''سینیٹ الیکشن ،کیا حلال اور کیا حرام''

پیر 15 مارچ 2021

Mohammad Faisal

محمد فیصل

جانوروں سے عشق شاید میری گھٹی میں پڑا ہے ۔عیدالاضحی کے لیے  ہی قربانی کاخوبصورت جانورتلاش کرنا بھی میرا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔بات صرف قربانی کے جانوروں کی ہی نہیں میں ہر قسم کے پالتو جانوروں کو میں اپنے دل سے بہت قریب پاتا ہوں اور ان کی خدمت سے ایک عجیب سے تسکین حاصل ہوتی ہے ۔پرندوں اور جانوروں کی خریدو فروخت میرے لیے ایک معمول کی بات ہے ۔

میری طرح اس ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہوںگے جن کو یہ شوق ہوگا اور اس کے لیے وہ اپنا وقت اور پیسہ بخوشی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔بات جانوروں کی خریدو فروخت کی ہورہی ہے تو نجانے کیوں مجھے وزیراعظم عمران خان یاد آرہے ہیں جو سینیٹ الیکشن کے دوران ارکان کی خریدو فروخت کی بات کرتے رہے ۔یعنی پارلیمنٹ کے ارکان نہ ہوئے کوئی فروخت کی چیز ہوگئی کہ جو بھی ان کے مناسب دام لگائے گا وہ ان کے ہاتھوں بک جائیںگے ۔

(جاری ہے)

اسے ہم اپنے سیاسی نظام کا المیہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ستر برس گذر جانے کے باوجود ہم اس سطح کی سیاسی قیادت ہی پیش نہیں کرسکے ہیں جس کو عوام کے لیے ایک مثال قرار دیا جاسکتا ہو ۔
حالیہ سینیٹ انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ ملک کے سیاسی نظام کو سمجھنے والوں کے لیے کسی طور بھی ایک معمہ نہیں ہونا چاہیے ۔پہلے ہم اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست بات کرلیتے ہیں جہاں وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ ور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان ایک کانٹے کا مقابلہ تھا ۔

اب کسی بھی مثالی جمہوری نظام میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اکثریت رکھنے والا امیدوار باآسانی یہ مقابلہ جیت لیتا لیکن یہ پاکستان کا نظام ہے اور یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور پھر وہی ہوا ۔ایوان میں ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کے نعرے لگا اور یوسف رضا گیلانی کی فتح کا اعلان کردیا گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی قومی اسمبلی میں خواتین کی نشست کے لیے تحریک انصاف کی امیدوار 174ووٹ لے کر کامیاب ہوگئیں لیکن عبدالحفیظ شیخ کو مطلوبہ ووٹ نہیں مل سکے اور اس الیکشن کی سب سے بڑی خصوصیت ووٹوں کا مسترد ہونا تھا ۔

اب یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں بیٹھا ہوا کوئی معزز ممبر یہ تک نہیں جانتا ہوگا کہ ووٹ کاسٹ کس طرح کرنا ہے ۔اگر اس کو یہ بھی نہیں معلوم تو میری ناقص رائے میں ایوان میں ایسے شخص کی جگہ بنتی بھی نہیں ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ ووٹ جان بوجھ کر مسترد کرائے گئے اور وزیراعظم عمران خان کے الفاظ میں دوبارہ دوہرادیتا ہوں کہ ارکان کی خریدو و فروخت ہوئی ۔


یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو ایک نیا حوصلہ دیا اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ''جمہوریت بہترین انتقام ہے '' کا نعرہ لگاتے ہوئے نظرآئے ۔زرداری سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک سب کے لیے یوسف رضا گیلانی کی جیت ایک جائز چیز تھی اور سات ووٹوں کا ادھر سے ادھر ہوجانا جمہوریت کا حسن تھا ۔

ادھر حکومتی ترجمان چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے کے ہمارے امیدوار کو شکست سے دوچار کروایا گیا ہے ۔حکومت پہلے ہی شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کے حق میں تھی لیکن اس کی مراد پوری نہیں ہوئی اور عبدالحفیظ شیخ کی شکست کے بعد تو پی ٹی آئی نے پورے الیکشن کے نظام پر ہی سوالات اٹھادیئے ۔عمران خان حکومت کا خاص ہدف الیکشن کمیشن آف پاکستان تھا اور خود وزیراعظم نے بھی قوم سے اپنے خطاب میں الیکشن کمیشن کو شدید ہدف تنقید بنایا ،جس کا جواب الیکشن کمیشن نے ایک پریس ریلیز ذریعے دیا اور خفیہ بیلٹ کو ملک کے جمہوری نظام کا حسن قرار دے دے دیا ۔


ایک بڑا مشہورہ فقرہ ہے کہ ''تیرا کتا ٹومی ۔۔۔میرا کتا ،کتا ''ہماری سیاسی جماعتوں کا کردار بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔آپ یہاں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ہی دیکھ لیں ۔صادق سنجرانی کی کامیابی کے بعد آپ حکومتی ترجمانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات سن لیں ایسا لگے گا کہ یوسف رضا گیلانی کی فتح کے بعد جو بیانات پی ڈی ایم کی جانب سے آرہے تھے اب وہ بیانات پی ٹی آئی دے رہی ہے اور جو بیانات تحریک انصاف کے رہنما دے رہے تھے اب وہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی جانب سے دیئے جارہے ہیں ۔

اس ملک میں جمہوریت کے نام پر جو مذاق کیا جارہا ہے اس سے عوام سخت نالاں ہیں ۔ہماری سیاسی جماعتیں معاملات کو سنجیدہ لینے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ہر بات کا دوش اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر یہ اپنی ذمہ داریوں سے نظر یں نہیں چراسکتی ہیں ۔کوئی پارلیمنٹ میں موجود ان سیاسی جماعتوں سے سوال کرے کہ کون سی اسٹیبلشمنٹٹ نے آپ کو انتخابی اصلاحات سے منع کیا ہے ۔

اگر انتخابی عمل کے لیے خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار مناسب ہے تو آپ ایک میز پر بیٹھ جائیں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کریں تاکہ اس طرح کے مسائل کا ہمیشہ کے لیے حل ہوسکے ۔محض ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ارکان کی خریدوفروخت کی باتیں کرنے سے یہ نظام ٹھیک ہونے والا نہیں ہے ۔حالیہ سینیٹ انتخابات نے اس پورے سسٹم پر کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں اور ان سوالات کا جواب دینا تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔

یہ کسی صادق سنجرانی کی فتح یا یوسف رضا گیلانی کی شکست کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کے تقدس اور ووٹ کی عزت کا معاملہ ہے ۔ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جو ووٹ ان کے حق میں پڑے چاہے وہ ان کے مخالفین کا ہی کیوں وہ اس کو تو عزت دیںگے لیکن جو ان کی مخالفت میں جائے وہ اس کو عزت نہیں دیںگے ۔اسی طرح وزیراعظم صاحب کو بھی سوچنا چاہیے کہ جب وہ ارکان کی خریدو فروخت کی بات کرتے ہیں تو اس بات پر بھی غور کریں کہ 47ارکان رکھنے والا ان کااتحاد ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں 54ووٹ کہاں سے لے گیا ۔

اس سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خریدو فروخت دونوں جانب سے کی گئی ہے ۔ہمیں اب اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک چیز جو میرے لیے حلال ہے وہ آپ کے لیے حرام نہیں ہوسکتی اور جو میرے حرام ہے وہ آپ کے لیے حلا ل نہیں ہوسکتی ۔ہمیں اپنا حرام اور حلال کا پیمانہ تبدیل کرنا ہوگا اور درست کو درست کہنے کی ہمت کرنا پڑے گی اور ورنہ یہ گلا سڑا نظام اپنے بوجھ تلے خود ہی آگرے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :