سرعام لٹکاؤ مجوموں کو

پیر 14 ستمبر 2020

Javed Ali

جاوید علی

اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی بحران کا شکار ہے اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں جن میں پہلی وجہ انصاف کا نہ ہونا ہے- جب کوئی بھی معاشرہ اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتا ہے تو پھر انسانیت اس معاشرے کے انسانوں میں کم ہوتی چلی جاتی ہے- چلنے پھرنے, کھانے پینے, اٹھنے بیٹھنے اور شکل و صورت سے تو وہ انسان ہی نظر آتے ہیں لیکن ان میں انسانیت نام کی کوئی شے نہیں ہوتی- اللہ تعالی اس حالت کو قرآن پاک کے اندر یوں فرماتا ہے کہ
" بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا- پھر اسے نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیر دیا"
اس حالت میں انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتا چلا جاتا ہے- اسی طرح کے کچھ لوگ ہمارےمعاشرے میں بھی پاۓ جاتے ہیں جو پیدا تو انسانوں کے گھر ہوتے ہیں لیکن انہیں انسان کہتے ہوۓ بھی انسان کو شرم آتی ہے-
اسی طرح کے درندوں بھیڑیوں کے ہتھے روزانہ کئی باپوں کی بیٹیاں اور بھائیوں کی بہنیں چڑھتی ہیں اور وہ باپ بھائی چپ سادھے انہی بھیڑیوں کے دروازوں پر اندر سے خون کے آنسو روتے بیٹھے رہتے ہیں- ان بھیڑیوں کے ہاتھوں بچے محفوظ نہ بچیاں لیکن ان کی مسلسل عزتیں لوٹی جارہی ہوتی ہیں- ان میں اکثر غریب ہوتے ہیں جو پنجاب میں سرداروں, میاں, چودھری, مہر وغیرہ, سندھ, بلوچستان اور کے پی کے وڈ وڈیروں کے ڈیروں پر بکے ہوۓ بیٹھے ہیں- ان سے زیادتی کا کوئی بھی کیس نہ تھانہ میں درج ہوتا ہے اور نہ ہی میڈیا کی سکرین پر آتا ہے کیونکہ گاؤں میں اپنی عزت بچانے کی خاطر, جان سے مار جانے کے ڈر سے یا پھر دو وقت کا نوالہ چھن جانے کی وجہ سے چپ سادھ لی جاتی ہے دوسری بات وہاں اتنا اس بارے میں شعور بھی نہیں ہوتا-
 یہ جو ان دنوں لاہور سے موٹروے پر کار میں جاتی ہوئی ہماری بہن کے ساتھ سانحہ پیش آیا اور میڈیا پر رپورٹ ہوا- اس لئے رپوٹ ہوا کہ وہ عورت پڑھی لکھی اور بولنے کی ہمت رکھتی تھی ورنہ یہ بھی ہماری آنکھوں سے اوجل رہتا- ہم اس پر غم و غصہ کے اظہار کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں لیکن اس پر بہت سارے سوال اٹھتے ہیں- پہلا تو سوال انتظامیہ کی کارکردگی پر اٹھتا ہے کہ انتظامیہ کیا کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

ہم سب جانتے ہیں کہ موٹروے کو بندہ پیدل کراس نہیں کر سکتا دوسرا موٹروے پر سائیکل, موٹر سائیکل کی اجازت نہیں ہوتی, تیسرا موٹروے پولیس کا ایک علیحدہ نظام ہوتا ہے جس کے تحت موٹروے کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور پھر ایمرجنسی وغیرہ کےلئے علیحدہ سے سروسز کا انتظام ہوتا ہے تاکہ موٹروے پر کوئی بھی حادثہ ہو تو اس سے نمبرازما ہویا جا سکے- کیا یہ رولز وہاں پر لاگوں تھے۔

یقینا نہیں تھے- اتنا وقت گاڑی رکی رہی موٹروے پولیس کو وہاں کال کے بغیر پہنچنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومت کو افتتاح کرنے کی جلدی تھی اور ٹیکس کی صورت میں عوام کو لوٹنا تھا لیکن انہیں عوام کی موٹروے پر حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ہمیں جلدی سے جلدی کریڈٹ کو اپنے نام کرنا تھا- ان واقعات سے حکومت کے پول کھلتے جا رہے ہیں جو حکومت ایک موٹروے کو ایڈمنسٹر نہیں کر سکتی تو ہم اس سے کیا توقع رکھیں کہ وہ حکومتی مشینری کو فعال کر سکتی ہے-
اس طرح کے واقعات کی اصل وجہ انصاف کا نہ ہونا ہے اگر ایک دفعہ عبرت ناک سزا دی جاۓ تو ایسے واقعات کبھی نہ ہوں- ضیاء دور میں پپو قتل کیس میں مجرموں کو سرعام لاکھوں لوگوں کے سامنے پھانسی دی گئی کہ لوگوں پر ریاست کا ایک خوف طاری ہو گیا اور آٹھ نو سال تک کوئی ایسا واقعہ نہ پیش آیا- قتل تو ہوۓ لیکن ریپ اور اس انداز سے کوئی قتل نہ ہوا-  دقسمتی سے اب لبرل آنٹیاں اور انکل نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ یہ ہیومن رائٹس والیشن ہے- 2005 میں جب ہم نے یورپین یونین کے پریشر میں آ کر پھانسی کو ختم کردیا تو نتیجہتن ہمارے ملک میں کرائم کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی اور اے پی ایس واقع کے بعد پھر ہم نے پھانسی کی اجازت دے دی تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے-  ہمیں مجرموں کو سایا شفقت دینے کی بجاۓ قانون کے سپرد کرنا چاہیے سیاسی وابستگیاں چھوڑ دینی چاہیے-
ان سارے واقعات میں ریاست کہاں کھڑی ہے  پہلی بات تو یہ ہے ہم ریاست کو بناتے کوں ہیں صرف اور صرف دو مین وجہ ہیں ہم خود انصاف نہیں کر سکتے ہمارے درمیان انصاف کرے دوسرا ہم اپنی جان و مال کی حفاظت نہیں کرسکتے, ریاست ہماری جان و مال کی حفاظت کرے- اگر یہ دونوں کام ریاست نہیں کر سکتی تو میرا خیال ہے ہم اپنا پیسہ ٹیکس کی صورت میں ذمہ دار حکومتی یا ریاستی اداروں پر ضائع کر رہے ہیں- سی سی پی او صاحب کا بیان انتہائی غیر ذمہ درانہ, غیر پیشہ ورانہ اور غیر دانشمندانہ ہے شائد یہ صاحب اخلاقیات بھول گئے ہیں جو انہیں ٹریننگ کے دوران سیکھائی جاتی ہیں جو انہوں نے کہا کہ عورت کو رات کو باہر نہیں نکلنا چاہیے گاڑی کا پٹرول چیک کر لینا چاہیے تھا- میرا سوال بس یہ ہے کہ آپ نے کوئی قانون قاعدہ بنایا ہوا ہے کہ رات کو عورت اس وقت سفر نہیں کر سکتی, بچے اس تک سفر کر سکتے ہیں اور اس وقت نہیں اور اگر اس دوران کوئی سفر کرے گا تو وہ خود ذمہ دار ہو گا اگر یہ نہیں ہے تو آپ ذمہ دار ہیں اور غلطی نہ صرف تسلیم کریں بلکہ گھر جائیں آپ اس آفس کے قابل نہیں-
ہمارا ملک چونکہ جمہوری ہے جس کے بانی نے آزادی سے پہلے ایک سو ایک اور آزادی کے بعد تقریبا چودہ بار فرمایا کہ پاکستان اسلامی, جمہوری اور فلاحی ریاست ہو گا- ہمیں انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر مجرموں کو سزا دینی چاہیے-  زیادہ تر عوام کی راۓ سر عام پھانسی کی ہے تو حکومت کو مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے اور الحمداللہ ملک ہمارا اسلامی ہے تو سرعام پھانسی ہونی چاہیے کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب مجرموں کو سرعام سزائیں دی ہیں تو ہماری ریاست مدینہ کی دعوہ دار حکومت کو  ان مجرموں اور ان کی حمایت کرنے والے وزیروں مشیروں سب کو سرعام پھانسی دینی چاہیے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :