بھارتی کسانوں کا احتجاج اور پاکستان میں دم توڑتی زراعت

ہفتہ 27 فروری 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

بھارت ایشیا کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے خود کو جنوبی ایشیا کا”نکا“ تھانیدار سمجھنے والے ملک کو اس وقت کئی اندرونی مسائل کا سامنا ہے کبھی اقلیتوں کے ساتھ مسائل بین الاقوامی میڈیا پر موضوع بنتے ہیں تو کبھی کشمیر کی صورتحال اور کبھی کسانوں کا مہینے بھر سے چلنے والا مارچ اور احتجاج- کورونا وائرس کی وجہ سے 2020 پوری دنیا کی معیشتوں کے لیے نقصان دہ رہا ہے بھارت بھی اپنے مقررہ معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اس کی ترقی کی شرح 5.9 فیصد تک رہی زراعت کا شعبہ پچھلے کئی سالوں سے احتجاج کرتا آرہا ہے اب تک کئی ہزار کسان معاشی تنگیوں سے مجبور ہوکر خود کشیوں پر مجبورچکے ہیں- ان کے خاندان اس وقت بھی حکومت وقت سے مدد کی امید رکھتے تھے مذاکرات ہوتے تھے، کسانوں کو لبھا لیا جاتا تھا اور وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے مگر تین ماہ قبل شروع ہونے والی احتجاجی تحریک نے بھارت کو جڑوں سے ہلاکر رکھ دیا ہے احتجاج میں اب تک کئی جانیں جانے کے بعد باوجود کسان کسی طور پر رکتے نظر نہیں آرہے اور انہوں نے پارلمیان کو گھیراؤ کرنے کی کال دے رکھی ہے جس نے مودی سرکار کی راتوں کی نیند اور دن کا قرارچھین لیا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی زراعت کا شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے سی این این کے مطابق 50 فیصد بھارتیوں کے روزگار زراعت کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں مشرقی پنجاب میں زراعت کے شعبے میں 1960 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور اچھی زرعی پیداوار نے بھارت کو اجناس کی کمی کا شکار ملک سے خود کفیل ممالک کی فہرست میں شامل کردیا۔ خاص کر پنجاب نے ملک کی ضرورت سے زیادہ اجناس پیدا کیں جو اب ایک بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکا ہے بھارتی GDP میں 23 فیصد حصہ رکھنے والا شعبہ سڑکوں پر نکل آیا ہے اور جاڑے کے سخت دنوں میں ہزاروں کا مجمع پیدل، ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر دہلی کے لیے نکل پڑا ایک طرف ہریانہ سے آنے والے ہزاروں کسانوں نے دہلی کی سرحد پر احتجاجی مقام رام لیلا گراؤنڈ سے 200 کلومیٹر دور سنگھو باڈر پر پڑاؤ ڈال رکھا ہے ستمبر کے تیسرے ہفتے میں حکومت نے زرعی اصلاحات کے حوالے سے راج سبھا میں 3 بل پیش کیے تھے جن میں سے 2 بل منظور کرلیے گئے۔

حکومت نے راج سبھا سے بل پاس کروانے میں یوں بھی پھرتی دکھائی کہ اسے وہاں اکثریت حاصل ہے اپوزیشن ابھی ان پر مزید بحث کرنا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود بل پاس کروالیے گئے اپوزیشن پارٹیوں نے صدر سے ملاقات بھی کی اور ان پر زور دیا کہ وہ ان قوانین پر دستخط نہ کریں، لیکن صدر نے ان کی رائے کا احترام نہیں کیا اور نئی اصلاحات کے مسودہ پر دستخط کردیے۔

بنیادی طور پر ان 3 بلوں میں زرعی منڈیوں کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نجی کمپنیوں کو زرعی منڈیوں کے نظام میں شامل کیا گیا ہے موجودہ منڈی کے نظام میں حکومتی شمولیت کی وجہ سے کسانوں کو کم از کم ان کی فصل کا بہتر معاوضہ مل رہا تھا جبکہ حکومت کی رائے میں نئے قانون کے ذریعے آزاد منڈیوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

اس بل کے مطابق زرعی اجناس کی فروخت کے طریقہ کار، مقررہ قیمت اور زخیرہ کرنے کے نئے اصول بنائے گئے ہیں اس قانون کے تحت پرائیویٹ پارٹیوں کو منڈی سے باہر ہی باہر فصل خریدنے کی آزادی ہوگی اس کے علاوہ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ پارٹی کسان کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ صرف اس کی مقرر کردہ فصل اگائے-بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزاد منڈیوں کی بنیاد اس لیے رکھ رہے ہیں تاکہ کسان اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں لیکن بنیادی طور پر کسان اس لیے پریشان ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب منڈی سے باہر ہی باہر نجی کمپنیاں فصل خرید کر زخیرہ کرلیں گی تو کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں مل سکے گا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کارپوریٹ فارمنگ کے ماڈلزکو سامنے رکھیں تو کسانوں کے خدشات بے بنیاد نہیں ۔

کسان سمجھتے ہیں کہ بڑی کمپنیاں کسانوں کی مقررہ قیمت نہیں دیں گی بلکہ انہیں ان کمپنیوں کی مقررہ قمیتوں پر فصل بیچنے پر مجبور کیا جائے گا کسانوں کو خطرہ ہے کہ بڑے صنعتی گروپ جیسے ایڈوانی اور امبانی ان نئی اصلاحات سے خوب فائدہ اٹھائیں گے یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی 20 سے زیادہ تنظیمیں اس وقت احتجاج میں شامل ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی کسانوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔

کسان سمجھتے ہیں کہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ منڈی میں اپنی فصل کی خود قیمت لگائیں خریدار سے اس بارے میں بات کریں اور اسے اپنی مقرر کردہ قیمت کی ادائیگی کے لیے راضی کریں نومبر2020 کے آخری ہفتے سے شروع ہونے والا احتجاج آج بھی اپنے مطالبات پر سختی سے جما ہوا ہے اور اب یہ احتجاج ایک بڑی ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے ستمبر کے مہینے میں بھارتی اسمبلی میں جلد بازی میں کی جانے والی زرعی اصلاحات کو پنجاب کے کسانوں نے ابتدا میں ہی مسترد کردیا تھا اور انہوں نے مقامی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کی بھی کوشش کی لیکن جب بات نہیں سنی گئی تو کئی کسان تنظیموں نے دہلی تک مارچ کرنے کا اعلان کردیا اور پنجاب ہی نہیں بلکہ ہریانہ سمیت بھارت کے مختلف حصوں کی کسان برادری بھی اس احتجاج کا حصہ بنتی چلی گئی اب کیا عورتیں کیا مرد اور کیا بوڑھے اور بچے ‘کسان دہلی کی طرف جانے والے 3 راستوں کو بند کرکے بیٹھے ہیں۔

احتجاج کی ابتدا میں ہی حکومت اور کسانوں کے درمیان کئی ناکام مذاکرات ہوئے لیکن حکومت بھی اپنی بات پر اٹکی ہوئی ہے اور کسان بھی اس قانون کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں حکومت کا کہنا ہے کے احتجاج ختم کیا جائے اور ان کی بات سنی جائے مودی سرکار کے مطابق یہ قوانین کسانوں کے لیے تحفہ ہیں اور اس سے کسانوں کی صورتحال بہتر ہوگی لیکن کسان اسے اپنے لیے موت کا پروانہ قراردیتے ہیں-مودی سرکار کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کسان اس لیے حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں کیونکہ نوٹوں کی بندش ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو یا شہریت کا قانون ان سب میں عوام کو لگا ہے کہ حکومت نے ان لوگوں کو اپنے فیصلے میں شامل ہی نہیں کیا جو ان قوانین سے براہِ راست متاثر ہو رہے تھے اس سے عوام کا حکومت سے اعتماد کم ہوا ہے کسانوں کے راہنما یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ20 سالوں میں 3 لاکھ کسان اپنی جانیں گنواں چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑرہے ہیں -وطن عزیزپاکستان میں بھی کسانوں کی حالت اچھی نہیں ہے وڈیروں کے زراعت پر قبضے اور سیاست کے ایوانوں میں اثرورسوخ سے چھوٹے کسان بے بس ہوکر اپنی زمینیں فروخت کرنے پر مجبور ہیں نتیجہ پاکستان آج اقوام متحدہ کی جانب سے فوڈ سیکورٹی کے شدید خطرات کا شکار ممالک کی فہرست میں کھڑا ہے -ادھر حکومتوں کی پالیسیوں اور ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں کی وجہ سے زرعی زمینیں تیزی سے رہائشی کالونیوں میں بدل رہی ہیں ایک طرف پانی کے مسائل ہیں تو دوسری طرف خوراک مگر حکومت چین کی بانسری بجا رہی ہے زراعت کے حوالے سے اہم ترین صوبے پنجاب میں ہرسال ہزاروں ایکٹرزیرکاشت زمین رہائشی کالونیوں کی نذر ہورہی ہے بارشوں کی کمی کے سبب بارانی علاقے پہلے ہی تباہی کا شکار ہیں اور پاکستان کو 80فیصد سے زائد دالیں درآمد کرنا پڑرہی ہیں-پاکستان میں بہت سارے علاقے دالوں کی کاشت کے لیے موزوں ہیں مگر حکمرانوں کی توجہ غیرضروری کاموں کی جانب رہتی ہے جس کی وجہ سے ”تبدیلی سرکار“زراعت پر بھی کوئی مربوط پالیسی مرتب کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے ملک کے مجموعی رقبے کا40فیصد بلوچستان پرمشتمل ہے مگر بلوچستان کے حوالے سے حکومتوں کی پالیسیاں ہمیشہ روایتی اور ”ڈنگ ٹپاؤ“قسم کی رہی ہیں کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجربات کرنے کی بجائے حکومت ‘عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزمل کر بلوچستان کے حوالے سے ایک طویل المدتی اور جامع پالیسی مرتب کریں - ایک طرف ملک کا 40فیصد رقبہ72سالوں سے بے آباد ہے تو دوسری طرف آباد رقبے سکڑتے جارہے ہیں موسمیاتی تبدیلیاں الگ تباہی مچارہی ہیں ایسی صورتحال میں اقرباپروری کی بجائے ملک اور عوام کے مفاد کے لیے سوچا جائے اور جتنا جلدی ممکن ہوسکے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے‘لاپتہ افراد کا معاملہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے‘محرومیوں کا شکار بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے اکبر بگٹی کے قتل کی غیرجانبدرانہ تحقیقات کرواکر ذمہ دران کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے اور آخری تجویزصوبے سے فوج کا عمل دخل کم سے کم کیا جائے ان اقدامات سے بلوچوں کا اعتماد کسی حد تک بحال ہوسکتا ہے- اسی طرح ملک بھر میں زرخیززرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے پر پابندی عائد کی جائے ‘شہروں کو وسعت دینے کی بجائے نئے شہر بسائے جائیں ‘بلوچستان کے بے آباد رقبے کو صوبے کے عوام میں تقسیم کرکے اسے آباد کیا جائے ‘فوری طور پر صحراؤں کی ریت پر مٹی کی تہیں بچھا کر وہاں سبزیوں کی کاشت کی جاسکتی ہے اسی طرح سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگا کر نہروں کے ذریعے اسے پورے صوبے میں پہنچایا جائے وقت اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر یہ اقدامات کیئے جائیں اس سے پہلے کہ پاکستانی عوام اناج کے دانے‘دانے اور پانی کی بوند‘بوند کے محتاج ہوجائیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :