روس پاکستان تعلقات

پیر 27 جولائی 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

ملکی سیاست ہو یا بین الاقوامی سیاست کا میدان،اس میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔کل کے دوست آج کے دشمن، آج کے دوست آنے والے کل میں دشمن ثابت ہو سکتے ہیں۔اس کی سب سے بہترین مثال پاک روس تعلقات پر صادق آتی ہے۔ماضی قریب اور بعید میں ایک دوسرے کے مخالف سمجھے جانے والے ممالک میں ان دنوں قرتیں زوروں پر ہیں۔بعض مبصرین تو اسکی فوری وجہ عمران خان اور صدر پیوٹن کی گرمجوش ملاقاتوں کو قرار دے رہے ہیں۔

یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور حقائق بھی موجود ہیں ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔پاکستان اور روس عالمی اور علاقائی سیاست کے دو اہم کھلاڑی ہیں۔پاکستان میں اپنے ابتدا میں اپنی خارجہ پالیسی کا رخ روس کے بجائے امریکہ کی طرح رکھا۔

(جاری ہے)

جب کہ ابتدا ہی سے اپنی خودمختاری کے حوالے سے ہمسایہ ممالک کے مختلف حملوں کا شکار رہا۔

ہمسایوں کی ان سازشوں نے پاکستان کو مختلف عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں کے الحاق کی طرف سے دھکیل دیا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی میز پر روس اور امریکہ دونوں کی طرف سے دورے کے دعوت نامہ موجود تھے۔پاکستان میں اس وقت روس کے بجائے امریکہ کے دورے کا انتخاب کرکے خود کو امریکہ کے پلڑے میں ڈال دیا۔اور قدرتی طور پر روس سے دوری اختیار کر لی۔

سرد جنگ کے دنوں میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔اور آخرکار افغان جنگ کے موقع پر روس پاکستان کے مابین تعلقات کا باب ایک وقت میں بند ہوگیا۔دہشتگردی کیخلاف جنگ میں میں ایک بنیادی اور قائدانہ کردار ادا کرنے کے باوجود امریکہ سمیت عالمی طاقتیں ہمیشہ پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہی۔اس وجہ نے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی سازوں کو روس کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔

افغان جنگ کے بعد افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد روس کے مختلف ٹکڑے ہوگئے۔لیکن ٹکڑوں میں بٹا روس ایک مرتبہ پھر اپنی طاقت کو مجتمع کر کے دنیا کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔روس کے ایک نئے چہرے کو دنیا کے سامنے لانے میں امریکی صدر پیوٹن کا بنیادی کہتا ہے۔بدلتی جغرافیائی سیاست،دفاعی، معاشی حالات اور بڑھتے ہوئے علاقائی خطرات نے پاکستان اور روس کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ دکھائی ہے۔

دونوں ممالک کے مقتدر اور منظم اداروں نے دفاع،تجارت،سرمایہ کاری، معیشت، سائنس،ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم،اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کی راہ ہموار کی ہے۔۔دوسری طرف روس کی طرف سے متوازن خارجہ پالیسی نے پاکستان اور روس کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔افغانستان میں عالمی طاقتوں کی ناکامی اور پھر اس کا الزام پاکستان جیسے ہمسایوں پر لگانے،چین کا معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا اور پورے خطے میں انفراسٹرکچر کا جال بچھانا،شام،یمن،فلسطین، اور کشمیر میں متوازن خارجہ پالیسی نے دونوں ممالک کے مابین سرد جنگ میں پڑنے والی برف کو کافی حد تک پگھلا دیا ہے۔

پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کی نی جہت اس وقت شروع ہوئی جب 2014 میں دفاعی معاہدے کا سنگ میل طے کیا گیا۔اور روسی وزیر دفاع نے 45 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا۔2015 میں دونوں حکومتوں کے مابین تقریباً 2 بلین ڈالر کا شمال جنوب گیس پائپ لائن پراجیکٹ معاہدے پر دستخط ہوئے۔۔جس کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ستمبر 2016میں روس کی اسپیشل فورسزاور پاکستان کی سپیشل فورسز کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا۔

اور اس مقصد کے لئے وہ خصوصی طور پر پاکستان آئے۔2017 میں روس اور چین کے تعاون سے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت ملی۔اور دونوں ممالک کے درمیان علاقائی سکیورٹی، دفاعی اور معاشی تعاون کیلئے نئی راہیں کھولنے پر اتفاق ہوا۔پاکستان اور روس کی دونوں حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بین الاقوامی منصوبوں مثلا پاکستان چین معاشی راہداری (سی پیک)،وسطی ایشیائی علاقائی معاشی تعاون،اور دیگر منصوبوں پر یکساں موقف رکھنا پاکستان اور روس کے لیے کارآمد اور مفید ہے۔

دنیا کے نقشے پر پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ سرد مہری کی برف پگھلتے ہی روس نے پاکستان کی طرف رجوع کرنے میں دیر نہیں لگائی۔بین الاقوامی نوشہ پر پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس طرح بھی ہے کہ روس اور،وسطی ایسی ریاستوں،افریقہ اور ایشیا کو ملانے کا قدرتی راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں استحکام،روس بھارت تعلقات،چین کے معاشی انقلاب،ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ،اور اس نوعیت کے کئی دیگر منصوبوں پر پاکستان اور روس نے اپنے باہمی تعلقات کو دوبارہ سے دیکھنے اور ان کو بہتر بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔

پاکستان اور روس کی حالیہ قربت مستقبل کے لئے دونوں ممالک کے لئے نئی منزلوں کا تعین کرنے میں مدد دے گی۔تاکہ علاقائیتعاون کو مزید مستحکم بنایا جائے۔اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک مختلف بین الاقوامی فورم کے ساتھ علاقای فورم جیسا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو استعمال کر رہے ہیں۔
پاک روس تعلقات کے ضمن میں ماضی بعید کی تاریخ تلخیوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان تلخیوں سے بھری تاریخ میں بھی بعض ایسے لمحات دیکھنے کو ملے ہیں جب دونوں ممالک کے تعلقات کافی بہتر تھے۔

1965 سے 1970 کے دورانیہ میں پاکستان اور سویت یونین کے درمیان 1965 میں پہلے باہمی ثقافتی معاہدے پر دستخط ہوئے۔۔پاکستان اور سویت یونین نے پاکستان اسٹیل مل کا افتتاح کیا جو کسی سنگ میل سے کم نہ تھا۔لیکن مجموعی تعلقات کشیدہ ہی رہے۔
روس کو ایک دوبارہ عالمی طاقت طور پر کھڑا کرنے میں موجودہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا بنیادی کردار ہے۔روس کے صدارتی انتخابات میں صدر پیوٹن کو 2024 تک ایک مرتبہ پھر صدر منتخب کرلیا گیا ہے۔

اس طرح وہ رواں صدی کے ایک چوتھائی عرصہ تک اقتدار میں رہیں گے۔۔صدر پیوٹن روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ان کی شخصیت کا بھی ایک ایسا تاثر قائم ہو چکا ہے کہ وہ ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔ روس کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور بین الاقوامی معاملات میں دوبارہ قائدانہ کردار حاصل کرن میں بھی بنیادی کردار پیوٹن نے ادا کیا ہے۔

صدر پیوٹن کی کرشماتی شخصیت نے روس کو ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی طاقت کے طور پر تسلیم کروایا ہے۔وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت متعدد عالمی راہنماؤں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی انٹیلیجنس صلاحیتیں اندرونی و بیرونی ملک ان کے مخالفین کے خلاف کام آئے گی۔اور آئندہ دنیا میں یقینا متعدد نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہوئے وہ ان صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں گے۔

صدر پیوٹن نے 1975 میں انٹیلیجنس آپریٹر کے طور پر اپنا کریئر کا آغاز
کیا۔1990 تک 17 سال مسلسل اس عہدے پر قائم رہے۔1994 میں وہ اناطولی سوپچوک کے ڈپٹی میئر بنے۔1996 میں میئر شپ ختم ہونے کے بعد وہ ماسکو چلے گئے جہاں انہیں سکیورٹی امور کا سربراہ مقرر کردیا گیا جہاں پر انہوں نیروس کی تین سکیورٹی ایجنسیوں کی سربراہی کی۔سن 2000 میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اس وقت کے روسی صدر بورس یلسن نے پیوٹن کو نگران صدر بنا دیا۔

۔اور یہیں سے ان کے عروج کا سفر شروع ہوا۔صدر پیوٹن نے اپنے ملک کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔افغان جنگ کے دوران سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جو نقصان ہوا اس کا مشاہدہ بھی انھوں نے اپنی آنکھوں سے کیا۔صدر پیوٹن اور روس کے ان مدبر رہنماؤں سے میں سے ایک تھے جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے غم کا دل پر لیا اور اس کے اصل مقام اور وقار کو واپس لانے کے لیے سوچ بچار میں مصروف رہتے۔

صدر پیوٹن کی قیادت میں اب روس اور روسی قوم سو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے غم سے باہر نکل چکی ہے۔ بلکہ اس نے امریکہ کے ساتھ عراق اور شام میں مختلف کارروائیوں کے ذریعے ایک حد تک اپنا حساب بے باک بھی کر دیا ہے۔مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد صدر پیوٹن اس وقت ایک عالمی مدبر بن چکے ہیں۔وہ مخالفین کے ساتھ معاملات بھی حل کرنے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہیں۔

اپنے ملک کے اندر مختلف مافیا سے نمٹنے کے لیے انھوں نے حیران کن صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام اداروں کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔اور جب وقت کو انہوں نے سازگار دیکھا تو تمام مافیاز کو اہنی ہاتھوں سے نمٹا۔۔اس خطے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ بیوٹن موجودہ دور کے ایک بڑے سیاسی مدبر کے طور پر یہاں موجود ہیں۔وہ نہ صرف اپنے عوام کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ علاقائی سیاست پر اور مختلف ممالک کی اندرونی سیاست پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔

صدر پیوٹن نے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ رویہ کا بخوبی مطالعہ کیا۔ٹرمپ انتظامیہ کے رویے سے صدر پیوٹن نے اخز کیا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نی جہت عطا کی جاے۔اس سے پہلے 16 اکتوبر 2015 کو کو دو ارب ڈالر کی گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر کا معاہدہ ہو چکا تھا۔دونوں ممالک کی افواج کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کے رجحان کو فروغ دیا۔

روس نے فروری 2017 میں پاک بحریہ کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی مشق امن 17 نامی بحری مشقوں میں بھی شرکت کی۔3 جولائی 2017 کو روسی کمپنی گاز پروم انٹر نیشنل اور پاکستانی کمپنی او جی ڈی سی ایل کے مابین ماسکو میں باہمی تعاون ترقی کے مشترکہ منصوبوں کی تکمیل،تیل کی تلاش کے لیے اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق ایک ایم او یو پر دستخط ہوئے،روسی پالیسی میں یہ اہم تبدیلی صدر پیوٹن کے دور میں ہوئی۔

بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار کے طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ مستقبل میں روس پاکستان کے ساتھ مزید تعلقات بڑھائے گا۔اگر امریکہ کی جارحانہ اور پاکستان مخالف پالیسیاں جاری رہی تو میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ مستقبل میں روس چین اور پاکستان پر مشتمل ایک نیا ایٹمی بلاک وجود میں اے۔اور میرا خیال ہے کہ پاکستان بھی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانے کے مواقع ضائع نہیں کرے گا۔

مختلف عالمی اجلاسوں کے موقع پر روسی صدر پیوٹن اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے درمیان قربتوں نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے۔شنگھائی میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان اور روس کے سربراہان کی مشترکہ نشستوں نے عالمی تجزیہ کاروں کو چونکا دیا ہے۔بھارت جو کہ روس کا پرانا حلیف رہا ہے،اس کی طرف سے سرد مہری اور پاکستان کی
طرف گرم جوشی نے آنے والے بین الاقوامی منظرنامے کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔


گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان نے نے روسی خبررساں ایجنسی سپونتک کو انٹر ویو دیتے ہوے کہا تھا کہ روس اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ 50,60 اور 70 کی دہائیوں میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا،لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اب ہم روس کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کر چکے ہیں اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

روسی ہتھیار خریدنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ تناؤ میں کمی چاہتے ہیں تاکہ ہمیں ہتھیار نہ خریدنے پڑیں۔ہم اپنا پیسہ انسانی فلاح پر لگانا چاہتے ہیں تاہم اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان آرمی اس وقت روسی فوج سے مسلسل رابطے میں ہے۔اور عمران خان بھی دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ روس سے توانائی تجارت کے معاملے میں تعاون کے خواہاں ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان اور بھارت کا سب سے بڑا اختلاف کشمیر پر ہے۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر روسی صدر پیوٹن اپنی شخصیت کو استعمال کرتے ہوئے ہوئے وزیر اعظم مودی کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں تو مسلہ کشمیر حل ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ کے لیے بھی ویزہ قوانین میں نرمی کی ہے اور روس بھی دنیا کے ان 70 میں شامل ہیں جن کو ایئرپورٹ پر ویزا لینے کی سہولت میسر ہے۔

اس وقت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ روس کے ساتھ قریبی تعلقات کی خواہاں ہے۔جب کہ برسراقتدار سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اسی پیج پر ہیں۔پاکستان اور فوج کے فیصلہ سازوں نے محسوس کرلیا ہے کہ اب دنیا وہ نہیں جو ماضی میں تھی۔۔ دنیا میں طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں یا طاقت کے نئے مختلف مراکز تشکیل پارہے ہیں۔

اس لیے نئے ورلڈ آرڈر میں روس کے ساتھ بہترین تعلقات ہی پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں۔وزیراعظم عمران خان اور روسی صدر کے درمیان غیر رسمی ملاقاتوں اور بے تکلف گفتگو سییہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ آنے والے زمانہ میں روس پاکستان بہترین دوست کی حیثیت سے سامنے آئیں گے۔سفارتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان جلد روس کا دورہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اور وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے اپنے تعلقات کو ایک نیا رخ دینے کے خواہشمند ہیں۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان میں میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے جس کے خاتمہ کے لیے ہتھیاروں کے بجائے انسانوں پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ چین نے کیا ہے۔انسانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے لیے صدر پیوٹن اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان خیالات میں ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے۔


 لگتا کچھ یوں ہے کہ بین الاقوامی منظر نامے پر دوست اور دشمن تبدیل ہو رہے ہیں۔دہشت گردی کا ڈسا ہوا پاکستان مشرق وسطیٰ میں کسی نئے تنازعے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔مغربی امداد کی کڑی شرائط نے پاکستان کو دوسری طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔امریکا سے دو طرفہ تعلقات کی پائداری پر پاکستان اور امریکا دونوں کو بھروسہ نہیں مگر افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ان حالات میں چین اور روس نے ایک دوسرے کی معاشی اور عسکری طاقت کو دیکھتے ہوئے اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا بعید از قیاس نہیں رہا۔

چین کو مشرق وسطٰی کے تیل اور اپنی اشیاء کی ترسیل کے لئے مختصر زمینی راستہ درکار ہے۔روسی کمپنیوں کو وسطی ایشیائی ریاستوں کے معدنی ذخائر کی برآمدگی اور تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کے لیے سرمایہ کاری کیلئے تازہ منڈیوں اور مواقع کی تلاش ہے۔اور ان دونوں ممالک کے مفادات کی تکمیل کا واحد ذریعہ پاکستان ہے۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مستقبل کے منظر نامے پر پاکستان چین اور روس ایک دوسرے کی بانہوں میں باہیں ڈال کر کھڑے نظر آئیں گے
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :