پاکستان میں تبدیلی سرکاراورآزاد کشمیر میں حکومتی بحران

جمعہ 8 فروری 2019

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

پاکستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت جہاں نیب کے شکنجے میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے وہاں بیلسنگ ایکٹ کے تحت حکومتی جماعت تحریک انصاف کے پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کو بھی آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے جرم میں سرکاری مہمان بنا دیا گیا ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ علیم خان غیروں کے بجائے اپنوں کی ستم طریفی کا نشانہ بنے ہیں ۔ تحریک انصاف کے حکومتی وزراء کا موقف سن کر نہ صرف حیرانگی ہوتی ہے بلکہ ہنسی بھی آتی ہے کہ وہ علیم خان کے استفے ٰ کو خوش آئند قدم کہہ کر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے بھی استفے ٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

علیم خان فیملی نے دبے لفظوں میں حکومت سے اظہار ناراضگی بھی کیاہے ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام پر بری طرح اثر انداز ہوئی لیکن حکومتی وزراء کے بقول یہ مہنگائی بھی ن لیگ کی دی ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

کوئی ان سے یہ پوچھے کہ حکومت آپ کی ہے مہنگائی کو روکنے کے لئے اقدامات آپ نے اٹھانے ہیں لیکن آپ اس معاملے کو بھی سیاسی مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔

اصل میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج اس وقت بھی حکومت میں نظر نہیں آتی بلکہ یہ نظر آتا ہے کہ یہ لوگ ابھی تک اپوزیشن میں ہیں ۔ اللہ کے بندو اس وقت حکومت آپ کے پاس ہے ۔ عوام کو مہنگائی سے ریلیف آپ نے دینا ہے ۔ نواز شریف کے دور میں آپ کہتے تھے کہ پیٹرول 40روپے لیٹر ہونا چاہیئے لیکن اپنے دور میں آپ صرف 59پیسے سستا کر رہے ہو ۔

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔یا تو تبدیلی کے دعوے دار عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں یا پھر خود بہت بڑے بے وقوف ہیں جو عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے تبدیلی تبدیلی کا راگ الاپ رہے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے کیا تبدیل ہوا ۔ کیا عوام کو انصاف مل گیا ۔ پولیس گردی ختم ہو گئی۔ کیا چور اور ڈاکو ختم ہو گئے ۔ افسوس ایسا تو کچھ نہیں ہوا بلکہ انصاف کے دعوے داروں کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان کی الزامات کا شکار ہو گئے جس کارونا وہ خود روتے رہے ہیں ۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے وزراء کی داد و تحسین کے بجائے عوام کی مشکلات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان معاملات کا دوش دوسروں کو دینے کے بجائے ان پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بے بس اور بے کس عوام کو ریلیف مل سکے ۔ سابقہ حکومتیں بھی کوئی دودھ کی دھلی نہیں تھیں لیکن عوام کو سہانے سپنے دکھا کر یہ کہا گیا تھا کہ وہ چور اور ڈاکو ہیں لیکن ہم ایسے نہیں ہیں لیکن عملی طور پر اس حکومت میں بھی سابقہ حکومتوں کی طرح کوئی فرق نہیں نظر آتا ۔

ملک میں بجلی ۔ گیس اور اشیائے ضروریہ مہنگی کی جا رہی ہیں اور اس پر بے جا تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں ۔ کیا یہی تبدیلی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس پر سوچنا ہو گا ۔شدید بارشوں اور سردی کے عالم میں آزاد کشمیر کا سیاسی موسم ٹھنڈا ہونے کے بجائے شدید گرم ہو گیا ہے ۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان جو اپنے دور کو میرٹ اور انصاف کی سر بلندی کا دور کہتے ہیں کو اپنے ہی وزراء کی شدید تنقید کا سامنا ہے ۔

اگر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بلا شبہ یہاں پر ایک قسم کی شخصی حکومت ہی نظر آتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے کارکن اپنے وزیر اعظم سے گلے شکوے ہی کرتے نظر آتے ہیں ۔اب تو حکومتی وزراء نے بھی کھلے لفظوں میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کے شخصی فیصلوں پر رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ آزاد کشمیر کے بزرگ سیاست دان سردار سکندر حیات خان نے بھی واضح طور پر ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے جس کے بعد اب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت لڑکھراتی نظر آ رہی ہے ۔

آزاد کشمیر میں این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن کو خود مختار بنانے کے دعوے کئے گئے تھے لیکن ان پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ اس پر احتجاج کرنے والوں پولیس تشدد نے حکومتی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے ۔ راجہ فاروق حیدر خان خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے جمہوری رویہ اپنانے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ مخصوص لوگ ان کی حکومت میں مفادات اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔

عام آدمی کی شنوائی کہیں بھی نہیں۔ آخر ان معاملات پر کون توجہ دے گا ۔ اگر ناراض حکومتی وزراء کا مقصد اصلاح احوال ہے تو انہیں خلوص نیت سے عوامی مفادات کو سامنے رکھنا ہو گا تا کہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے ۔اپنے اپنے گروپس کو نوازنے کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا اور آزادی کے بیس کیمپ کو اقتدار کا ریس کیمپ بننے سے روکنا ہو گا ۔ آزاد کشمیر حکومت کی بنیادی ذمہ داری آزادی کی جدوجہد تھی لیکن اسے بھلا کر طاقت اور اقتدار کو مطمع نظر بنا لیا گیا ہے جس سے تحریک حریت کشمیر کو شدید نقصان پہنچاہے ۔

حکومت آزاد کشمیر کا تحریک آزادی کے حوالے سے ایک واضح اور دو ٹوک موقف ہونا چاہیے۔دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی حکومت میں چند وزراء کی جانب سے بننے والے گروپ کو کیا پذیرائی ملتی ہے اور کیا راجہ فاروق حید ر خان کی حکومت ان معاملات سے کیسے نکلتی ہے ۔ آزاد کشمیر کے بڑے سیاسی پنڈت سردار سکندر حیات خان نے اگر سنجیدگی سے فاروق حیدر سرکار کے حوالے سے کوئی موو بنائی تو پھر اس حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ کیونکہ اپوزیشن کے بعض حلقے بھی اب یہاں تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :