وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب اور توقعات

ہفتہ 21 ستمبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

کشمیری بھائیوں کا خیال ہے کہ پابجولا انسان ایک نہ ایک دن اپنے عزم صمیم سے ان آہنی زنجیروں سے آزادی حاصل کر ہی لیتا ہے لیکن غلام لوگوں اور قوموں کے ذہن غلامی کی بیڑیوں میں ہمیشہ مقفل ہی رہتے ہیں ان کی رہائی عالم کل کے چاہنے سے بھی ممکن نہیں ہوتی۔کہتے ہیں جب امریکہ میں غلامی عروج پر تھی تو ایک ہیرئٹ نامی خاتون نے خفیہ تنظیم بنائی جو غلاموں کو بھاگ جانے میں مدد کرتی تھی ایک بار اس خاتون سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے اس مشن میں سب سے مشکل مرحلہ کون سا ہوتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ”غلام کو ترغیب دینا کہ تم غلام نہیں ہوتم آزاد ہو سکتے ہو“ایسے ہی فلسفہ کا اظہار لیو ٹالسٹائی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب”جنگ اور امن “میں کیا ہے کہ”اگر جیل کے قیدیوں کو اپنی مرضی سے جیلر کے انتخاب کا حق مل جائے تو وہ آزاد نہیں ہو جائیں گے قیدی ہی رہیں گے“لیکن کشمیری اس فلسفہ فکر کو ہر نومود کو سونپتے ہیں کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“کشمیر کا ہر کشمیری عرصہ ستر سال سے یہ فلسفہ حریت پیدا ہونے والے بچے کی گھٹی اور وراثت میں سونپتا ہے۔

(جاری ہے)


قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ان کی سیاسی بصیرت کو سلام کرنا پڑے گا کہ جنہوں نے اس وقت کہ جب ہمارے پاس اسلحہ سے لے کر انتظامی امور کو چلانے والے بیوروکریٹس کی تعداد بھی کم تھی ،ہم ایک نوزائیدہ مملکت تھے پھر بھی انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ قراردیا کہ کشمیر کو پاکستان سے کوئی بھی جدا نہیں کرسکتا،اگرچہ1947 میں ہی نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی نے بھی اقوام متحدہ میں اپنے خیالات کا اظہار ایسے ہی الفاظ میں کیا کہ پاکستان سے کشمیر کو کوئی جدا نہیں کر سکتا۔

ان دو بڑی شخصیات کے بعد مسئلہ کشمیر کو جس ببانگ دہل انداز میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام اور اقوام متحدہ میں پیش کیا اس کی مثال بھی کم ہی ملتی ہے۔انہوں نے اس مسئلہ پر ایک عوامی اجتماع سے خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا کہ” میں انسان ہوں اور انسان ہونے کے ناطے سے غلطیاں بھی کر سکتا ہوں مگر مسئلہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں نیند میں بھی غلطی نہیں کر سکتا“اسی مسئلہ کو انہوں نے اقوام متحدہ میں کچ اس طرح سے بیان کیا تھا کہ ”کشمیر کبھی انڈیا کا اٹوٹ انگ نہیں رہا یہ ہمیشہ سے پاکستان کا اٹوٹ انگ رہا ہے،یہ سکیورٹی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ جارح کون ہے اور جارحیت کس پر ہو رہی ہے“اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ہم کشمیر کے لئے ایک ہزار سال تک لڑیں گے“۔

اگرمسئلہ کشمیر کی حالیہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے پاکستان کی موجودہ حکومت اس مسئلہ کو عالمی سطح پر پیش کرنے کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکی ہے،عالمی منظرنامہ اب مسئلہ کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ سمجھنے کے لئے تیار ہے اور پھر باوجودیکہ کہ انڈیا مسلسل اپنی افواج کی تعیناتی اور نفری بڑھانے پر تلا ہوا ہے ،اور ظالمانہ کرفیو کے نفاذ کو بھی چار دہائیوں سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے،ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سفارتی جارحانہ پالیسی اپنا کر دنیا،پاکستان اور کشمیریوں کو ثابت کردیا کہ اب اس مسئلہ کا حل ہونا چاہئے۔

وزیر اعظم نے تو اپنے آپ کو کشمیر کی آواز اور سفیرِکشمیر کا خطاب بھی دے رکھا ہے اور وہ اس خطاب کا حق ادا کرنے کے لئے 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی فرمانے کے لئے جا رہے ہیں،اس سے قبل عمران خان سعودی ولی عہد سے ملتے ہوئے امریکہ جا کر صدر ٹرمپ سے سائیڈلائن ملاقاتیں بھی کریں گے۔اصل سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام،کشمیری اور عالمی طاقتیں اس خطاب سے کیا توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔

کیا مسئلہ کشمیر کو اس سے بھی بہتر انداز میں اقوام متحدہ میں پیش کیا جا سکتا ہے جو عالمی رائے اب تک قائم ہو چکی ہے،کیا عالمی طاقتیں اور دنیا کی بااثر شخصیات عمران خان کی تقریر کے بعد ہندوستان کی مخالفت کے لئے میدان عمل میںآ تے ہوئے کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا اور کرفیو اٹھانے کے لئے ہندوستان پر اپنا اثر استعمال کریں گی،کیا عالم اسلام اس تقریر کے بعد مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دینے کے لئے تیار ہو جائے گا،کیا عالمی طاقتیں اس سیشن کے بعد مودی کو اس بات پر مجبور کرپائیں گی کہ کشمیر سے کرفیو اٹھا لیا جائے،کشمیر کیا نجات حاصل کر پائے گا؟یہ وہ تمام توقعات ہیں جو کشمیری اور ہم سب عمران خان کے جنرل اسمبلی کے خطاب سے لگائے بیٹھے ہیں ،جو میرے خیال میں خواہشات و توقعات کے ہمالہ کو چھو رہے ہیں۔

ہم نے توقعات حد سے زیادہ لگا لی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔خدا کرے کہ عمران خان کشمیر کی آواز بن کر کشمیر کی آواز کو ایوانوں تک اس طرح پہنچائے کہ اس مسئلہ کا حل مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :