سردار عثمان خان بزدار کا فخر کوہ سلیمان سے فخرپنجاب تک کا دو سالہ سفر

منگل 8 ستمبر 2020

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

حکومت پنجاب نے اپنی دو سالہ کارکردگی عوام الناس کے سامنے پیش کی ہے۔ اور تاحال اپوزیشن سمیت تحریک انصاف پاکستان کے وہ مخالف دھڑے جو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار سے حسد و بعض رکھتے ہیں وہ اِس دو سالہ پرفارمنس رپورٹ پر کوئی منطقی تنقید نہیں کرسکے۔ سردار عثمان خان بزدار پر تنقید برائے تنقید اور میڈیا وار کے جنتے حملے گذشتہ دو سالوں میں اِن حاسدین نے کیے ہیں ۔

پاکستانی سیا ست کی غلام گردشوں میں بے بنیاد تنقید و مخالفت کی ایسی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ گذشتہ حکومتوں کا شوبازی کلچر اِس قدر عوام الناس کے ذہنوں پر ابھی تک نقش ہے کہ وہ تقریروں کے دوران مائیک توڑنے والے کو ہی کامیاب وزیر اعلیٰ پنجاب تصور کرتے ہیں۔
شرافت، فہم و فراست اور معتبر انداز میں انتظامی امور کی انجام دہی کاجو نمونہ سردار عثمان خان بزدار نے پیش کیا ہے وہ یکسر جداگانہ ہے۔

(جاری ہے)

سردار عثمان بزدار اور اُن کے بھائیوں اور عزیزوں پر مخالفین نے میڈیا وار میں کرپشن کے خوب الزامات لگائے ہیں اور ہر تین ماہ بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے مستعفی ہونے کی بے پرکی بھی اُڑائی ہے مگر قابلِ افسوس پہلو تو یہ ہے کہ 110ملین آباد ی کے صوبے میں کوئی ایک فرد بھی ٹھوس ثبوت و شوائد کے ساتھ کسی عدالت میں جاکر سردارعثمان خان کے خلاف کرپشن کے الزامات نہیں لگا سکا۔


دو سال قبل جو لوگ سردار عثمان خان بزدار کی انتظامی صلاحتیوں پر آواز اُٹھاتے تھے آج خود پریشان ہیں کہ دو سال گزر گئے مگرپنجاب میں کوئی ایک انہونی اور حکومتی نااہلیت کا مضبوط کیس سامنے نہیں لاسکے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اُس کی سربراہی کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اگر سردار عثمان خان میں انتظامی امور کی صلاحتیں نہیں ہو تیں تو پنجاب حکومت پہلے ہی ماہ میں گر جاتی۔

فرزند کوہ سلیمان نے گذشتہ دو سالوں میں اپنے طاقتور ترین سیاسی حریفوں کو جہاں اپنی سیاسی قابلیت سے شکست دی ہے وہاں دوسری جانب اپنی انتظامی اور فہم و فراست سے پنجاب کے انتظامی معاملات کو احسن طریقے سے چلا کر پورے پاکستان کے ناقدین کو شرمندہ کر دیا ہے۔
صوبہ پنجاب کی اہمیت پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ سردار عثمان خان کی حکمت عملی کی بناپر پنجاب مضبوط ہے ورنہ اب تک مرکزی حکومت بھی متا ثر ہو چکی ہوتی ۔

قومی جی ڈی پی کا 54.2فیصد بوجھ پنجاب پرہے۔ پنجاب میں 37.6ملین افراد سرکاری اور نجی ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ معیشت کے 18سب سیکٹرز میں 11سب سیکٹرز پنجاب سے براہ راست وابستہ ہیں۔ بعین ہی ملک بھر کی 74.5فیصد بڑی فصلیں، 56.1فیصد چھوٹی فصلیں، 67.2فیصد کاٹن جننگ،59.5فیصد لائیو سٹاک، 22.4فیصد جنگلات، 48.1فیصد فشریز، 40.2فیصد انڈسٹریز، 12.8فیصد معدنیات، 43.9 فیصد مینوفیچرنگ شعبہ، 58.2فیصد ٹرانسپورٹ سروس، 55.3فیصدہول سیل اینڈ ریٹیل، 55.1فیصد فنانس اینڈ انشورنس ، 55.2فیصد پبلک ایڈمنسٹریشن اینڈ دیفنس اور 58.9فیصد سوشل اینڈ کمیونٹی سروسزکا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔

شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل کو حل کرنا صوبہ پنجاب میں کوئی آسان کام نہیں۔ دن رات کی انتھک محنت اور لگن ہی اتنے بڑے صوبے کو سنبھال سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کم وبیش روزانہ 18گھنٹے مسلسل کام کرتے ہیں۔ تخت ِپنجاب کی حکمرانی شاطر حریفوں اور میڈیا وار کی موجودگی میں اب پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ذمہ داریوں کا ہر روز ایک کٹھن امتحان ہے۔

اور اِس امتحان میں شکر الحمد اللہ ذاتی حیثیت میں سردار عثمان خان بزدار بطور کپتان پنجاب میں کامیاب ترین وزیر اعلیٰ پنجاب ثابت ہوئے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب تاحال مسائل کا گڑھ ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مگر ایک فرد واحد آخر کس کس محاذ پر حاسدین کا تنہامقابلہ کرئے۔ بیورو کریسی میں حریفوں کا گہرااثر و رسوخ اور گردنوں میں لوہے کی سلاخیں لیے پھرنے والے بیورو کریٹ آج بھی د ن رات پنجاب حکومت کے خلاف سازشوں میںسرعام مصروف ہیں۔

بدقسمتی یہ بھی ہے کہ دوسری جانب اپنی ہی جماعت کے دوست نما دشمن ہر وقت حکومت پنجاب کے گرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ کسی شہر میں اگر انتظامی خامیاں موجود ہیں اور عوام کو ریلیف نہیں مل رہا تو اُس کے پس ِپردہ سردار عثمان خان بزدار کے دوست نما دشمنوں کی سازشیں شامل حال ہیں۔ ورنہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار ہر ضلع میں اپنے نمائندگان کو بھر پور وقت بھی د ے رہے ہیں اور مطلوبہ دستیاب فنڈز بھی انہیں فراہم کر رہے ہیں۔

اگر مقامی نمائندگان غفلت کا شکار ہیں تو عوام اُن سے براہ راست شکوہ بھی کرئے اور اُن کا احتساب بھی کرئے۔ مقامی نمائندگان کی دانستہ ناکامیاں وزیر اعلیٰ پنجاب سے منسلک کرنا ناانصافی او کم عقلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ورنہ مجموعی طو رپر پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی سرکاری بیان کے مطابق قابل تعریف ہے ۔
سرکاری رپورٹس کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں سردار عثمان خان بزدار نے برسوں سے نہ ہونے والے اداروں کے بورڈ آف گورنر کے اجلاس منعقد کیے ہیں۔

مشکل مالی حالات میں پروبزنس اور پروگریسو بجٹ پیش کیا ہے۔ نئے مالی سال میں بیشتر ٹیکس ختم اور 56 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے 5 ارب روپے کا مذید اضافہ کیا ہے ۔ مقامی حکومتوں کا شیئر 10 فیصدتک بڑھایا ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ اورکنسٹرکشن انڈسٹری کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ مالی امور میں شفافیت کی مثال قائم کی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی کرپشن الزام اب تک ثابت نہیں ہو سکا۔


جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے دس محکموں کے لئے سیکرٹریوں کی تقرری، 13اداروں میں 427آسامیوں پر تعیناتی کی منظوری کے علاوہ ایڈیشنل چیف سکریٹری اور ایڈیشنل آئی جی کو مقرر کر دیا گیاہے اور جنوبی پنجاب کے لئے 33 فیصد ترقیاتی فنڈ مختص کیے گئے ہیں۔راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ پاکستان اور پنجاب میں 13 سپیشل اکنامک زونز کے قیام پر کام شروع کردیا ہے۔

آب پاک اتھارٹی کے تحت صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ2 ارب روپے کی لاگت شروع ہو رہا ہے۔ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کے تحت آسان شرائط پرقرضہ سکیم کیلئے 20ارب روپے کی خطیر رقم مختص کردی ہے۔ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری اور نفاذ ہوچکا ہے۔ اب لوکل گورنمنٹ سربراہان کا براہ راست انتخاب ہونے جار ہا ہے۔
چھوٹے کاشتکاروں کو ای کریڈٹ اسکیم کے ذریعے قرض دیا جارہا ہے۔

ٹڈیوں کے حملے پر قابو پانے کے لئے 1 ارب 25 کروڑ روپے مختص کیے گئے جس سے اِس خطرہ پر قابو پایا گیا اور اسے 8 لاکھ ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر ختم کیا گیا۔ حکومت نے آٹھ لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لئے جلالپور اور گریٹر تھل کینال سسٹم کی تعمیر کا آغاز کیا ہے۔ 43لاکھ ٹن گندم خریدی گئی ہے اور گنے کے کاشتکاروں کو 99 فیصد ادائیگی کی گئی ہے۔کابینہ نے گنے ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے جس سے کسانوں کو رقم اد ا نہ کرنے والی ملوں کو50لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائےگا۔


تمام اضلاع میں صحت انصاف کارڈ سکیم شروع کی ہے جوکہ 70لاکھ خاندانوںکے ساڑھے تین کروڑ افراد کو صحت کی مفت سہولت فراہم کر ئے گی۔ قلیل عرصے میں کرونا ٹیسٹنگ کی صلاحیت 17000روزانہ کی ہے۔ صحت کے شعبے میں 30 ہزار میرٹ پر مبنی بھرتیاں کی گئیں ہیں اور مختلف اضلاع میں 3500 بستروں پر مشتمل 6 نئے اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں۔حکومت نے اسپتالوں میں 12ہزار بیڈوں میں اضافہ کیا ہے جبکہ بہاولپور میں پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر قائم کیا جارہا ہے اور لاہور میں 600 بستروں کا ایک اور نیا اسپتال قائم کیا جارہا ہے۔

وزیر آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور فیصل آباد میں حسیب شہید اسپتال مکمل ہوگیا ہے۔ ڈاکٹروں کے خصوصی الاونس کی منظوری دی گئی ہے اور نرسوں کے لئے ایک نیا سروس سٹرکچر ڈیزائن کیا جارہا ہے۔
سکولوں کے تعلیمی بجٹ میں 382 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ ہے اور اِسی منصوبے کے تحت سات یونیورسٹیاں قائم بھی کی جارہی ہیں۔

اساتذہ کے لئے ای ٹرانسفر پالیسی کامیاب رہی اور 22 اضلاع میں انصاف سہ پہر اسکول قائم کردیئے گئے ہیں۔ ساڑھے چار ہزار سی ٹی آئی کی بھرتی مکمل ہوچکی ہے۔نئے اساتذہ کو سی ٹی آئی کی طرز پر بھرتی کیا جائے گا۔ پرائمری لیول پر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے اور انگریزی کو بطور مضمون پڑھانے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے۔
کابینہ اور کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے 130 اجلاس ہوچکے ہیں اور 1929 کے ایجنڈا آئٹمز پر فیصلے کیے گئے ہیں۔

پنجاب اسمبلی نے دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قانون سازی کرتے ہوئے گذشتہ دو برس کے دوران مفاد عامہ کیلئے بنیادی نوعیت کے58 بل منظوراور 25 نئے آرڈیننس کا اجراءکیا ہے اور 38بنیادی قوا نین پاس کیے ہیں۔
ریسکیو1122کے تحت موٹرسائیکل ایمبولینس کا دائرہ کار ہر ضلع تک بڑھایا جا رہا ہے۔ جبکہ ریسکیو1122کو تحصیل کی سطح تک قائم کیا جا رہا ہے۔

پنجاب پناہ گاہ اتھارٹی کا قیام اور خواتین ملازمین کیلئے 137 ڈے کیئر سینٹرز کا قیام زیر عمل ہے۔ جبکہ دس نئی پناہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں۔
پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کا قیام عمل میں آچکا ہے اور 144 ارب کے 28 ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی جاچکی ہے۔ راولپنڈی رنگ روڈ اور نالہ لئی ایکسپریس وے، ایس ایل تھری رنگ روڈ، شیخوپورہ گوجرانوالہ سڑک کی تعمیر کا  
لاہور میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ملک کے سب سے بڑے اور پہلے انڈر گراو نڈ واٹر ٹینک کو تعمیرکیا گیا ہے۔

لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کے منصوبے کواکتوبر میں شروع کر دیا جائے گا۔ محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام صوبے بھر میں اولیاءکرام کے مزارات کی تزئین و آرائش کا جامع پلان مرتب کیا گیا ہے۔ لاہور میں ٹریفک مینجمنٹ کیلئے 2200 وارڈنزبھرتی کیے جارہے ہیں۔
پنجاب پولیس میں 10 ہزارنئی بھرتیوں کی منظوری دی گئی ہے۔ محکمہ پولیس کے لئے 550 نئی گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔

45 نئے تھانوں کی تعمیر ہورہی ہے جبکہ 101 تھانوں کے لئے اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حکومت نے لوکل گورنمنٹ کا حصہ 10 فیصد کردیا گیا
 ہے اور منجمد لوکل گورنمنٹ کے فنڈز کو بھی بحال کردیا گیا ہے۔ا یل ڈی اے کے ضمنی قوانین میں تبدیلیاں متعارف کروائی گئیں اور اونچی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے۔پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی 20موبائل وین لوگوں کو اُن کی دہلیز پر سروس فراہم کریں گیں۔


  نیا پاکستان ہاوسنگ پروگرام پر کام جاری ہے۔ سرمایہ کاروں کے لئے آسانی سے کاروبار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے جبکہ ون ونڈو سیل اور ای خدمت مراکز قائم کیے گئے ہیں۔حکومت پنجاب ٹی ای وی ٹی اے کے تحت حکومت ہر سال ایک لاکھ طلبا کو تربیت فراہم کررہی ہے اور نیا پاکستان منزلیں آسان پروگرام کے تحت دیہات میں تقریبا2200 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں۔


کوہ سلیمان کے علاقے میں 4 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کی جا رہی ہے اور خانکی بیراج ، جناح بیراج ، پنجنڈ اور دیگر بیراجوں کی اپ گریڈیشن مکمل ہوچکی ہے۔جبکہ اپر جہلم کینال اور ڈی جی خان کینال کی اپ گریڈیشن پر کام جاری ہے جو آب پاشی کے نظام میں انقلاب لائے گا۔
وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار نے 8جیلوں کا خود وزٹ کیا ہے اور حکومت پنجاب نے معمولی جرائم میں رہائی کے منتظر 1000 غریب ترین قیدیوں کا 28 کروڑ روپے جرمانہ ادا کیا ہے اور انہیں رہائی دلوائی ہے جبکہ 167 سال قدیم جیل قوانیں میں جدید اصلاحات کو متعارف کروا یا جا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :