عرب ممالک، پاکستان اور او آئی سی !

اتوار 29 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

او آئی سی کے قیام کے وقت جو سب سے دلکش اور جاندار پہلو تھے ان میں تین کی اہمیت براہ راست ھر مسلمان فرد سے لے کر مسلم ممالک سے جڑی ہوئی تھی، ان میں سے ایک مسئلہ فلسطین کا حل، دوسرا بڑا پہلو تھا کہ مسلمانوں ممالک کی معاشی  حالت بہتر کرنے کے لیے ",مسلم کامن ویلتھ" قیام عمل میں لایا جائے گا، اور تیسرا اھم پہلو کشمیر کی آزادی اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مل کر آواز بلند کرنا شامل تھا، دیکھا جائے تو یہ تینوں پہلو ابھی تک نہ حل ھوئے اور نہ ہی وہ کوششیں باقی رہییں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک نے پاکستان کی معاشی ، تعلیمی ، صحت، روزگار اور سماجی سطح پر بہت مدد کی، جس کے جواب میں پاکستان نے دفاعی، تعمیری اور تربیتی امور میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ھو یا لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا روزگار ان ممالک سے جڑا ہوا ہے لیکن گزشتہ کئی سال سے یو اے ای اور سعودی عرب سے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، یہ اس حکومت کی بات نہیں ہے بلکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے آنے کے بعد گزشتہ دور حکومت سے شروع ہو چکے تھے، عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو  بہترین تعلقات ایک دم عروج پر پہنچ گئے، معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے عمران خان ، محمد بن سلمان اور یو اے ای حکومت کے درمیان معاہدے ھوئے مخاصمت دوستانہ مراسم میں بدل گئی، سعودی عرب نے چھ ارب بیس کروڑ ڈالر کی امداد دی، جسمیں تین ارب نقد اور تین ارب بیس کروڑ ڈالر تیل اور گیس کی مد میں امداد  تھی شہزاد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ بھی کیا، آئل ریفائنری، سمیت دیگر کئی منصوبوں میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ھوا اور دوستی کے جذبات، قیدیوں کی رہائی، ویز ا اور جج پالیسی میں تبدیلی آئی یہاں تک کہ سعودی عرب کی سی پیک میں بھی دلچسپی بڑھنے لگی، ڈور کس نے کھینچی کہ تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی ایک واقعہ 5 اگست کو پیش آیا جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کرفیو نافذ کر دیا، دوسرا واقعہ جب کوالمپور ملائیشیا میں ترکی، پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان کانفرنس کا انعقاد کا فیصلہ اور پاکستان کی شرکت کی دعوت قبول کرنا شامل تھا، اور تیسرا بڑا واقعہ جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کے  کردار اور مسئلہ کشمیر پر سوال اٹھایا تو حالات یکسر تبدیل ہو گئے، میرے مشاہدے کے نزدیک پاکستان، یو اے ای اور سعودی عرب کے تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ ان وجوہات پر بڑی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے لیکن اصل حقیقت کچھ اور بھی ھے ان میں سے ایک پاکستان کے ایران اور ترکی سے گہرے مراسم اور امریکہ کا سعودی عرب پر دباؤ ھے، عرب اسرائیل بڑھتے ہوئے تعلقات بھی وجہ بن رہے ہیں جس میں امریکہ اور بھارت کا بڑا ہاتھ ہے، سعودی عرب نے تین سال والا معاہدہ ختم کر کے پاکستان سے قرض واپسی، پاکستانی ھنر مندوں کو وطن واپس بھیجنا جیسے دباؤ بھی استعمال کیے، حال ہی میں نائیجر میں ھونے والی او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں پاکستان بھارت کی دھشت گردی کا ایک ڈوئزئر پیش کرنا چاہتا تھا مگر کشمیر کو وزارتی اجلاس کے ایجنڈے میں ہی نہیں رکھا گیا، پاکستانی وزیر خارجہ نے بات ضرور کی لیکن او آئی سی کے ایجنڈے میں کشمیر کا نام تک نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کے متعلق واضح موقف کو بھی پسند نہیں کیا جاتا، حال ہی میں خبر آئی کہ یو اے ای حکومت نے پاکسغ ھنر مندوں اور سیاحتی ویزے پر پابندی عائد کر دی ہے اگرچہ کہ یو اے ای نے گیارہ ممالک پر کورونا کا بہانہ بنا کر پابندی عائد کی تاھم اس میں بھارت شامل نہیں، جہاں کورونا کے  نوے لاکھ مریض موجود ہیں، پابندی بھی ان ممالک پر لگائی گئی جو سعودی عرب کی پالیسیوں کے خلاف بولتے رہے ہیں ان وجوہات کی بنا پر شکوک وشبہات بڑھ رہے ہیں، پاکستان نے سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر واپس کر دیا، تیل کی ترسیل ابھی معطل ہے، دو ارب ڈالر چند میں سعودی عرب کے اور ایک ارب ڈالر یو اے ای کے واپس کرنے ہیں، بھارت سعودی عرب سے سب سے زیادہ تیل خریدنے والا ملک ہے، افرادی قوت کے اعتبار سے بھی بھارت کا دارومدار سعودی عرب اور یو اے ای پر ھے، یہ جنگ، مخاصمت، یا مخالفت مفادات کی ہے، پاکستانی معیشت کے لئے یہ ایک اور بڑا جھٹکا ھے، زرمبادلہ کے ذخائر گر سکتے ہیں لیکن قومیں اسی طرح کھڑی ہوتی ہیں، ھمیں اپنی زراعت، صنعت اور توانائی کی ضرورت کو بہتر بنانا ہو گا معاشی خود مختاری ہے آزاد فیصلوں کی ضمانت ہوتی ہے سعودی عرب سے ھر مسلمان اور خصوصاً پاکستانیوں کا گہرا مذھبی، اور جذباتی رشتہ ہے، سعودی عرب کے بھی بے شمار مفادات پاکستان سے جڑے ہیں، خارجہ پالیسی میں نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ان خطرات، شکوک وشبہات اور تحفظات کو دور کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

عوام کو یہ دیکھنا ھو گا کہ کس طرح یہ ممالک کمرشل مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، کیا او آئی سی جس کے مستقل ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر موجود ہے، بھارت کے خلاف اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گی؟یہ بات تعلقات میں بہتری لا سکتی ہے،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :