
نظریہ بھٹو کا قتل
منگل 21 مئی 2019

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
جلیانوالہ باغ کے سانحہ سے اس نے بہت اثر لیا اور انگریزوں سے نجات کے لئے آواز اٹھائی۔
نہ صرف اس نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ عملی طور پر حصہ لیتے ہوئے اس نے دہلی میں عین اس وقت جب کہ اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر دھماکہ کیا ،انہیں ساتھی سمیت پکڑ کر عمر قید کی سزا سنائی گئی مگر وہ اپنے نظریہ سے نہ منحرف ہوا اور نہ ہی اس نے مصلحت کی راہ اپناتے ہوئے انگریز حکومت سے کوئی معاہدہ یا سودے بازی کی کہ شائد اس کی جان بچ جائے،ایسی ہی ایک کہانی جس کا بھی تعلق سرزمین پنجاب سے غازی علم دین شہید کی ہے ،جس نے اپنے ایمان کی حفاظت اور ناموس رسالت ﷺ کی شان اور حفاظت کے لئے ایک گستاخ رسول کو جہنم واصل کیا جس نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخانہ کتاب لکھی تھی۔ایک طویل کہانی ہے مگر یہاں موضوع کی مناسبت سے اتنا بتانا ضروری ہے کہ علم دین نے بھی اپنی سزاکی معطلی یا رہائی کے لئے بڑے بڑے وکلا کے کہنے پر معافی نہیں مانگی اور نہ ہی کسی مصلحت سے کام لیتے ہوئے وقت کے ہاتھوں اپنے آپ کو فروخت کیا بلکہ اپنے آخری سانس تک ہنستے مسکراتے ہوئے اپنے بیان پر قائم و دائم رہا کہ ہاں میں نے ایک گستاخ رسول کو قتل کیا ہے۔یہ تو محض دو حقیقتیں ہیں جو اب کہانیوں اور داستانوں کی صورت اختیار کر گئیں ہیں اور دونوں کا تعلق برصغیر کی تقسیم سے قبل سے ہے۔ایک کہانی ایسی بھی ہے جو پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ستر کی دہائی میں رقم ہوئی جس کا تعلق ایک سیاسی شخصیت ہے ۔جو ایک شخص ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ اور مکمل قانون خیال جاتا تھا اس نظریاتی شخصیت کا نام ہے ذوالفقار علی بھٹو جو کہ نانا ہے آج کے بلاول بھٹو کا۔ویسے تو اس کی شخصیت ،کارناموں،سیاسی چالبازیوں اورذہانت پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن میں یہاں ایک کتاب جو کہ عینی شاہد کرنل رفیع الدین کی تحریر کردہ ہے جس کا نام ہے بھٹو کے آخری 323 دن،اس کے صفحات سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ آج تک بھٹو ازم اور نظریہ بھٹو کیوں زندہ تھا۔”میں ایک آمر کے ہاتھوں مرنا پسند کرونگا لیکن تاریخ کے ہاتھوں نہیں“جب آخری وقت میں کرنل رفیع نے انہیں بتایا کہ بھٹو صاحب اب کھیل ختم ہو گیا ہے تو انہوں نے رنجیدہ لہجے میں صرف اتنا کہا کہ ”عوام مردہ بھٹو دیکھنا چاہتے تھے“
اب بات کرتے ہیں حالیہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد اور عید کے بعد ایک ساتھ مل کر تحریک چلانے کی۔ایک ہی ٹیبل میں بوقت افطار علما و سیاستدانوں کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک شعر یاد آگیا کہ
بھان متی نے کنبہ جوڑا
تمہارے شہر میں تہمت کا کاروبار ہوتا ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.