سیاست کی بساط پر میاں نواز شریف کا جارحانہ انداز!

جمعرات 22 اکتوبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

سب اینکرز اور صحافی ٹی وی ٹاک شوز اور اپنے کالموں میں میاں نواز شریف کی ایک طویل چپ ٹوٹنے اور یک دم شدید مزاحمت اور جارحانہ انداز کی وجہ پر بحث میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے علم کے مطابق اندازے لگا رہے ہیں۔ کچھ صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ میاں نواز شریف کو کسی قسم کی کوئی سپورٹ ہے یا اْن کے پاس کوئی تْرپ کا ایسا پتّا ہے جسے وہ وقت آنے پر “شو” کریں گے۔

مگر ایک سوال جس پر سب متفق ہیں وہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف اْس وقت کیوں نہیں بولے جس وقت سیاست کی بساط پر پرویز مشرف کو بچانے کے لئیے دھرنے، پاناما کیس کے ذریعے نااہلی اور حکومتی کاموں میں مداخلت کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔میرے خیال میں میاں نواز شریف نے 1999 میں اقتدار چھن جانے کے بعد ایک سال کی قید، اور پھر 8 سال کی جلا وطنی اور 14 سال اقتدار کی دوڑ سے باہر رہنے کے بعد 2013 میں جب تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالا تو وہ ْملکی کی تاریخ کے پہلے سیاستدان بنے کے جن کو وزارتِ عظمیٰ کے چھن جانے کے بعد نا ہی پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا اور نا ہی باقی زندگی جلاوطنی یا گمنامی میں گزارنی پڑی ساتھ ہی ساتھ ان کو ان تمام تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جس کی جھلک اْن کے تیسری بار حکومت میں آنے کے بعد کے فیصلوں میں بھی نظر آئی۔

(جاری ہے)

اگر ہم 2013 میں اْس وقت ملکی کی صورتِ حال کی طرف جاتے ہیں تو اْس وقت ملک و قوم کو بہت ہی سنجیدہ قسم کے چیلینجز درپیش تھے۔ جن میں دہشت گردی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بگڑتے تعلقات، عالمی سطح پر تنہائی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تباہ ہوتی ہوئی معیشت جیسے چیلینجز سرِفہرست تھے۔ اس وقت حالات کا تقاضا یہ تھا کے سب سیاسی اور اداروں کے ساتھ رنجشوں کو بھلا کر ْملک کو درپیش مسائل پر توجہ دی جائے اور کسی بھی قسم کی سیاسی محاذ آرائی کی بجائے سیاسی افہام و تفہیم کا مظاہرہ کیا جائے۔

اِن تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے گہری سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور سب سیاسی جماعتوں کو اْن کے صوبوں سے ملنے والے مینڈیٹ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ان کے حکومت بنانے کے معاملے پر کسی سیاسی کھیل کا حصہ نا بنے اور ہر جماعت کے مینڈیٹ کا احترام کیا اور اپنی توجہ مْلک کو درپیش مسائل کے حل کی طرف مبذول کی۔ حالانکہ عمران خان کے 2013 کے الیکشن میں “کلین سوئیپ” کے دعووں جو کہ دھرے کے دھرے رہ گئے تھے اور تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں پر کیچڑ اچھالنے اور سیاست میں بدزبانی کے رْوجھان کو فروغ دینے کے وجہ سے کافی جماعتوں کو ان کی طرزِ سیاست پر اعتراض تھا اور وہ ان کی جماعت کو خیبر پختونخواہ میں حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

مگر میاں نواز شریف نے ایسے کسی اقدام کی حمایت نا کرنے کا اْصولی فیصلہ کیا۔ بلوچستان میں بھی نواب اکبر بگٹی کے ماورائے عدالت قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لئیے میاں نواز شریف نے پہلے اڑھائی سال کے لیئے نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب کی ذمہ داری دے کر بلوچستان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور اْن کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کیا جس کا ایک بہت مثبت اثر پڑا اور بلوچستان کے باسیوں کو یہ اْمید ہوئی کے اب اْن کی شنوائی بھی ممکن ہو گی۔

(مگر بعد میں باقی کے اڑھائی سال کی ن لیگ کی باری آنے پر جو کچھ قووتوں نے سیاست کے نام پر جو تماشہ کیا گیا وہ بھی پوری قوم نے دیکھا)۔ان سب کے بعد میاں نواز شریف نے اپنی تمام تر توجہ ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں لگا دی اور پنجاب میں میاں شہباز شریف نے میگا پراجیکٹس کی بنیاد رکھ کر پنجاب کی معیشت کو مظبوط کرنا شروع کر دیا۔خرابی وہاں سے شروع ہوئی جب میاں نواز شریف نے مشرف غداری کیس پر کوئی سمجھوتا کرنے سے انکار کیا اور ٹرائل کو جاری رکھنے پر بضد ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ چین اور روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت اور مقامی کرنسی میں تجارت کے معاہدے اور آپس میں بڑھتی ہوئی قربتوں نے کچھ طاقتوں کی راتوں کی نیند حرام کر دی۔

ان سب کے بعد پہلے دھرنے اور پھر پاناما لیکس کے کیس نے اچانک شدت اختیار کر لی اور “دھاندلی” 4 سیٹوں سے بڑھ کر اچانک پورے الیکشن پر جا پہنچی اور پاناما کیس میں 500 لوگوں کی ناموں کو چھوڑ کے سرف شریف فیملی کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا گیا۔اِن تمام سازشوں کا مقصد صرف اور صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے خطے میں پاکستان، چین اور روس کے اتحاد کو روکنا اور مشرف کو بچانا تھا۔

ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان سازشوں کو وقت پر بے نقاب کرنا ضروری تھا مگر حالات کی نزاکت اور میاں نواز شریف کے اصولی موٴقف کو سمجھنا شاید ہر کسی کے لئیے مشکل ہو گا۔اب آتے ہیں میاں نواز شریف کے اچانک چپ کو توڑنے اور جارحانہ انداز کی طرف تو اْس کی ایک ہی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت وہ سب کچھ پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتی جس کی بارے میں وہ اور اْن کی پارٹی کے ممبران صبح شام 2011 سے 2018 سات سال تک گردان کرتے رہے ہیں تو شاید میاں نواز شریف کی یہ چپ نا ٹوٹ پاتی اور نا ہی وہ اس جارحانہ انداز میں شاید کھل کر اعلانِ جنگ کرتے۔

مگر عمران خان کی حکومت کی کھلی ناکامی اور سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری قیادت کی پے درپے غلطیوں اور بوکھلاہٹ نے جہاں عوام کو شدید مایوس کیا وہاں میاں نواز شریف کو ایک مظبوط موقع فراہم کیا کہ جس کا وہ بڑے صبر سے انتظار کر رہے تھے۔ اب میاں نواز شریف کی وہ سیاسی بصیرت جو اْنھیں اس وقت مْلک میں موجود تمام سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے سے وہ کام لے رہے ہیں جو ملکی تاریخ میں کوئی سیاستدان نا لے سکا۔

اب میاں نواز شریف ہر آنے والے دن میں اور مظبوطی کے ساتھ اپنے موٴقف میں سختی لے کر آئیں گے اور اور تمام سیاسی اور صحافتی پنڈتوں کو جو ایک ہی طرح کے تجزیئے کرنے کے عادی ہیں حیران کر کے رکھ دیں گے۔ میرے خیال میں وہ ایک بوڑھے شیر کی طرح اپنے شکار پر گھات لگائے بیٹھے تھے اور اب جو وہ جھپٹ پڑے ہیں تو سیاست کی اس بساط پر ْکھل کے کھیلیں گے۔ وجہ عمران خان کی قیادت کی ناکامی ہے۔ اور جو طاقتیں اور لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “ کچھ بھی نہیں ہونا” اْن کو شاید اب اس خواب سے بیدار ہو جانا چاہئیے کیونکہ اب بہت کچھ ہوگا اور بہت کچھ بدلے گا، جو ملک کے لئے حقیقی جمہوریت کا سورج لے کر طلوع ہوگا۔انشااللہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :