّی ڈال کر کھینچ رہی تھی تو کسی تصویر میں برہنہ قیدیوں کے انبار کے پیچھے کھڑی مسکرا کر وکٹری کا نشان بنا رہی تھی۔وہ قیدیوں کے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کو اپنے پاؤں تلے مسل رہی تھی۔ایک تصویر میں وہ ایک ایسے قیدی کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی تھی جو تشدّد کے باعث مر چکا تھا۔

”جوڈرابی“ کے نزدیک یہ امریکی فوجیوں کا بھیانک کردار تھا جسے چُھپانا اس بھی بڑا ظلم تھا۔وہ کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر اسے کیا کرنا چاہیے؟ بالآخر اس نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کے نمائندے مائیکل لوریک کو یہ ظلم بتانے کا فیصلہ کر لیا۔یوں امریکی درندگی کا تھوڑا بہت راز فاش ہو گیا۔
امریکی انتظامیہ کا فرض تھا کہ اُس کا نام صیغہ ئراز میں رکھا جاتا مگر رمز فیلڈ نے اپنی تقریر میں اُس کا نام لے ڈالا۔

”جوڈرابی“یہ سن کر سٹپٹا گیا تھا۔اُس کا نام منظرِ عام پر آنا تھا کہ امریکا میں اُس کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔تعلیم یافتہ اور مہذّب معاشرے کی ذرا ایک جھلک ملاحظہ کیجیے کہ امریکیوں نے اُسے غدار کہنا شروع کر دیا۔اُس کی بیوی کے ساتھ اس قدر بے ہودگی کی گئی کہ وہ اپنی بہن کے گھر رہنے پر مجبور ہو گئی۔اُس تہذیب یافتہ معاشرے کے لوگوں نے اس کے گھر کی دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھ دیے۔

مجبوراً جوڈرابی کا خاندان اپنا قصبہ چھوڑ کر دوسرے قصبے میں منتقل ہو گیا۔اُس نے فوج کی ملازمت چھوڑ کر دوسری جگہ نوکری کر لی۔حتی کہ اس نے اپنی شناخت تک تبدیل کر ڈالی تھی مگر اُس کے خلاف نفرت کی آگ سلگتی ہی رہی۔
یہ تو چند تصاویر تھیں جنھوں نے ایک امریکی فوجی کو لرزا ڈالا تھا، حقیقت میں ابو غریب اور گوانتاناموبے کے زندانوں میں کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ان کا علم کسی بھی شخص کو نہیں۔

امریکی فوج وحشیوں کی طرح عراقیوں اور افغانیوں کے وجود کو نوچتی اور بھنبوڑتی رہی مگر گوانتا ناموبے اور ابو غریب کے باہر کی دنیا نے اپنی پلکیں اٹھا کر بھی نہ دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ امریکی فوج کے اس قدر وحشیانہ سلوک کے منظرِ عام پر آنے کے بعد امریکی محکمہ ئدفاع نے ایک سروے کیا کہ امریکی فوجی ظلم کیوں کرتے ہیں؟ امریکی فوج کی ایک مینٹل ہیلتھ ایڈوائزری ٹیم نے یہ سروے اگست 2006 تا اکتوبر 2006 کے دوران کیا تھا، اس میں سترہ سو سے زائد میرینز اور فوجیوں کا جائزہ لیا گیا تو حیران کن انکشاف ہوا کہ فوجیوں کی اکثریت ظلم کی حامی تھی۔

پھر اس کی وجوہ تلاش کی گئیں تا کہ دنیا کی آنکھوں میں اچھی طرح دھول جھونک کر انھیں بے وقوف بنایا جا سکے اور پھر وجہ یہ پیش کی گئی کہ امریکی فوجی شدید ڈیپریشن کے شکار ہیں سو یہ تشدد کرتے ہیں۔مینٹل ہیلتھ ایڈوائزری ٹیم نے کہا کہ جو امریکی فوجی 6 ماہ سے زائد تک عراق یا افغانستان میں رہتا ہے وہ مختلف قسم کے ذہنی عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔


کیا اُن قیدیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کا ازالہ ہو سکتا تھا؟ کیا کوئی بھی شخص اُن کے وجود پر لگے کسی ایک گھاؤ کی بھی قیمت ادا کر سکتا تھا؟ ہر گز نہیں! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا تھا مگر امریکا نے ان قیدیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کا پروگرام بنایا۔ابو غریب جیل میں تشدّد کے الزامات کا سامنا کرنے والی ایک نجی دفاعی کمپنی نے سابق قیدیوں کی زرِ تلافی کے طور پر پچاس لاکھ ڈالر ادا کرنے کا اعلان کیا۔

امریکی کمپنی انٹیلی جینس ہولڈنگز نے، ابو غریب کے 71 سابق قیدیوں کو ایل تھری کمپنی کی جانب سے معاوضہ ادا کرنے کا”مژدہ“ بھی سنایا۔ایک اور نجی کمپنی کا نام”سی اے سی آئی“ ہے، اس نے بھی قیدیوں پر بدترین تشدّد کیا، اسے بھی معاوضہ ادا کرنے کا کہا گیا۔ظالمو! تم انسانیت سوز ظلم کے پہاڑ کے توڑ معاوضے کی بات کر کے مسلمانوں کی بے چارگی کا مذاق اڑاتے رہے ہو۔

کیا معاوضہ ادا کرنے کے اعلانات اس بات کے غماز نہیں تھے کہ امریکی فوج نے قیدیوں پر بے پناہ ظلم کیے ہیں۔
زخم جس کو لگتے ہیں وہی ان سے ابلنے والے درد کو محسوس کرتا ہے۔ظلم وجبر جس وجود پر ڈھایا جاتا ہے وہی اس سے اٹھنے والے اضطراب کو محسوس کر سکتا ہے۔آج حالات کے دھارے یکسر بدل چکے، منہ زور آندھیوں اور سرکش ہواؤں کا رخ موڑ دیا گیا۔آج ٹرمپ خود کہنے پر مجبور ہو گیا کہ طالبان بہادر اور دلیر ہیں۔

وہ جو افغانستان کو تاراج اور افغانیوں کو بھسم کرنے آئے تھے، وہ 2011 سے کشکول اٹھا کر مذاکرات کی بھیک مانگ رہے تھے۔2011 میں واشنگٹن پوسٹ نے لکھا تھا کہ طالبان کے سامنے امریکا جھک گیا ہے۔جنوری 2012 میں امریکا نے طالبان کو قطر میں مذاکرات اور دفترِ خارجہ قائم کر ے کی اجازت دی تھی۔ایک اور امریکی میگزین دی نیو یارکر کے صحافی اسٹیو کول نے فروری 2012 میں واشگاف الفاظ میں لکھا تھا کہ اوباما انتظامیہ طالبان قیادت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہی ہے۔

30 جولائی 2012 کو امریکا، سعودی عرب کے سامنے فریاد کناں ہوا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کروائے۔برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق امریکا ملّا عمر سے براہِ راست مذاکرات چاہتا تھا، اس مقصد کی تکمیل کے لیے امریکا نے کئی طالبان راہنماؤں کو رِہا بھی کیا تھا۔امریکا جتنی شدّت کے ساتھ مذاکرات کے لیے”گِھسّی“کرتا، وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ انکار کر دیتے۔

آج دنیا کو سمجھ جانا چاہیے کہ سپرپاور امریکا نہیں، اسلام ہے۔
ایک ٹریلین ڈالر خرچ کروا کر، 2300 سے زائد امریکی فوجیوں کو مار اور 20 ہزار سے زائد کو زخمی کر کے اور 45 ہزار افغان فورسز کو اگلے جہان رخصت کر کے، آج افغانستان کے جری سپوت ایک نام نہاد سپر پاور کو گھسیٹ کر مذاکرات کی میز پر لے آئے ہیں، بالکل اُسی طرح جس طرح لینڈی انگلینڈ نے ابو غریب کے عقوبت خانے میں قیدیوں کو گھسیٹا تھا، جی ہاں! جس طریقے سے لینڈی انگلینڈ لاشوں کے عقب میں کھڑی وکٹری کا نشان بنا رہی تھی، آج افغانستان جیت چکا، اور واشنگٹن ہار گیا ہے۔اگر بھارت میں ذرا سی بھی عقل وخرد ہے تو پینٹاگون کی اس شکست سے بھارت کو عبرت ضرور حاصل کر لینی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :