پرواز نمبر LY 971 اور عرب اسرائیل تعلقات!!!

منگل 1 ستمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

پرواز نمبرL Y971 تل ابیب سے ابو ظہبی پہنچ گئی 972 بھی واپس ھو رھی ھے، اس سے عرب اسرائیل تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم ھو رھی ھے، پرواز کے ذریعے امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن اور اسرائیل کی قومی سلامتی کے مشیر اور سربراہ مائر بن شبات بھی ابو ظہبی آئے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد بھی شریک سفر تھے، اگرچیکہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بیک ڈور تعلقات اور رابطے عرصہ سے جاری ہیں ، ٹرمپ انتظامیہ کے دباؤ اور کوششوں نے ونگ شارٹ بھی کھیل لیا، اسرائیل کے قومی سلامتی مشیر نے کہا کہ" ماضی کی بنیادوں پر مستقبل کا تعین ضروری نہیں ہے"ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے مغربی دیوار کے ساتھ۔

کھڑے ہو کر دعا کی کہ ھم ایک خدا کی مخلوق ہیں، مسلمانوں کے ساتھ تعلقات تاریخی نوعیت کے ھوں گے، اس پرواز کو بھی تاریخی قرار دیا گیا، جو عرب اور اسرائیل کے درمیان پہلی پرواز تھی، یہ اسی معاہدے کا نتیجہ ہے جو 13اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ھوا تھا اور امریکی صدر نے اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا اور باقی عرب ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ بھی جلد اس میں شامل ھوں خاص کر وہ ممالک جو مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے عمل دخل سے پریشان ھیں، امریکی اور اسرائیلی مشیروں نے کہا کہ جلد اومان، بحرین اور سوڈان بھی اس میں شامل ھوں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عرب ممالک کی ناکامی ھے یا اسرائیل کی فتح، وہ فلسطین، بیت المقدس اور ازلی دشمنی کا کیا ھوا، ھاں یہ بات درست ہے کہ قومی ریاستوں کو ماضی کی بنیاد پر مسقبل کی دیواریں نہیں کھڑی کرنی چاہیے، انسان کی ضرورت اور ارتقاء سوچ کا حصہ بننا چاہیے لیکن اس سال سے لڑا جانے والا فلسطین کا معرکہ ایک دم ٹھنڈا کیسے پڑ گیا؟ عربوں کو اسرائیل کی ضرورت ہے یا ٹرمپ نے الیکشن جیتنے ہیں اس فیصلے سے ٹرمپ کی مقبولیت میں یک دم اضافہ ھو گیا، اربن ریاستوں میں اس کی پوزیشن مستحکم ہو گئی، امریکی عوام کو ایسے ہی صدر کی ضرورت ہے جو نسلی امتیاز پر یقین رکھتا ہو، دنیا میں اب۔

(جاری ہے)

یہی تو ھورہا ھے، بالکل ایسے ہی پٹرن پر انڈیا چل رہا ہے اور کشمیر میں زبردستی ابادی کاری کا سلسلہ جاری ہے لاکھوں فلسطینی تباھی کی نذر ہو گئے، یہودی بستیاں آباد ھو گئیں، مگر عرب ممالک کی  کوئی جاندار فیصلہ نہیں کر سکے ذرا سوچیں در بدر رہنے والے یہودی جب کچھ کنال زمین خرید رہے تھے تو سلطنت عثمانیہ کیوں ڈھیر ھو گئی تھی، امریکہ اور کینیڈا، برطانیہ، بیلجیم میں پرتشدد مظاہرے اور تاریخی مجسموں کو گرانے والے سوچیں کہ جب اقغان طالبان نے بامیان میں بدھا کے مجسمے گرائے تھے ان کو برا بھلا کہا جا رہا تھا اب ان کو ایسی صورتحال کا سامنا ھے تو کیا کہیں گے، نسل پرستی کا نیا رحجان ، کورونا کا مسلسل خطرہ اور ٹرمپ کا کالے امریکیوں پر فقرے کسنا کسی انتہا پسندی کی طرف نہ دھکیل دے، مذھب نسل، علاقہ اور گروہ اب ہر جگہ بننا شروع ھو گئے ھیں تو کیا عرب اسرائیل تعلقات سے عوام کے اندر شدت پسندی کے خطرات نہیں ھوں گے پہلے ہی سعودی عرب کو یمن حوثیوں سے کتنا خطرہ ہے، ان ترقی یافتہ ریاستوں میں اگر شدت پسندی کا رجحان بڑھا تو کیسے قابو کیا جائے گا، فلسطینیوں کا ردعمل کیا ہو گا، یہودی بستیاں کی آبادکاری پر بھی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا کوئی معاہدہ ھوا تھا، جسے جاتے ہی نیتن یاہو نے اٹھا کر پھینک دیا تھا تو کیا اب اس پر عمل ھوگا،؟ ترکی، ایران اور پاکستان کا ردعمل بھی اھم ھے, اس معاہدے اور پرواز نمبر 971 اور 972 کو مستقبل میں بڑے چیلنجوں کا سامنا ھو گا، سب سے بڑا خطرہ ایک نئی شدت پسند اور انتہا پسند تحریک کا ھے, جو کسی وقت بھی تیل کے کنوؤں کو بڑھکتے شعلوں میں تبدیل کر سکتی ہے، مشرق وسطی کا امن پہلے ھی تباہی کا شکار ہے یہ نئی تاریخ کہیں پرانی بھی نہ بلا دے۔

وقت بڑا بے رحم ھے اور فیصلے وقت پر نہ کیے جائیں تو فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :