صوبہ گلگت بلتستان ایک سیاسی نعرہ!

منگل 10 نومبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

خبر ہے کہ گزشتہ ماہ جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے حزب اختلاف کے قائدین کو ایک خفیہ ملاقات کی دعوت دی تھی تو سیاسی راہنماوٴں کی جانب سے گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کا مطالبہ سر فہرست تھا۔ اس وقت اپوزیشن اور حکومت دونوں کی نظریں اس الیکشن پر ہیں کیونکہ اس الیکشن کے نتائج حکومت اور اپوزیشن کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے آیا کہ عوام واقعی میں حکومتی پالیسیوں سے مایوس ہیں یا یہ سب اپوزیشن کا کھیل ہے۔

اس بات کا فیصلہ تو اب 15 نومبر کو ہی ہوگا۔یہ سب تو ایک طرف ہے مگر ہمیں گلگت بلتستان کی سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کو بھی سمجھنا پڑے گا جو کہ بہت ضروری ہے کیونکہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے بہت سے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ جاری ہے جو کہ پوری دْنیا میں کشمیریوں کی دل آزاری کا باعث بن رہا ہے۔

(جاری ہے)

گلگت بلتستان کی حالیہ تاریخ 19 ویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔

سنہ 1846 میں کئی خونریز جنگوں کے بعد ڈوگرا حکمران اس علاقے کو ریاست جموں و کشمیر میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہ انتظام 1947 تک جاری رہا جب وہاں کے لوگوں نے ڈوگرا فوج کو شکست دینے کے بعد پاکستان سے غیر مشروط الحاق کی پیشکش کی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان متنازع خطہ ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری تنازع کشمیر سے وابستہ ہے۔

تاہم مقامی آبادی کے مطالبے پر ایک عرصے سے پاکستان اس کے سیاسی الحاق کے لیے اقدامات کرتا رہا ہے۔ اس وقت خطے کا انتظام گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ اس قانون نے گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آرڈر 2009 کی جگہ لی ہے۔ یہ ایک آئینی پیکیج تھا جس کے تحت خطے میں پہلی مرتبہ گورنر اور وزیر اعلی کے دفاتر قائم کیے گئے تھے۔

تاہم دونوں ہی قوانین علاقے کے عوام کو پاکستانی پارلیمان میں نمائندگی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔اس وقت جہاں ایک طرف تو انتخابات میں پی ٹی آئی کی اکثریتی جیت کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان، علی امین گنڈاپور نے انتظامیہ کو ہائی جیک کر رکھا ہے وہاں کچھ دن پہلے عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کے ایک روزہ دورے کے دوران ایک جلسے سے اپنے خطاب میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔

یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب گلگت بلتستان میں الیکشن مہم اپنے زوروں پر ہے- ایسے وقت میں عمران خان کے اس اعلان سے سنجیدہ حلقوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارت میں مودی کی حکومت نے گزشتہ برس آنا فانا کشمیر کو حاصل نہ صرف خصوصی آئینی اختیارات ختم کر دیے تھے بلکہ اس کا ریاستی درجہ ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔

بھارتی حکومت نے عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے کشمیر کے تمام بڑے رہنماوٴں کو گرفتار کر لیا تھا اور کشمیر کے گلی کوچوں تک میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کا پہرہ لگا دیا تھا۔ فون، موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرتے ہوئے وادی کشمیر کے تقریبا تمام علاقوں میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی گئی تھیں۔ اس نازک وقت میں جب پوری دْنیا میں بسنے والے کشمیری عوام اس وقت مودی سرکار کے اس اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اقوامِ متحدہ سے اپنی قراردادوں کی پاسداری کا تقاضا کر رہے ہیں ایسے وقت میں عمران خان نے اس طرح کا اعلان کر کے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور کشمیریوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے اور مودی سرکار کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی توجہ اس طرف مبذول کروا کر یہ باور کروائیں کے پاکستان بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو بھارت نے کیا ہے یعنی خرابی دونوں طرف سے ہے۔

اس سے کشمیر کی آزادی کی تحریک کا کیس اقوام متحدہ میں دو فریقوں یعنی پاکستان اور بھارت کی لڑائی کے طور پر پیش ہوگا نا کہ کشمیریوں کی اپنی حقِ خود ارادیت کی لڑائی کے طور پر۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کب ہوش کے ناخن لے گی۔ حکومت پہلے ہی اپنی غلط خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر مودی سرکار کی جھولی میں ڈال چکی ہے اب مزید اس طرح کے احمقانہ اعلانات کر کے حکومت اقوام عالم اور کشمیریوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے یہ تو حکومت ہی بہتر جانتی ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :