"پاکستان کا مستقبل، ایم ایل ون منصوبہ"

منگل 18 مئی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

چین نے بالآخر 6 بلین ڈالرز کا قرضہ پاکستان کو ایم ایل ون منصوبے کی تعمیر کے لئے منظور کرلیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ منصوبہ اس سال کے آغاز سے ہی شروع ہونا تھا مگر چین اور پاکستان کے درمیان شرحِ سود کے معاملات پر یہ پروجیکٹ تعطل کا شکار رہا۔ پاکستان چاہتا تھا کہ انٹرسٹ ریٹ 1 فیصد ہو جبکہ چین 2 فیصد کی ضد پر اڑا رہا۔ اس کے علاوہ دوسرا سب سے اہم اختلاف یہ تھا کہ چین ان قرضوں کی فراہمی چینی کرنسی یوآن میں کرنا چاہتا تھا جبکہ پاکستان نے امریکی ڈالرز کی ضد رکھی۔

اب سننے میں آرہا ہے کہ کافی اختلاف کے بعد بالآخر دونوں ملکوں نے اپنی ایک ایک ضد چھوڑ کر پروجیکٹ پر مل کر کام کرنے کے لئے اکتفا کرلیا ہے اور دو ماہ بعد اس پر عملی کام کا آغاز شروع بھی کرلیا جائے گا۔

(جاری ہے)


اگر ایم این ون منصوبے کی بات کی جائے تو یہ کراچی سے پشاور تک ازسرِنو تعمیر کی جانے والی ریلوے ٹریک کا نام ہے جسے برطانوی راج کے دوران سن 1861 سے 1900 درمیان تعمیر کیا گیا تھا جو چار مختلف لائنوں پر مشتمل تھا اور جنہیں چار مختلف کمپنیاں چلایا کرتی تھی۔

1870 میں یہ چاروں کمپنیاں ایک دوسرے میں ضم کرکے شمالی مغربی ریلویز کے نام سے اس خطے میں چلائی جانے لگی۔  پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ پاکستان ریلوے کا حصہ بن گئی اور تب سے یہ اسی حالت میں رہی جس طرح انگریز 1947 میں چھوڑ کر گئے تھے۔ ریلوے ٹریک کی حالتِ زار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ لوکوموٹوز جو 160 کی رفتار سے چل سکتی ہیں اسے خراب ٹریک کی وجہ سے 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر ہی اکتفاء کرنا پڑتا ہے اور کہی کہی تو ٹریک اتنی خراب ہوتی ہے کہ ریل گاڑی کو 15 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چلایا جاتا ہے۔


 2013 میں پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے 47 بلین ڈالرز کا سی پیک معاہدہ ہوا جو پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو سمیت چین کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر تک رسائی دیتا۔ 2020 میں بالآخر چین اور پاکستان نے ایم ایل ون کی تعمیرِ نو کو بھی سی پیک کا حصہ بنا لیا جس کے تحت کراچی سے پشاور تک خستہ حال ٹریک کو اکھاڑ کر ازسرِنو تعمیر کیا جائے گا۔

تمام پھاٹکوں کو ہٹاکر وہاں انڈرپاس یا فلائی اووز تعمیر کی جائینگی۔ تمام سگنلز کو انٹرنیٹ کے ذریعے آٹومیٹک جب کہ ٹریک کے چاروں طرف خاردار تاریں لگاکر باڑ لگائی جائے گی تاکہ کسی بھی قسم کے حادثات کو ہونے سے روکا جاسکے اور ریل کی روانی میں بھی کوئی رکاوٹ نا ہو۔ اس پروجیکٹ کے تحت کراچی سے پشاور کے درمیان تمام بڑے اسٹیشنوں کو ورلڈ اسٹینڈرڈ پر اپگریڈ کرکے ڈیزل الیکٹرک لوکوموٹوز اور ورلڈ اسٹینڈرڈ مسافر کوچز منگوائی جائیں گی۔


بات کی جائے اس کے اسپیڈ تو اس کی تعمیر کے بعد ٹرین کی فی گھنٹہ رفتار 160 کلومیٹر ہوجائے گی جس سے کراچی سے پشاور تک کا سفر 27 گھنٹوں کے بجائے 11 گھنٹوں میں طے کیا جاسکے گا۔ جب کے مال گاڑیوں کی رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی جس سے پاکستان کی موٹوویز اور شاہراہوں پر نا صرف مال بردار ٹرکوں کا لوڈ کم ہوگا بلکہ پاکستان 500 ملین ڈالرز کا امپورٹ کیا ہوا ڈیزل کا خرچہ بھی بچا سکے گا۔

اس کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پاکستان ریلویز کو گوڈز ٹرانسپورٹیشن میں 35 ملین ڈالرز کا فائدہ ہوگا۔ اس کا ایک منفی پہلو ہے کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے اکثر لوگ جو گوڈز ٹرانسپورٹیشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں ایم ایل ون منصوبہ ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ اگر حکومت اس مسئلے کا حل نکال کر اس منصوبے پر کام کا آغاز کرتی ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔ نا صرف پاکستانی شہریوں کو فائدہ پہنچائے گا بلکہ کاروباری سرگرمیاں مزید پروان چڑھے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :