یوسف رضا گیلانی۔مقافات عمل یا جمہوریت کا حُسن

منگل 16 فروری 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سینٹ کے الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی چشم فلک نے اک عجیب و غریب اور منفرد نظارہ دیکھا کہ سینٹ کی اسلام آباد سیٹ کے لئے مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے الیکشن کمیشن آفس پہنچے اور  پاکستان کے دو سابقہ وزراء اعظم شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف بھی انہی کے ہمراہ نظر آرہے تھے۔

سینٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی کی خاص بات یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ ان کے تجویز و تائید کنندگان میں بھی دو سابق وزرائے اعظم شامل تھے۔یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی میں راجہ پرویز اشرف تجویز کنندہ تھے جبکہ شاہد خاقان عباسی سینیٹ میں ان کے کاغذات نامزدگی کے تائید کنندہ تھے۔

(جاری ہے)


درج بالا سطور میں اس منظر کو عجیب و غریب اور منفرد نظارہ کہنے کے پیچھے اک منطق ہے، آیئے تاریخ کے صفحوں پر پڑی گرد کو ہٹائیں اور دیکھیں کہ ماضی قریب میں ایسا کیا ہوا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی کو بہت ہی حیرت کیساتھ دیکھا جارہا ہے۔

16 جنوری 2012، پاکستان کی سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کے سلسلہ میں Switzerland   کے حکام کو خط نہ لکھنے کی بناء پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور ان سے 19 جنوری کو ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کو کہا۔اور بالآخر  26 اپریل 2012 کو، گیلانی کو توہین عدالت کے الزامات کے تحت سزا سنائی گئی، وہ یہ عہدہ سنبھالتے ہوئے سزا یافتہ ہونے والے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

انہیں عدالت کے برخاست ہونے تک تحویل میں رکھنے کی سزا سنائی گئی، یہ علامتی سزا 30 سیکنڈ تک جاری رہی۔اور یہ سلسلہ یہی پر نہیں رکا بلکہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی کا عہدہ چھوڑنے کے لئے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا۔اک پریس کانفرس میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عہدہ کو چھوڑ دیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہوجائیں۔

نواز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سزا سنانے کے بعد، مسٹر گیلانی اور ان کی کابینہ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ مسٹر گیلانی کو چاہئے کہ وہ اس ملک، آئین، نظام اور جمہوریت پر ترس کھائیں اور وزیر اعظم کے منصب پر اپنے ''غیر قانونی قبضے'' کو ختم کریں۔
اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قومی اسمبلی کے اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بچانے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں دو الگ الگ درخواستیں دائر کردی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے یہ درخواست سیالکوٹ کے ایم این اے خواجہ محمد آصف نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی تھی، جس میں استدلال کیا گیا تھا کہ عدالت عظمی کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا گیا ہے اور انہیں مزید فرائض کی انجام دہی سے روکنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے نے عدالت عظمی سے استدعا کی ہے کہ وہ اسپیکر کے اس فیصلے کو ''من مانی، سنجیدہ اور غیر قانونی'' قرار دے اور مسٹر گیلانی کو ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے کام کرنے اور وزیر اعظم کے اختیارات کے استعمال سے روکنے پر پابندی لگائے۔

انہوں نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ آرٹیکل 63  کے تحت مسٹر گیلانی کی نا اہلی کے سوال کو ''الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تیزی سے فیصلہ کرنے کی ہدایت کریں۔پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان نے درخواست دائر کی  جس میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ گیلانی کو وزیر اعظم کے طور پر مزید کام کرنے سے روکیں، اور اسپیکر فہمیدہ مرزا کے قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کے حق میں دی گئی رولنگ کو غیر قانونی قرار دیں۔

عمران خان کی درخواست میں عدالت سے مزید استدعا کی گئی کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وزیر اعظم کی حیثیت سے گیلانی کی اہلیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کرے۔
بالآخر جون 2012 میں، پاکستان کی اعلی عدالت نے توہین عدالت کے جرم ثابت ہونے کے اورعدالت سے سزا یافتہ ہونے کے دو ماہ بعد، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے برقرار رکھنے سے نااہل کردیا ہے۔

عدالتی فیصلے نے انہیں عہدے اور پارلیمنٹ سے نااہل کردیا۔عدالت نے نااہلی کو 26 اپریل کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کی  وزارت عظمی میں رہتے ہوئے کئے گئے فیصلوں پر سوالات بھی اٹھا دئیے۔اس حکم کے چند گھنٹوں کے اندر ہی، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا کہ مسٹر گیلانی کو 26 اپریل سے قومی اسمبلی سے نااہل کردیا گیا ہے۔
اب  2021  میں ہونے والی پیش رفت کو جمہوریت کا حسن کہا جائے یا پھر مقافات عمل کہ جس بندے کو ریاست پاکستان کے سب سے بڑے انتظامی عہدہ یعنی وزرات عظمی سے ہٹانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ نون نے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا تھا اور آخرکار کامیاب بھی ہوئے، آج اُسی بندے کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ کا رکن منتخب کروانے کے لئے وہی جماعت اپنا بھرپور ساتھ دیتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔

یہ بالکل اُسی طرح کی صورتحال بنتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے کہ  ”کل کا ڈاکو آج کا بھائی۔ پرویز الہی پرویز الہی“ کیونکہ ریاست مدینہ ثانی کے امیر جناب عمران خان صاحب کل تک پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے مگر خود اپنی حکومت میں پرویز الہی کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بھی بنوا دیتے ہیں۔

اسی طرح کل تک عمران خان شیخ رشید کو شیدا ٹلی کہا کرتے تھے اور انکو چپڑاسی کے قابل بھی نہ سمجھتے تھے مگر آج اپنی حکومت میں کبھی وزیر ریلوے بنا دیتے ہیں تو کبھی وزیر داخلہ۔اسی طرح پاکستان مسلم لیگ نون کی سب سے متحرک لیڈر مریم نواز کل تک  ”زرداری عمران  بھائی بھائی“ کا نعرہ لگاتی رہیں اور آج عمران کے بھائی زرداری کے ساتھ اکٹھ جوڑ کرکے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے زرداری کے بھائی عمران کے خلاف صف آراء ہیں۔


یوسف رضا گیلانی والا واقعہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔بہرحال ہم تمام پاکستانیوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ اپنے اپنے سیاسی لیڈران کی تقریروں، بلند و بالا بھڑکوں اورمخالف سیاسی پارٹیوں کے خلاف اُٹھائے جانے والے اقدامات پر ہر وقت  واہ واہ اور شاباش دینے اور اپنے فیملی، محلے داروں اور دوستوں کے ساتھ ہر وقت منہ ماری نہ کی جائے، کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں اور کل کے ڈاکو آج کے سب سے ایماندار بن جاتے ہیں اور اسی طرح کل کے ایمانداروں کو اک سیکنڈ لگتا ہے چور، ڈاکو اور کرپٹ بنانے میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :