پیپلز پارٹی کی قیادت پر لگائے گئے الزامات۔چائے کی پیالی میں طوفان کیوں؟

پیر 22 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

پاکستان کی تاریخ میں الزامات لگانے کے لئے سیاستدان ہمیشہ آسان ٹارگٹ ثابت ہوئے ہیں۔الزام تراشی کا یہ سلسلہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ نصف صدی سے زائد کا قصہ ہے۔بعض قوتیں اپنے مخصوص مقاصد کے استعمال کے لیے سیاستدانوں کو نشانہ بنا کر ان کی کردار کشی کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔الزام لگوانے والوں نے تو محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہ بخشا اور ان پر بھی طرح طرح کے الزامات عائد کیے۔

ان کے بعد آنے والا شائد ہی کوئی سیاستدان ہو جو چاندماری کی اس مشق سے بچ سکا ہو۔اس مکروہ دھندے میں سویلین اور غیر سویلین حکومتیں برابر شامل رہی ہیں۔اسلام کے نام پر آنے والا مارشل لا بھی کسی سے کم نہیں رہا۔اور اسلام کے نام پر بننے والے جمہوری اتحاد نے بھی بقدر توفیق اس میں حصہ ڈالا ہے۔

(جاری ہے)

نوبت بایں جا رسید کہ اب تو مردوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔


امریکہ سے منگوائی گئی اس عورت کا قصہ بھی عجیب ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات عروج پرتھے۔عوامی سطح پر امریکی موقف کو پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔اور جو شخص امریکی موقف کی حمایت کرتا اس کو بھی عوامی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس خاتون کو پاکستان میں امریکہ کا سافٹ امیج متعارف کرانے کے لئے لانچ کیاگیا۔

اگرچہ اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔ایسی باتوں کے دستاویزی ثبوت بھی کب ہیں؟۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس خاتون نے چند ہی سالوں میں اپنی کامیاب سفارت کاری (میں اسکو سفارت کاری ہی کہوں گا)کی بدولت پاکستانیوں کے دل میں اپنی جگہ بنا لی۔
سنتھیارچی جب دس سال قبل پاکستان آئی تو اس نے پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کیا۔وہاں کے خوبصورت علاقوں کی تصاویر شیر کیں۔

کبھی یہ سائیکل پر سوار دکھائی دیں اور کبھی کسی ٹرک کے آس پاس فوٹو بنواتی نظر آئی۔شلوار قمیض کو بھی شرف بخشا۔اور بعض اوقات علاقائی لباس بھی زیب تن کیے۔اس کی مسافرت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں یہ 52 مرتبہ پاکستان اور امریکہ کا سفر اختیار کر چکی ہے۔اس کی دسترس کا یہ عالم ہے کہ ایوان صدر سے لے کر عسکری اداروں تک ہر جگہ اس کی تصاویر اس کے با اثر ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔

اسلام آباد کے ایک مہنگے اور پوسٹر میں رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ایک کالم نگار کے مطابق کچھ عرصہ ان کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہمسائیگی کا شرف بھی حاصل رہا۔ابھی تک یہ معمہ حل طلب ہے کہ پاکستان میں اس کی سرپرستی کون کر رہا ہے۔جو لوگ اس کو پاکستان لائے تھے اور جو اس کے ساتھ ذاتی تعلقات کے دعوے دار تھے وہ آج کی وفاقی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔

اتنی معلومات دینے کے بعد راوی خاموش ہے لیکن کیمرے کی آنکھ بند نہیں ہے۔ان کا کیمرا ہمیں بتا رہا ہے کہ ایوان صدر،وزیراعظم ہاؤس،وزرا دفاترکے دروازے اس کیلیے کھلے ہیں۔ سرکاری افسران، بڑے کاروباری اداروں کے سربراہانِ اس کے ساتھ ایک تصویر بنوانے کی خواہش میں بے تاب نظر آتے ہیں۔
سنتھیارچی جب پاکستان آئیں تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی۔

اور آج پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت ہی اس کے الزامات کے نشانے پر ہے۔اس وقت ایک وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی،تب کے وزیر داخلہ رحمان ملک،اور اس وقت کے وزیر صحت مخدوم شہاب الدین اس کے الزامات کا نشانہ بنے۔یہاں تک کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اس کی زد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔اور فوت شدہ شخصیت کے قد کاٹھ کا لحاظ رکھے بغیر ان کے متعلق بھی ایسے کلمات کہے جو کسی طور بھی ان کی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔

الزامات کا یہ سیلاب بلاخیز عمران خان کے دروازے پر بھی دستک دے رہا ہے۔کیونکہ اس خاتون کے قریبی ساتھی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خاتون نے اسی قسم کے جذبات اور خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے متعلق بھی کیا ہے۔مذکورہ تینوں شخصیات نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور اس کے خلاف عدالت میں جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

جو لوگ ان شخصیات خصو صا سید یوسف رضا گیلانی کو جانتے ہیں وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ وہ انتہائی نفیس اور قابل احترام شخصیت کے مالک ہیں۔ان کے بدترین مخالف بھی ان کی شخصیت پر اس طرح کے گھٹیا الزامات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔مخدوم شہاب الدین کے متعلق بھی یہی کہا جا رہا ہے۔جب کہ رحمن ملک نے اس کو قانونی نوٹس بھی ارسال کر دیا ہے۔ان الزامات کا فیصلہ تو کسی نہ کسی دن ہو ہی جائے گا۔

یا پھر یہ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے پڑے بوسیدہ ہو جائیں گے۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر برقرار رہے گا۔کہ آخر کب تک پاکستان کی سیاسی برادری اسی طرح انتشار کا شکار رہے گی۔کب تک پاکستان کے سیاستدان ان لوگوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔اور کب پاکستان کی خدمت کرنے والے یہ لوگ ہر کچھ عرصے کے بعد الزامات کے بے سروپا حملوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو خاص طور پر ان دنوں میں کیوں نشانہ بنایا گیا۔

ان الزامات کی ٹائمنگ اپنی جگہ پر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ایک طرف ملک میں اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔پیپلز پارٹی کی قیادت بڑے واضح طور پر اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی مخالفت کر رہی ہے۔مسلم لیگ نون حسب سابق غیر واضح موقف رکھے ہوئے ہیں۔لیکن بلاول بھٹو زرداری متعدد مرتبہ اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی۔

اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کو دباؤ میں لانے کے لیے اس طرح کی گھٹیا مہم شروع کی جائے۔اگر اس خدشہ میں ایک فیصد بھی سچائی ہو تو اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے الزامات کا سہارا لیا جائے۔     
الزامات کے اس سلسلہ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار انتہائی افسوسناک رہا۔

میڈیا چینلز نے محض ریٹنگ کے حصول کے لیے اس کے انٹرویوز کیے۔کئی خصوصی پروگرام کیے۔اور اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیا کہ وہ اپنے ملک کے سیاست دانوں کی درگت ایک غیر ملکی خاتون کے ذریعے بنوا رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ امریکی حکومت کو بھی اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ اس کی ایک شہری کے ذریعے پاکستان امریکہ تعلقات میں کس حد تک رخنہ پڑ سکتا ہے۔

جب کہ ریاستی اداروں کو بھی اس حقیقت کی طرف توجہ کرنا ہوگی کہ اس طرح کی مہم جوئی کرنے والے عناصر کو لگام دی جائے بلکہ مشکوک کردار کے حامل غیرملکیوں کو ان کے زیر انتظام علاقوں میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اس مضمون کے آخر میں،میں سیاسی برادری سے یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ وطن عزیز کے ہر طبقہ میں اتفاق اور اتحاد موجود ہیں۔یہاں تک کہ رکشہ ڈرائیور بھی مشترکہ مفادات کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے احباب اس طرح کے مسائل پر بھی یکجان نظر نہیں آتے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں۔اپنے لیے ایک ضابطہ اخلاق کا تعین کریں۔ذاتی الزام تراشی سے گریز کریں۔کوئی ایسا فورم تشکیل دیں کہ جہاں پر اس طرح کے ذاتی الزامات کی تحقیق کی جا سکے۔اور اگر کوئی شخص جھوٹا الزام لگائے اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جائے تو اس کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔اگر ملک کی نوجوان نسل کو سیاستدانوں سے برگشتہ کرنے اور ان سے بدظن کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمارا ملک محفوظ ہاتھوں میں نہیں رہے گا۔

میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ پاکستان کے سیاستدان ان برے ترین حالات میں بھی دیگر طبقات سے بہتر ہیں۔ان کے خیالات اور رویوں میں لچک ملک کو چلانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔باشعور طبقات کو بیک آواز ہو کر ایسے گمراہ کن عناصر کے خلاف صف بندی کرنا ہوگی جوان کے اجلے کپڑوں پر سیاہی پھینکنے کی کوشش کریں۔کوئی شخص بھی خطاؤں سے پاک نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہر شخص کے گناہوں کے کپڑوں کو بیچ چوراہے میں لا کر دھویا جائے۔سیاسی مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کیا جائے۔غیر سیاسی طریقوں سے دباؤ میں لانے کی کوششوں کو ترک کرنے میں ہی عافیت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :