نواز شریف کا مستقبل!

اتوار 2 جون 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے کمرے کا دروازہ کھولا ، اندر جانے کی اجازت طلب کی اور ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا ، وہ طلباء کی اسائنمنٹ چیک کرنے میں مصروف تھے۔ وہ کچھ دیر اپنے کاموں میں مصروف رہے اور میں ان کے آفس میں پڑے ہوئے تھیسسز دیکھنے میں محو رہا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے فائلیں بند کیں ، طلباء کو ہدایات دیں اور یکسو ہو کر میری طرف متوجہ ہو گئے ۔

میں سنبھل کر بیٹھ گیا ،وہ کچھ دیر مجھ سے صحافت کے بارے میں سوال کرتے رہے ، کچھ ہی دن قبل صحافت کا عالمی دن منایا گیا تھا ، وہ اپنے کسی عزیز کو صحافت میں دھکیلنا چاہتے تھے ، میں نے چھوٹتے ہی عرض کیا ” سر اگر آپ اپنے عزیز کو کانٹوں کے بستر پر لیٹنے اور اگلے تیس چالیس سال تک گدھے کی طرح کام کرنے پر رضی کر سکتے ہیں تو بے شک آپ اسے صحافت میں داخلہ دلوا دیں اوراگر وہ یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا تو برائے مہربانی اس پر ظلم نہ کریں اور اسے کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ دلوا دیں۔

(جاری ہے)

دوسری بات یہ کہ ان دو مصیبتوں کے ساتھ تیسری مصیبت یہ بھی ذہن میں رکھے کہ اگر وہ صحافت کے ساتھ کوئی سائنڈ بزنس چلا سکتا ہے تو اس فیلڈ میں آنے کا سوچے ورنہ اگر وہ صرف صحافت پر گزارا کرنا چاہتا ہے تو اسے مشورہ دیں کہ نان چنے کی ریڑھی لگا لے ۔“ وہ میری لمبی تقریر پر زیر لب مسکرا دیے اور میں نے بھی از راہ مسرت مسکراہٹ کا تاثر دینے کی کوشش کی ۔

ہم کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ، پھر وہ سیاست کی طرف آئے اور بولے ” ملک اس وقت بہت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ، مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے ، ڈالر کی اڑان رکنے کا نام نہیں لے رہی ، آئی ایم ایف اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور مجبورا ہمیں اس کی تما م شرائط ماننی پڑیں گی جس سے ملکی معیشت مزید ابتری کا شکار ہو گی ، ہمار ے مشرق میں مودی ایک بار پھر اقتدار میں آ چکا ہے، امریکہ ایران تنازع کی وجہ سے مشرق وسطیٰ بہت جلد نئے بحران کا شکار ہو جائے گا “ وہ رکے گہری سانس لی اور دوبارہ گویا ہوئے ” آئندہ آنے والے سالوں میں جنوبی ایشیا دنیا کی سیاست کا مرکز ہو گا ، مودی کی جیت ہندوستان میں نئے تنازعات کو جنم دے گی جس سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا، امریکہ اسرائیل مودی سے کوئی بھی غلطی کر وا سکتے ہیں اور یہ غلطی دنیا کا نقشہ بدل سکتی ہے۔

اس کے ساتھ سی پیک اور پاک چین تعلقات میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی ، امریکہ ایران جنگ کے امکانات اگرچہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو پورا جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ اس جنگ کی آگ میں جل کر بھسم ہو جائیں گے “۔میں ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا ، وہ بات کر کے خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا ” سر یہ تو آپ نے عالمی سیاست کی صورت حال بیان کر دی ،پاکستان کی اندرنی اور داخلی سیاست کے بارے میں آپ کیا کہیں گے“ ۔

دفتر سے باہر کا درجہ حرارت منفی چوالیس ڈگری تک پہنچ چکا تھا اور سورج کی تپش کھڑکی کے شیشوں سے ہو کر ہماری پیشانیوں کو جھلسا رہی تھی ، وہ اٹھے ، کھڑکی پر پردے چڑھائے ،اے سی تیز کیا اور کرسی پر بیٹھ کر ٹانگیں سامنے کی طرف پھیلا دیں ، میں سراپا سوال بنا بیٹھا تھا ، انہو ں نے میرے سوالیہ چہرے پر نظر یں گاڑیں اور گویا ہوئے ”پاکستان کی اندرونی سیاست پر تبصرہ اتنا آسان نہیں اس لیے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہہ نہیں سکتا ، ہماری اندرونی سیاست کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ کل کیا ہونے والاہے تو ایسی صورت میں میدان سے باہر بیٹھا کھلاڑی کیا تبصرہ کر سکتا ہے ،اگر ہماری سیاست اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی اور سیاسی معاملات کا تعین سیاسی حرکیات سے ہوتا تو تبصرہ ممکن تھا لیکن یہاں تو خود کھلاڑیوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کس کا کھیل ختم اور کس کا کھیل باقی ہے ، جب سیاسی فیصلے سیاسی حرکیات کی بجائے کہیں اور ہوتے ہوں اور کھلاڑیوں کو اپنی مرضی سے چنا اور کھلایا جاتا ہو تو ایسی صورت میں کیسی پیشنگوئی اور کیسا تبصرہ۔

“ انہوں نے بات ختم کی اور نظریں سوال بنا کر میرے چہرے پرگاڑی دیں، میں ان کی بات میں چھپا طنز سمجھ سکتا تھا ، ان کی کاٹ واقعی زبردست تھی اور میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ میں نے بات کو بدلتے ہوئے عرض کیا ” سر یہ سب چھوڑیں صرف اس بات پر آئیں کہ کیا تقدیر نواز شریف کو دوبارہ چانس دے گی اور کیا ان کی قسمت کا ستارہ دوبارہ چمک سکتا ہے ۔“ میرا سوال سنتے ہی ان کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی ، وہ تھوڑی دیر خاموش رہے ، سر جھکایا اور تھوڑی دیر غور و فکر کے بعد پوری سنجیدگی سے بولے ” اگر میں کہوں کہ ہاں تو تم سمیت کسی کو بھی میری بات پر یقین نہیں آئے گا لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ تقدیر نواز شریف کو ایک چانس مزید دے گی ،میں سیاسی طور پر کسی جماعت کو پسند نہیں کر تا اور نہ سیاست سے مجھے کوئی دلچسپی ہے لیکن میں جب ملک کے حالات دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے عمرا ن خان جلد ہی تھک جائے گا یا تھکا دیا جائے گا، عمران خان کی حکومت چند ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے اورجس دن اپوزیشن نے فیصلہ کر لیااور زرداری کی مفاہمت کی سیاست کامیاب ہو گئی وہ دن اس حکومت کا آخری دن ہو گا، اس کے ساتھ خود حکومتی صفوں میں بھی اضطراب آخری حدوں کو چھو رہا ہے، پنجاب کی تبدیلی سرکار سردار عثمان بزدار بھی بوجھ بنتے جا رہے ہیں ، یہ اب تک میڈیا کے سہارے چل رہے ہیں ، میڈیا ان کے ساتھ کھڑا اور ان کے نالائقیوں اور نااہلیوں کو چھپا کر ”مثبت رپورٹنگ“ کر رہا ہے جس دن میڈیا نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور سردار صاحب کی اصل حقیقت دکھانا شروع کر دی تو یہ بھی نہیں ٹھہر سکیں گے ۔

اس کے ساتھ پنجاب کی سینئر قیادت اب تک صبر سے بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی لیکن اب اس کا صبر کا بند بھی ٹوٹ چکا ہے ، عید کے بعد سینئر قیادت میں سے کوئی بھی بم دھماکا کر سکتا ہے اور اس بم دھماکے میں اور کچھ ہو نہ ہو سردار صاحب ضروراڑ جائیں گے اور یوں پنجاب میں سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا اور یہ بحران ڈگمگاتی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا ۔

“ میں نے فورا عرض کیا ” لیکن سر اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ تقدیر نواز شریف کو ایک اور چانس دے گی“ وہ بولے ” میری بات ابھی ادھوری ہے ، پوری بات سنو گے تو جان جاوٴ گے ، پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی سیاسی جماعت نے مرکز میں اکٹھی دوبار حکومت نہیں بنائی، ہماری تاریخ میں صرف پچھلے دو ادوار میں حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے ہیں اور کوئی بھی جماعت دوسری بار اپنی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی ، اس لیے اگر عمران کی حکومت پانچ سال کرتی ہے یا راستے میں ہمت ہارتی ہے تو دونوں صورتوں میں نئے انتخابات میں ن لیگ کا پلڑا بھاری رہے گا ،یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف اور زرداری میں سے لوگ نواز شریف کو ذیادہ پسند کرتے ہیں اور نواز شریف کو کسی بھی لیڈر سے ذیادہ سیاسی عصبیت حاصل ہے اور یہ عصبیت اسے ایک بار پھر اقتدار تک پہنچا دے گی ۔

سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور اس میں ممکنات کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور موجودہ منظر نامے میں نواز شریف کا دروازہ کچھ ذیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ “وہ بات کر کے خاموش ہوئے اور میں نے تائید میں سر ہلا دیا ۔ ان کے لیکچر کا ٹائم شروع ہو چکا تھا ، انہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا ،معذرت چاہی اور نوٹس پکڑ کر کلاس روم کی طرف چل دیے اور میں وہیں بیٹھا ملکی سیاست کے مستقبل میں کھو گیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :