
پاکستان میں تعلیم کی بدحالی
پیر 7 جنوری 2019

میاں محمد ندیم
(جاری ہے)
کمرہ جماعت میں اور کمرہ جماعت سے باہر فراہم کی گئی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیمی وسائل، تعلیمی مواد، درسی و تدریسی معاونات، طریقہ ہائے تدریس، امتحانی نظام سے لے کر مقاصد تعلیم، اصول تعلیم، تعلیمی پالیسیاں، ضروری قواعد و ضوابط، فنڈز کا تعین، بجٹ، ملکی و صوبائی نیز شہری سطح پر تعلیمی بورڈز کا قیام، ٹیکسٹ بک بورڈز کا قیام، کتب کی ترتیب و تدوین و اشاعت اور ان پر نظرثانی، سکولوں میں سہولیات، تدریسی و کلرک عملے کا تعین، معاوضے اور سہولیات مختص کرنا سمیت دیگر انتظامات نظام تعلیم کا حصہ ہیں۔
ہمارے یہاں کا نظام تعلیم وہ برطانوی نظام تعلیم سے اخذ کردہ ہے تعلیم نجی اور سرکاری دونوں سطح پر دی جا رہی ہے۔سرکاری سکولوں میں ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک تعلیم مفت ہے مگر سرکاری سکولوں کے پاس والدین کو متوجہ کرنے اور پروپگینڈہ کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے اشتہارات کا بجٹ نہیں اور نہ ہی آبادی کے تناسب سے سرکاری سطح پر تعلیمی سہولتوں میں اضافہ حکومتوں کی ترجیح رہا ہے ۔آج والدین مکمل طور پر نجی تعلیمی اداروں کے رحم وکرم پر ہیں جو خالصتا کاروباری بنیادوں پر کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے کم آمدنی والے خاندان اپنے بچوں کو بمشکل بنیادی تعلیم ہی دلواپاتے ہیں چونکہ حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں آبادی کا دباؤ دن بدن بڑھتا جارہا ہے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا لہذاکالج لیول سے نجی تعلیمی اداروں کی اجارہ داری شروع ہوجاتی ہے جن کی فیسیں اداکرنا والدین کے بس میں نہیں- کسی زمانے میں کالجوں کا شہر کہلانے والے لاہورجیسے ملک کے دوسرے بڑے شہرکی بات کریں تو آج شہر میں سرکاری کالجوں کی تعداد آج بھی وہی ہے جو 1990میں تھی 2018میں مجموعی طور پر 1لاکھ74ہزار363 نے میٹرک کا امتحان پاس کیاجبکہ ایک اندازے کے لاہور کے سرکاری کالجوں میں 40ہزار سے بھی کم نشستیں دستیاب ہیں -یعنی ایک لاکھ سے زیادہ طلبہ وطالبات کے لیے سرکاری سطح پر تعلیمی سہولیات میسر نہیں شہرمیں سکولوں اور کالجوں کے لیے صرف ایل ڈی اے کی رہائشی سکیموں میں درجنوں پلاٹ پڑے ہیں جن میں کئی دو‘تین دہائیوں سے شادی لانز اورپارکنگ کے طور پر استعمال ہورہے ہیں جبکہ بااثرافراد اور منتخب عوامی نمائندگان نے کالجوں کے لیے مختص کئی پلاٹوں کا سٹیٹس تبدیل کروا کرذاتی مفادات کے لیے ان پرکلب تعمیر کروالیے ہیں-پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ابتر صورت حال پر بات کی جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ نہ حکومت اور نہ ہی عوام اس ضمن میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے نقصان کا احساس کرتے ہیں۔ تعلیم پر سرمایہ کاری ہی قوموں کو عالم میں ممتاز کرتی ہے جبکہ ہم اپنے ملک میں دیکھیں تو تعلیم کے لیے برائے نام بجٹ ہی مختص کیا جاتا ہے۔ پست شرح خواندگی، نظام تعلیم کی بربادی، تعلیمی اداروں میں داخلے کی پست جبکہ ترک مدرسہ کی بڑھی ہوئی شرح، سرکاری شعبے میں تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیمی سہولیات کا فقدان تربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا، غربت، امن و امان کی صورت حال، تعلیمی مساوات کا فقدان، معیاری نصاب کا نہ ہونا، تعلیم کا دینی و دنیاوی دو دھڑوں میں منقسم ہونا، سمیت کئی ایسے باہم مربوط مسائل ہیں جو ہماری تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان امور کی ذمہ داری بہرحال حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کہ دستیاب تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں ڈبل شفٹ میں کام کرکے کچھ نہ کچھ بہتر نتائج حاصل کیئے جاسکتے تھے مگر حکومتوں نے محکموں کے اندر محکمے بناکر اپنی جماعتوں کے کارکنان کھپانے کے علاوہ تعلیم کی کوئی خدمت نہیں کی اسی طرح اساتذہ کی تربیت کے لیے اداروں کا قیام بھی سرکارکی ذمہ داری تھی جس میں وہ بری طرح ناکام نظرآتی ہے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا کے اکثر و بیشتر تدریسی اثاثے جاگیرداروں اور وڈیروں کے قبضے سے چھڑوانے اور وہاں نئے مدارس اور تربیتی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح عوام کو نجی تعلیمی اداروں کے ”وڈیروں“سے نجات دلانا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پیشہ وارانہ اور تکنیکی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دے تاکہ ماہر اور ہنر مند نوجوان پیدا ہوں۔ خصوصی پالیسی یونٹ قائم کیے جائیں جو شب و روز تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے منصوبے تشکیل دیں۔ ان صوبوں کو خصوصی امداد دی جائیں جو تعلیمی لحاظ سے پستی کا شکار ہیں‘ اگر ان تمام عوامل پر توجہ دی جائے تو تعلیمی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔2017میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 22.84 ملین بچوں کے لیے بنیادی تعلیمی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں-دستیاب سرکاری سکولوں میں بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے -بنیادی تعلیم کے بعد والدین کے لیے سب سے بڑا مسلہ بچوں کی اعلی تعلیم ہے جوکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ اکثر طالب علموں کو اپنی ڈگریاں ادھوری چھوڑنا پڑتی ہیں کیونکہ ان کے خاندان بچے کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوتے ہیں-پاکستان نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت پورے ملک میں صرف ایک ہی یونیورسٹی جامعہ پنجاب تھی لیکن اب پاکستان میں 177یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم ادارے ہیں جن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ان میں سے 103 سرکاری یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں جبکہ باقی نجی شعبے میں قائم ہیں۔ وفاقی حکومت نے ان میں سے صرف 33 یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو جبکہ باقی کو صوبائی حکومتوں نے چارٹر کیا ہے۔ جن اداروں کو وفاقی حکومت نے چارٹر کیا ان میں سے زیادہ تر دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی (قریباً 9کروڑ) پنجاب میں ہے جو ملک کی آدھی آبادی شمار ہوتی ہے اورپنجاب میں سب سے زیادہ 51چارٹرڈ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں جن میں صرف 27سرکاری شعبے میں ہیں جبکہ 24نجی شعبے میں قائم ہیں۔ سندھ کی آبادی پنجاب سے آدھی ہے یہ صوبہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے لحاظ میں بھی دوسرے نمبر پر ہے سندھ کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی تعداد 49 ہے۔ خیبر پختونخوا میں 29، بلوچستان میں 8 یونیورسٹیاں اور آزاد کشمیر میں 7یونیورسٹیاں قائم ہیں۔1947ء سے لے کر 2014ء تک پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے 11,988پی ایچ ڈی ڈگریاں جاری کی ہیں۔ پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی میں طلباء کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں غیرملکی طلباء بھی شامل ہیں۔ 1947ء سے لیکر 2002ء تک پاکستانی یونیورسٹیوں نے 3000پی ایچ ڈی ڈگریاں جاری کی گئیں۔ حالیہ برسوں میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کے اجراء میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن 2001ء میں قائم ہوا جبکہ 2013 ء میں 1,211پی ایچ ڈی فارغ التحصیل ہوئے ، 2014ء میں 1,325افراد کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ملیں۔زیادہ تر پی ایچ ڈی ڈگریاں(1,541)لسانیات اور ادب میں دی گئی ہیں اس کے بعد کیمسٹری میں 1,462ڈگریاں اور زراعت میں 908ڈگریاں دی گئی ہیں۔ 2014 میں اعلیٰ تعلیم اداروں نے انجیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں 500ڈگریاں جاری کیں جبکہ 908پی ایچ ڈی ڈگریاں مطالعہ مذہب پر دی گئیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کردیا گیا۔ پاکستان میں ماضی کی حکومتوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جو فنڈز جاری کئے ان کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اعلیٰ تعلیم کیلئے کتنے پرعزم ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو 1978-79ء سے لے کر 2001-2ء تک 538.7538 ملین روپے کی گرانٹ دی گئی جبکہ 2002-3ء سے 2015-16ء تک 194.115413 ملین روپے جاری کئے گئے۔پاکستانی یونیورسٹیز اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بشریات، زراعت، خلائی سائنس، فشریز، سمندری حیات، کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس اینڈ مینجمنٹ، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ویٹرنری سائنسز، نفسیات پر ادارہ جاتی اور تحقیقی پروگرام متعارف کروا رہے ہیں۔ پاکستان کی پہلی ورچوئل یونیورسٹی مکمل طور پر جدید انفارمیشن اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی ہے جو اکیڈمک پروگرامز کے ساتھ سیٹلائیٹ اور انٹرنیٹ ٹی وی بھی استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کو بھی مت بھولیں جہاں پر اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تحقیق اور کاروباری تنظیم کاری کا بہترین ماحول تمام تر سہولیات کے ساتھ فراہم کیا جاتاہے۔ یہاں نئے کاروباری دفاتر اورمستحکم سرکاری اور صنعتی رابطے موجود ہیں۔ پاکستان کی تعلیم اور تحقیق کا نیٹ ورک(Pakistan Education and Research Network) ایچ ای سی نے2002ء میں قائم کیا ، یہ 250یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو باہمی رابطے اور ابلاغ کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کررہاہے۔ جن میں کالجز بھی شامل ہیں تاکہ وہ اپنی انٹر نیٹ اور نیٹ ورکنگ کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں۔پاکستان ایجوکیشن ایٹلس (Pakistan Education Atlas)کے جاری کردہ حالیہ نقشے کے مطابق 46فیصد (124284)پرائمری سکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ 2015ء میں جاری کیا جانے والا پاکستان ایجوکیشن ایٹلس کو اکیڈمی آف ایجوکیشن پلاننگ اینڈ مینجمنٹ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے اشتراک سے تیارکیا جاتاہے۔ اس لحاظ سے ملکی سکولوں کے تعلیمی نظام کو جن مسائل کا سامنا ہے خوش قسمتی سے پاکستانی یونیورسٹیوں کو ایسے مسائل درپیش نہیں ہیں۔اس وقت پاکستان کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں 40ہزار کے قریب اساتذہ تعلیمی فرائض سرانجام دے رہے ہیں جن میں صرف 10ہزار پی ایچ ڈی ہیں جو پاکستانی یونیورسٹیوں کے تدریسی عملے کا 25فیصد بنتاہے۔ ایچ ای سی کے قیام کے بعد پاکستان میں طلباء اور اساتذہ دونوں کو ملکی اور غیرملکی سکالرشپس مل رہی ہیں۔ایچ ای سی اپنے فیکلٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت 2450سکالرشپس جاری کر چکا ہے جس میں 938سکالرشپس انجیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں دی گئیں۔ ان میں 493سکالر شپس فزیکل سائنس اور 431سکالر شپس عمرانی علوم میں دی گئیں۔ بیرون ملک سکالرشپ پروگرام کے تحت ایچ ای سی پاکستانی طلباء کو7806 سکالر شپس دے چکی ہے۔ جن میں سے 5683واپس آچکے ہیں جبکہ 2123 اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی مکمل کر رہے ہیں۔ جو واپس آچکے ہیں ان میں سے 1874نے بائیولوجیکل اور میڈیکل سائنس میں ، 1406نے فزیکل سائنس، 979نے انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سائنس میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ جن لوگوں کو سکالر شپس ملیں ان میں سے 1341کو امریکہ، 1226کو برطانیہ اور 907کو کیوبا بھیجا گیا۔امریکہ اور برطانیہ میں دنیا کی معروف یونیورسٹیاں قائم ہیں اسی لئے ایچ ای سی کے تحت وہاں کیلئے بھی سکالر شپس دی جارہی ہیں۔ جبکہ کیوبا کی حکومت نے 2005ء کے زلزلے کے بعد پاکستانی طلباء کو میڈیکل میں سکالر شپس کی پیش کش کی تھی۔ یہ سکالرشپس ایچ ای سی کے ذریعے دی جاتی ہیں ایچ ای سی نے ملکی سطح پر 9278سکالرشپس فراہم کی ہیں جن میں سے 2333طلبااپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں جبکہ 6945طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان میں سے 2464سکالر شپس فزیکل سائنسز میں ، 2174بائیولوجیکل اور میڈیکل سائنسز میں جبکہ 1293 زراعت اور ویٹرنری سائنسز میں دی گئی ہیں اگرچہ گزرتے ماہ و سال میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور پی ایچ ڈی سکالرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے اس کے باوجود سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل حل کرنے کیلئے محققین اور سائنسدانوں کو مناسب ماحول اور وسائل دستیاب ہیں؟ دیگر سوالات نئے علوم، محققین کی تعداد بڑھانے، تحقیقی لیبارٹریز، تھنک ٹینکس کی کافی تعداد، سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں کامیابیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ساری بحث اس بڑے سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا پاکستان کی یونیورسٹیاں پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے سماجی معاشی منظر کو تبدیل کرنے کا مرکز ثابت ہورہی ہیں۔ ہمارے اساتذہ عموماً یونیورسٹیوں میں وسائل کی فراہمی کے ساتھ تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے رہتے ہیں۔یونیورسٹیوں کی کارکردگی اور تحقیق کا جائزہ لینے کے مختلف معیارات قائم کئے گئیہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی کے بعد ان معیارات کو قومی تعلیمی ادارے مثلاً ایچ ای سی اور بین الاقوامی ادارے مثلاً کیو ایس ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ(QS World Universities Ranking)اور ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ ٹائم ہائراستعمال کررہی ہیں۔ پاکستان میں بین الاقوامی پس منظر کے ساتھ طلباء اور اساتذہ کو یہی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی ماحول اور اس کے اثرات،بشمول مختلف جائزوں کے فراہم کئے جارہے ہیں۔ 2001میں آئی ایس آئی ویب آف نالج پر صرف 877کتابیں فہرست میں شامل کی گئیں۔ لیکن 2014ء تک پاکستان کی طرف سے 8163 کتابوں کی فہرست شامل کی گئی۔ 2006ء میں 73پیٹنٹس کیلئے پاکستان میں درخواست دی گئی جس میں سے صرف 22 کی منظوری دی گئی۔ ان میں سے 34پیٹنٹس کراچی کی یونیورسٹیوں ، 20پنجاب سے، 3خیبر پختونخوا سے اور 16وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے تھیں۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کی طرف سے کوئی پیٹنٹ کی درخواست جمع نہیں کرائی گئی۔ منظور شدہ پیٹنٹ میں سے 12سندھ، 8پنجاب اور 2وفاقی یونیورسٹیوں کے منظور ہوئے۔ان 22پیٹنٹس میں سے 14طبی اور ادویہ مقاصد کیلئے، 2 زراعت، 3 مواصلات اور کمپیوٹر سائنس کیلئے، ایک ایک پٹرولیم کی صنعت اور خوراک کی صنعت کیلئے جبکہ آخری عام صنعتی استعمال کیلئے تھی۔ ہماری پہلی بین الاقوامی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی پیٹنٹ امریکہ میں پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک آفس نے 2015ء میں نینو لیوسٹ فرٹیلائزر(Nano Leucit Fertilizer)کے نام سے منظور کی۔نینو کھاد ڈالنے سے فصل کو سنڈیاں بھی لگ جائیں تو بہت کم اناج کا نقصان ہوتاہے۔ جی سی یو کی پیٹنٹ نینوکھاد صحت مند اناج پیدا کرنے اور فصل بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ جی سی یو نے اسے گرین ماحول کے انقلاب سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت کم خوراک ضائع ہوتی ہے اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوتاہے۔ پاکستانی پیٹنٹ سے کوئی کاروباری مفاد حاصل نہیں کیا گیا۔ لہٰذا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیا ہمارے محققین اور سائنسدان ایسی کوئی مفید اور بامعنی تحقیق کر رہے ہیں جو پاکستان کے حقیقی مسائل کا حل پیش کرے ؟ جس کا جواب ابھی تک نفی میں ہےادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میاں محمد ندیم کے کالمز
-
لاہور میں صحافیوں کا تاریخی میلہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
الوداع۔(پہلا حصہ)
جمعرات 10 فروری 2022
-
عمران خان ناموس رسالت ﷺ اورکشمیر کے وکیل
پیر 31 جنوری 2022
-
آلودگی میں لاہور کا ”اعزاز“
بدھ 3 نومبر 2021
-
ریاست مدینہ :پاکستان‘نظام اور حکمران۔ قسط نمبر2
ہفتہ 23 اکتوبر 2021
-
ریاست مدینہ:پاکستان‘نظام اور حکمران۔قسط نمبر1
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
وزیراعظم عمران خان کے نام کھلا خط
منگل 12 اکتوبر 2021
-
معاشی بدحالی کا شکار پاکستان
جمعہ 8 اکتوبر 2021
میاں محمد ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.