اتحاد کی سربراہی اور مستقبل...!

منگل 6 اکتوبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

میں حسب عادت صبح خیزی کے لیے پارک میں ھوں ، مدرسے کے بچے بڑی تعداد میں نماز فجر کے بعد پارک کا رخ کرتے ہیں، ویسے تو وہ بہت کچھ جائز اور بہت ھی جائز گفتگو کرتے رہتے ہیں اور کانوں میں آواز پڑتی رہتی ہے، دل افسردہ بھی ھوتا ریتا ھے، اور دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ ان شاھین بچوں کو بال و پر دے، اس دفعہ موضوع گفتگو دلچسپ تھا جس کی کھوج میں ، میں بھی واک کرتا رہا، بچے گفتگو کر رہے تھے مولانا فضل الرحمان صاحب کوکہ انشاللہ اب مولانا فضل الرحمان صاحب اگلے وزیراعظم ھوں گے، گزشتہ دنوں مولانا صاحب کو ہی ڈی ایم کی سربراہی سونپ دی گئی بلکہ متھے مار دی گئی، 2002ء میں تو فضل الرحمان صاحب باقاعدہ وزیراعظم بننے کی لابنگ میں مصروف تھے، امریکن ایمبیسی میں جانا ہو یا مقتدر حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا باقاعدہ منصوبہ بندی ھوتی، ایسے خواب انہوں نے کئی دفعہ دیکھے ھوں گے، گزشتہ دو سال سے وہ گہرائی سے کسی مذھبی ایشو کی تلاش میں تھے کہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کر سکیں، اور اپنی شکست کا بدلہ لے سکیں، بھلا ھوں عمران خان کا کہ اس نے یورپ سے ایشیا اور افریقہ سے مشرق وسطیٰ تک اسلام اور ناموس رسالت پر پہلی دفعہ اور بے باک طریقے سے  ایک پرچم بلند کر دیا، اب مولانا صاحب کے پاس ایشو کوئی نہیں تھا، میاں نواز شریف کے پاس نظریاتی کارکن نہیں تھے اس لئے مولانا فضل الرحمان صاحب کو آگے کردیا تاکہ ملک میں کنفنٹریشن سے سیاسی فائدے حاصل کیے جائیں، مولانا جو خیبرپختونخوا چھن جانے کا شدید دکھ ھے، نواز شریف کو پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت کا خوف ھے، ایک جماعت پیپلز پارٹی کے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں شدید تحفظات ہیں لیکن بقا کی اس جنگ میں سب جماعتیں اپنے نظریات دواو پر لگانے کے لیے تیار ہیں، سو پی ڈی ایم کی قیادت ڈیرہ اور ڈھیر میں منتقل ہو گئی ایک وجہ بڑی صاف ھے کہ مولانا کے مدرسے کے بچے قربانی دیں اور ھم دوڑ کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائیں، کاش ایسے اتحاد جہالت، ناانصافی، غربت، بے روزگاری اور صحت بحران کے خلاف بنیں، مگر صرف سیاست ، کرسی اور نفرت کی بنیاد پر کب تک یہ کھیل ھوتا رہے گا، کچھ لوگ ایوب خان کے خلاف بننے والے پی ڈی ایم سے موزانہ کر رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اب ووٹ کی طاقت نوجوانوں کے ھاتھ میں ھے ان کو معیار سیاست پر جواب دینے سے ہی کہانی آگے چلے گی۔

(جاری ہے)

متحدہ مجلس عمل کے ساتھ جو کچھ ھوا تھا، اس میں بھی وہی ھوگا۔لیکن اب سوالات کے جوابات دینے ھوں گے۔ اتحاد کی سربراہی میں اصل فائدہ اٹھانے والوں میں جنگ ھے، میاں نواز شریف اور مریم نواز آٹھ ماہ تک مبینہ ڈیل کا انتظار کرتے رہے ہیں، ناکامی کی صورت میں اس راہ پر خار پر دوڑنے لگے، لیکن پیپلز پارٹی کے اصل سربراہ جناب آصف علی زرداری کو یقین ھے کہ اس ھنگامے میں احتساب کا عمل رک جائے گا، دوسری طرف حکومت کی کارکردگی اور احتساب کا مستقبل اگرچہ شک و شہبات کا شکار ہے مگر لوگ ابھی بھی عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں، اصلاحات کے لیے بھی تیار ہیں، اس بات پر بھی خصوصاً نوجوان متفق ہیں کہ کیوں ھم موروثی سیاست کا حصہ بنتے رہیں، ھم اس لئے بھی عمران خان کے ساتھ ہیں کہ گذشتہ پینتیس سال سے انہی کو تو ووٹ دیتے رہے ہیں، فوج نہیں یہ نہیں منع کیا تھا کہ جہالت نہ ختم کرو، یہ نہیں کہا کہ صحت کے میدان میں کام نہ کرو، غربت اور محرومی کا خاتمہ نہ کرو، پولیس اور انصاف کے نظام میں اصلاحات نی لاؤ، کسی نے منع نہیں کیا مگر آپ لوگ ڈیلیور نہیں کر سکے جو نہیں ڈیلور کرے گا نوجوان اسے اٹھا کر باہر پھینکنے کے لیے تیار ہیں۔

اتحادوں کی سیاست میں مفادات کا ٹکراؤ اکثر اوقات ھوتا ھے، یہاں بھی ھو گا جوتیوں میں دال بٹے گی، اتحاد عوام کو کس طرح اپنے ساتھ ملانے گا آنے والے وقت میں اندازہ ھو جائے گا۔اتحاد کے اجزائے ترکیبی کو جوڑا جائے مفاد صرف بقا کی جنگ ھے دیکھنا یہ ہے کہ یہ جنگ کون جیتے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :