انصاف ہو تو ایسا۔۔!!

منگل 6 اپریل 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

ابھی کچھ دن قبل میں نے اپنے کالم میں بھرپور طریقے سے یہ بات ثابت کرنےکی کوشش کی  تھی کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ایک نعرہ دو نہیں ایک پاکستان ، نیا پاکستان  کو پورا کرنے کے لیے کتنی محنت شاقہ اور جدوجہد سے کئی سنگ میل عبور کیے اور وہ بھی صرف دو سے تین سالوں میں اس موضوع پر کچھ دلائل بھی دیے جو کہ آپ میرے گزشتہ کالم میں پڑھ سکتے ہیں اسی کے توسط سے  نیا پاکستان بنانے کے عمل میں کئی ایک اور سنگ میل عبور ہو چکے ہیں جن کا ذکر نہ کرنا بہت زیادتی ہوگی۔

آخر کو عوام تک بھی تو پہنچنا چاہیے نہ کہ ہمارے وزیر اعظم  کتنی محنت سے نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں حتی کہ انہوں نے اپنی بیماری "کورونا" کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اور صرف عوام کی بھلائی کے لیے اپنا کام جاری رکھا اور ملاقاتیں بھی جاری رہیں تاکہ نیا پاکستان بنانے میں کوئی کوتاہی نہ ہوسکے۔

(جاری ہے)

لیکن صحت مند حضرات ماسک ضرور پہنیں اور سماجی فاصلے کا بھی دھیان رکھیں نہیں تو جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے او ر وہ بھی چھ مہینے کے لیے۔


سانحہ ساہیوال جب بھی یاد آتا ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگ جاتا ہے کہ کیا ایک ریاست جو ماں کے جیسی ہونی چاہیے تھی وہ اتنا ظلم بھی کر سکتی ہے مگر ہمارے وزیر اعظم صاحب  نے بھی اس کا سختی سے نوٹس لیا کیوں  کہ نیا پاکستان میں کسی غریب کو انصاف نہ ملے تو انصاف کی تحریک ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے پھر کیا فائدہ بائیس یا پچیس سال کی جدوجہد کا ،اسی لیے  اس واقعے میں ملوث سی۔

ٹی۔ڈی کے اعلی افسر کو تمغہ شجاعت سے نواز کر حکومت نے انصاف کی ایک اعلی مثال قائم کر دی جو کہ تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔انصاف ہو تو ایسا۔۔۔
پچھلی حکومتون نے اتنا قرض لیا کہ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہو گیامگر نیا پاکستان بنتے ہی جیسا کہ   پاکستان تحریک انصاف نے دعوی کیا تھا کہ "دو سوارب آئے گی، ایک سو ارب ہم آئی۔ایم۔ایف کے منہ پر دے مارے گی اور ایک سوارب سے ملک کو خوشحال کرے گی" تو وعدہ تو پورا کرنا بہت ضروری ہے ورنہ سخت گناہ ملتا ہے یہ میں نے بھی سن رکھا ہے۔

اس لیے اب اتنا زیادہ قرض تو ہم دینے سے رہے تو ہم نے دو سال دبا کےقرض لیا اور پھر اپنا سٹیٹ بینک   ایک آرڈینینس جاری کرکے ، ورلڈ بینک کو دے دیا کہ لو جتنا مرضی پیسہ اس میں ڈالو یا نکالو ہمارے ملک کی حکومت یا کوئی بھی ادارہ آپ سے جواب طلب نہیں کرے گا۔ اسے کہتے ہیں نا وعدہ وفا کرنا یعنی ایک سو ارب  منہ پر مارنےکی بجائے پورا سٹیٹ بینک ہی ان کے حوالے کر دیا۔

انصاف ہو تو ایسا۔۔۔
چوروں کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوا اور اتنی تیزی سے ترقی دیکھنے کو ملی کہ روز مرہ استعمال کی ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی پھر چاہے وہ آٹا ہو، چینی ہو،پیڑول ہو،دوائی ہو،دالیں ہوں، انڈے ہوں، چکن ہو،کپڑے ہوں، سبزی ہو یا پھر گھی ہر ایک چیز نے ترقی کے سابقہ سارے ریکارڈ توڑے مگر کچھ عقل کے اندھوں کو یہ ترقی بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہو گیا تو بھائی گزارش ہے اضافہ ہی ہوا نہ ،کون سی کمی  ہوئی ہے اور اضافہ تو اچھا ہوتا ہے نا اور یہی تو ترقی ہے اور کیا کمی کرکے نقصان اٹھائیں؟  ان جیسے کم عقل لوگوں کا بھی ہمارے وزیر اعظم نے خیال رکھا اور مہنگائی میں کمی کرنے کی بجائے یا کوئی ترقیاتی کام کرنے کی بجائے پورے ایک ارب روپے اس بات پر مختص کر دیے کہ میڈیا پہ لوگوں کو بتاو کہ ملک کتنا ترقی کر گیا ہے  آسان زبان میں اشتہارات چلاو تاکہ ان ناسمجھ لوگوں کو بھی ترقی نظر آسکے۔

اسے کہتے ہیں نا  انصاف ہو تو ایسا۔۔۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب کو ماحولیات سے خصوصی لگاو ہے اسی وجہ سے انہوں نے ایک ارب درخت بھی لگائے بلکہ اب تو شاید تعداد میں مزید اضافہ بھی ہوا  اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفع ڈیم بنانے  پر زور بھی دیاپوری دنیا نے ان کی تعریف کی حتی کہ ان پر ڈاکیومینٹریاں بھی بنائی گئیں کہ دیکھو دنیا میں پہلا لیڈر ایسا پاکستان کو ملا جو کہ ماحولیات کو فرحت بخش بنانے میں کوشاں ہے۔

پاکستان کتنا خوش قسمت ہے اس بات پر پوری دنیا کے لوگوں نے رشک کیا مگر کافروں کو یہ تعریف ایک آنکھ نہ بھائی اسی لیے تو امریکہ نے ماحولیاتی کانفرنس جس میں چالیس ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی  مگر پاکستان کو شمولیت کا پوچھا بھی نہیں یہ کہاں کا انصاف ہے، انصاف کے تقاضے دنیا کو ہم سے سیکھنے کی ضرورت ہے پھر ہی کہیں دنیا میں امن قائم ہو سکے گا۔


وہ کہتے ہیں نا کہ سمجھدار کو اشارہ کافی ہوتا ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میری قارعین سے التماس ہے کہ ان دلائل کو ہلکا نہ لیں بلکہ یہ تو مضمون کی طوالت کے ڈر سے میں نے صرف اشارون کنایوں میں بات پہنچانے کی کوشش کی ہے ورنہ ان میں سے ہر دلیل کے پیچھے ایک سمندر موجزن ہے کہ اگر لکھنے بیٹھو تو میں لکھتے لکھتے تھک جاوں گا اور آپ لوگ پڑھتے پڑھتے اونگھنے لگیں گے اس لیے ابھی اسی پر اکتفا ء کرتے ہیں اور پاکستان کے لیے بہتر مستقبل کی  دعا کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :