ناکردہ گناہوں کی سزا۔۔۔!

پیر 4 جنوری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ملک میں احتساب ہو یا انصاف تاریخ جانبداری اور انتقام سے بھری پڑی ہے، کبھی سیاسی فائدے پیش نظر رہے ، کبھی اقتدار اور اختیار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا جاتا رہا جب کہ ایک وزیراعظم نے تو احتساب کمیشن کو "سیف الرحمن کمیشن" میں بدل کر ایک نئی تاریخ رقم کی، پھر توبہ تائب کرکے  کپڑے جاڑے اور کنارے ہو گئے اس دوران وہ سوئس بینکوں اور سرے محل تلاش کرنے کے لیے اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ کر چکے تھے، کئی باکس بھی تلاش کر کے جلا دئیے گئے، ملک کی قسمت بھی جل گئی، توبہ تائب کے بعد بھی ایک مرتبہ پھر وہ ادھر ہی کھڑے تھے کہ  خود پر مشکل وقت آگیا پارلیمنٹ جس کو وہ کچھ نہیں سمجھتے تھے پچھلے دروازے سے برآمد ہوئے اور پکار پکار کر کہنے لگے، بچاؤ بچاؤ ، بچ گئے تو پارلیمنٹ پھر بھول گئی، عمران خان نے ان سب سے  مختلف سوچ کے تحت اداروں کی آزادی اور اصلاحات کا عمل شروع کیا، مگر سیاسی فریب کو جاننے والوں نے اس کو بھی متنازعہ بنا کر چھوڑا، باوجود اچھی کارکردگی کے نیب یا انصاف کے ادارے اپنی ساکھ کھو رہے ہیں، ماضی کے کچھ ایسے فیصلے  جن کا خمیازہ موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے، آپ ریکوڈک منصوبے کو ہی لے لیں، چلی کی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا، جس سے سونے کی تلاش میں پیتل بھی ھاتھ نہ آیا بلکہ دگنا نقصان ادا کرنا ہے ، افتخار محمد چوہدری صاحب نے بغیر غور وفکر کے منصوبہ بند کروا دیا اور طویل عرصہ عالمی انصاف کے اداروں میں مقدمہ چلتا رہا، موجودہ حکومت پر ان ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر  چار ارب ڈالر سے زائد جرمانہ عائد ہے جس کا مشکل سے حکومت نے حکم امتناعی حاصل کیا ہے، اور جرمانہ معطل کیا گیا، کارکے کمپنی سے پپلیز پارٹی کے دور حکومت میں، رینٹل پاور پراجیکٹ کا معاہدہ ہوا ایک مہنگا معاہدہ، اس پر کمیشن حاصل کیا گیا اور  دوست ملک سے رنجش بھی پیدا ہوئی، نہ معاہدہ کرتے ہوئے کسی نے پوچھا اور نہ کک بیکس پر سر زنش ہوئی ، نیب نے اس کی حقیقت معلوم کر لی تھی ، مکمل انوسٹگیشن ہوئی اور پتہ لگا کہ  اس وقت کے حکومتی نمائندے ، کمپنی اور وزراء کمیشن لینے میں پیش پیش تھے، آخر عمران خان کی کوشش اور طیب اردگان کی دلچسپی نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کے نقصان سے بچایا،  اب لندن ھائی کورٹ میں کیس ھارنے پر پاکستان کی، براڈشیٹ کو 4 ارب، 58 کروڑ روپے کی ادائیگی عمل میں آئی، یہ کیس اگرچہ حقائق پر مبنی تھا لیکن مکمل پیروی نہیں کی گئی لا فرم کو اربوں ادا ھو گئے ملک کی عزت پر حرف آیا، خزانے کو بڑا دھچکا لگا کسی کو احساس ہی نہیں ہے  یہ کیس مشرف دور حکومت میں زرداری صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کے خلاف دائر کیا گیا تھا، وکیل کو فیس ادا کرنے کے بعد جرمانہ جمع۔

(جاری ہے)

وکیل کی فیس 7 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گا۔میاں نواز شریف کی حکومت نے بے تحاشا قرض لیے بر وقت ادائیگی نہیں کی گئی ساتھ ساتھ ادائیگیوں کا توازن قائم نہیں رکھا گیا اس حکومت کو کئی گنا سود کے ساتھ یہ قرض دینا پڑ رہا ہےاور دو سال میں بیس ارب ڈالر قرض واپس کر چکی ہے، اسی طرح پاور کمپنیوں کےساتھ معاہدوں میں کمیشن ، کک بیکس، اور مالیاتی بد انتظامی عروج پر رہی، آئی پی پیز ہوں، کے الیکٹرک ہو یا میٹرو پراجیکٹ سب ابھی تک نقصان میں چل رہے ہیں موجودہ حکومت نے آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کروائی اور اب ڈالر میں منافع کمانے والے  پاکستانی روپے میں کمائیں گے اور وہ بھی پندرہ فیصد کم فروری 2021ء تک آئی پی پیز سے مکمل معاہدہ ھو جائے گا۔

میں پنجاب کا ایک معاہدہ دیکھ رہا تھا  جو فروری 2016ء  میں شہباز شریف نے کیا ، اس معاہدے کے تحت کروڑوں ڈالر قرض لیا گیا جس کا مقصد گوشت اور دودھ کی مارکیٹ کو بہتر بنانا  تھا  اس معاہدے میں ایک  شرط تھی کہ گوشت اور ڈیری کی قیمتیں  مارکیٹ پلئیر طے کریں گے ، اس معاہدے کی تجدید میں موجودہ پنجاب حکومت کو مشکلات کا سامنا ھے، ادائیگی یا مزید قسط حاصل کرنے کے لیے عوام دشمن شرط پر عمل کرنا ھو گا، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، صنعتوں پر ٹیکس کا انبار لگا کر مکمل بند کیا گیا، برآمدات ختم ہو کر رہ گئی تھیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت بڑھ گیا تھا، یہ وہ ماضی کے گناہ تھے جن کو بھگتنا بھی ہے، ان سے معافی بھی مانگنی ہے اور اصلاح بھی، یہ مشکل وقت عمران خان کی حکومت نے برداشت کرنا ہے، ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ھے کہ احتساب ہو، قرض ھوں، معاہدے ھوں یا کوئی اور بات سب عوام کے سامنے ہو رہا ہے، چھپایا نہیں جاتا، کوئی سیاسی فائدے کے لیے جھوٹ نہیں بولا جا رہا، سب کو، سب پتا ھے، مگر ان ناکردہ گناہوں کا کیا کیا جائے جو عمران خان نے نہیں کیے،  کیا ان کے ذمہ داران انصاف کے کٹہرے میں لانے جائیں گے۔

؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :