تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پنجاب اسمبلی کا تاریخی کردار

منگل 23 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

عقیدہ ختم نبوت ایک ایسا متفق علیہ قانون اور عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر کا کامل اتفاق ہے۔مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ نبوت کے بعد امت مسلمہ نے جس طرح اس کی گرفت کی اور علماء نے جس طرح اس کا تعاقب کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا جو اس نے مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے لگایا تھا۔

لیکن اس کا یہ وار اس لیے ناکام گیا کہ بلاتفریق مسلک علمائے کرام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور انہوں نے ہر محاذ پر اس کو شکست فاش دی 1953 کی تحریک ختم نبوت میں حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔کئی دیگر علمائے کرام بھی پابند سلاسل رہے۔1974 کی تحریک ختم نبوت میں علماء اور عوام نے مل کر ایسا کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

(جاری ہے)

۔1974 کی تحریک ختم نبوت میں شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی،مفتی محمود احمد رضوی،ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری،مولانا منظور احمد چنیوٹی،مولانا اللہ وسایا،شورش کاشمیری،چوہدری ظہور الٰہی جیسے اکابر علماء صف اول میں شامل تھے۔ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لیے علماء و مشائخ اور عوام نے اپنے جان و مال کی قربانی پیش کی۔ایوانوں سے باہر پاکستان کے گلی کوچوں میں ختم نبوت کے شیدائیوں نے اپنے خون سے وطن عزیز کی گلیوں کو رنگ دیا۔

۔عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے صرف علما ہی میدان میں نہیں تھے بلکہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اور ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد نے اپنے اپنے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔ جس طبقے کو جو کردار سونپا گیا تھا وہ انہوں نے بخوبی سرانجام دیا۔ملک کے اہل قلم نے قلم کے ذریعے اس کا تعاقب کیا۔شعراء نے نظمیں کہیں،۔لکھاریوں نے کتب لکھیں۔

عوام نے اپنا جان مال مال اور وقت سب کچھ قربان کیا اسی طرح ملک کے سیاست دانوں نے بھی اس نے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو تاریخی طور پر غلط نہ ہوگا کہ قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ملک کے سیاستدانوں نے ہی ٹھونکی اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ان کو کافر قرار دے کر تاریخ میں اپنا نام محفوظ کروا دیا۔

یوں تو ان خوش بخت سیاستدانوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس وقت قومی اسمبلی میں جن لوگوں نے اس مسئلہ میں را ہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ان میں مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا مفتی محمود،خان عبدالولی خان،چوہدری ظہور الہی،پروفیسر غفور احمد،نمایاں تھیجبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انہوں نے اپنے دستخط سے اس ترمیم کو دستور پاکستان کا حصہ بنایا۔


ایں سعادت بزور بازو نیست
قادیانی لابی کے اثر کو محسوس کرتے ہوے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ میں نے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کیے ہیں۔پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے بعد قادیانیوں کی سرگرمیوں پر قانونی طور پر پابندی عائد کی گئی۔انہوں نے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں جا کر اپنا موقف بیان کیا۔

جس طرح قومی اسمبلی میں قادیانیوں کا موقف بڑے تحمل کے ساتھ سنا گیا تھا اور قادیانیوں نے کء دن تک مسلسل اپنے عقائد بیان کیے تھے اسی طرح پاکستان کی ہر سطح کی عدالتوں میں ان کے وکلا نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا۔پاکستان ہر عدالت نے ان کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں بنائے گئے قانون کی توثیق کی اور جو پابندیاں ان پر لاگو کی گئی تھیں ان کو بحال رکھا۔


پاکستان سے مایوس ہونے کے بعد قادیانیوں نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کوبدنام کرنے کی کوشش شروع کی۔ان کی اس کوشش کو ناکام بنانے کا سہرا بھی ہمارے بزرگوں کے سر رہا۔جنیوا میں ہونے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری جو اس وقت سپریم کورٹ کے جج بھی تھے وہ جنیوا شریف لے گئے اور اس بین الاقوامی فورم پر قادیانیوں کے جھوٹ کا پول کھولا۔

ان کے موقف کو جھوٹا ثابت کیا۔ان کو غیر مسلم قرار دینے کی منتطقی وجوہات پیش کیں اور پاکستان کے موقف کو فتح سے ہمکنار کیا۔ ویسے۔سارے عمل کی تفصیل قبل ازیں ہم الگ کالم میں بیان کر چکے ہیں جو روزنامہ نوائے وقت میں ہی شائع ہوا تھا۔مختلف ادوار میں قادیانیوں نے اپنی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا لیکن عوامی سطح پر ان کو کبھی پذیرائی نہیں ملی۔

ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ملک کے کئی کلیدی عہدوں پر ان کے حمایت یافتہ افراد پہنچے اور قادیانیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی قادیانیوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی تو مسلمانان پاکستان نے جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔
2018 کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کی سرگرمیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا۔

۔یہ تاثر پایا جانے لگا فیصلہ ساز اداروں میں ان کا اثر نفوذ بڑھ رہا ہے۔اور اہم عہدوں پر قادیانیوں کی تعیناتی کی جارہی ہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی واضح موقف نہ آنے کے باعث شبہات کی فضا مزید گہری ہو گئی۔ان حالات میں اقلیتی کمیشن کا معاملہ اٹھا۔اور بڑی چابکدستی سے قادیانیوں کو اس کمیشن کا رکن بنانے کی کوشش کی گئی۔خبروں کے بروقت لیگ ہوجانے کے باعث بے پناہ عوامی رد عمل سامنے آیا اس کی وجہ سے اس لابی کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔

لیکن شکوک و شبہات کی فضا قائم رہی۔وفاقی وزیر مذہبی امور کی باربار وضاحت کے بعد ایک گونہ اطمینان نصیب ہوا۔وزیر اعظم پاکستان نے بھی اپنے ایک پیغام میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ختم نبوت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور کسی ایسی سرگرمی کی پشت پناہی نہیں کی جائے گی جو قادیانیت کی تقویت دینے کا باعث بنے۔
موجودہ حکومت کی سیاسی ہیئت ترکیبی میں مسلم لیگ ق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

پنجاب میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے تجربہ کار سیاستدان چوہدری پرویز الہٰی بطور سپیکر پنجاب اسمبلی کام کر رہے ہیں۔قانون ختم نبوت کے ساتھ ساتھ چوھدری ظہورالہی فیملی کا ایک خاص تعلق بھی ہے۔چنانچہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے تمام سیاستدانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہی نے ایک اہم قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

یقینا اس فیصلے میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی مکمل رضامندی اور تائید شامل تھی۔ 2020 میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پنجاب کی حکومت کے وزیر اور چوہدری برادران کے قریبی ساتھی حافظ عمار یاسر نے یہ سعادت حاصل کی اور انہوں نے حضور خاتم النبیین کی عظمت و شان کے تحفظ کے لیے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔قرارداد پیش کرنے سے پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر ہماری جان بھی قربان ہے۔جب تک قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے تب تک ان کو اقلیت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔پنجاب کے وزیر معدنیات کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے،اے مسلمانو،حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسول ہیں۔

اور خاتم النبیین ہیں۔قرآن میں واضح طور پر بیان ہوگیا کہ نبوت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے۔اب کسی اور نبوت کے اجراء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں جامع ترمذی اور سنن ابی داود میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک اور روایت بھی بیان کی گئی جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امت میں سے 30 افراد ایسے اٹھیں گے جو کذاب یعنی جھوٹے ہوں گے ان میں سے ہر شخص اپنے بارے میں یہ گمان کرتا ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

قرار داد میں مزید کہا گیا گیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کا پہلو اس اعتبار سے کہ نبوت آپ پر کامل ہو گئی ہے رسالت کی آپ پر تکمیل ہوگئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں خاص طور پر تکمیل اکمل جیسے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے۔قرارداد میں وفاقی کابینہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ایوان وفاقی کابینہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے قادیانیوں کو اس بنا پر اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا۔

قادیانی نہ آئین پاکستان کو مانتے ہیں نہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں۔یہ ایوان اعادہ کرتا ہے کہ آئے روز ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔کبھی حج فارم میں تبدیلی کر دی جاتی ہے کبھی کتب میں سے خاتم النبیین کا لفظ نکال دیا جاتا ہے لیکن آج تک ان سازشیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن ہمیں تحفظ ناموس رسالت کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔یہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے۔یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
قرار داد میں مزید کہا گیا کہ جو لوگ ان سازشوں میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔۔اقلیتی کمیشن میں ہندو سکھ اور مسیحی بیٹھے ہیں، ہم نے کبھی ان پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے۔

ہم اقلیتوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ اگر قادیانیوں کا سربراہ یہ لکھ کر بھیج دے کہ وہ آئین پاکستان کو مانتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں ان کے کمشن میں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔قرارداد کے متن میں مزید کہا گیا کہ ختم نبوت کا معاملہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔

تحفظ ختم نبوت،تحفظ ناموس رسالت،تحفظ ناموس اصحاب رسول،تحفظ ناموس اہل بیت اطہار،اور تحفظ ناموس امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی چیز نہیں۔اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے۔۔
یہ قرارداد موجودہ پنجاب حکومت اور پنجاب اسمبلی کے ماتھے کا جھومر ہے۔اس کی منظوری پر پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان عثمان بزدار اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں۔

یہ وہ سعادت ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی کامرانی کا باعث بنے گی۔۔اس سارے عمل کے پس منظر میں میرے دوست، چوہدری راسخ الہی کا بھر پور کردار رہا۔جن کا دل محبت رسول کے جزبے سے معمور ہے۔انکے خاموش لیکن موثر کردار نے اس قرارداد کی تیاری اور منظوری میں بنیادی کردار ادا کیا۔عثمان بزدار کی حکومت بجا طور پر اس کارنامہ پر فخر کر سکے گی۔

سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک پرعزم،جہاندیدہ سیاستدان ہیں بلکہ وہ اپنے سینے میں محبت رسول سے بھرپور ایک دل بھی رکھتے ہیں۔ان دنوں ان کے بیانات اور تقاریر ان کے درد دل کی نشاندہی کرتے ہیں۔گستاخانہ مواد پر مبنی کتب کی پابندی بھی چوہدری پرویز الہی اور پنجاب حکومت کا اہم کارنامہ ہے.پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیرمین راے منظور ناصر راسخ العقیدہ مسلمان اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔

انکی موجودگی بھی موجودہ نظام کیلیے خوش آئند ہے۔بے یقینی،مایوسی،نالائقی،بے حکمتی کہ اس ماحول میں صوبہ پنجاب کی طرف سے یہ اقدامات ٹھندی ہوا کی مانند ہیں۔پنجاب حکومت اور پنجاب اسمبلی کے یہ اقدامات تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ایسے ہی اقدامات مرکز میں بھی ہونے چاہیں۔اسی نوعیت کی قرارداد سندھ اسمبلی سے بھی منظور ہوی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔یہ اقدامات عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :