آزاد کشمیر اور عام انتخابات

پیر 21 جون 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

آزاد جموں و کشمیر تقریبآ چھیالیس لاکھ نفوس پر مشتمل علاقہ ہے، اس علاقے کے باسیوں نے 1947ء میں اپنی مدد آپ ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے کشمیر کا یہ حصہ آزاد کروایا تھا، سیاسی تحریک کی قیادت غازی ملت سردار محمد ابراھیم خان  اور چوھدری غلام عباس نے کی، یہ جفاکش لوگ آزادی کا پرچم لہراتے ہوئے اور فتح کا بگل بجاتے بارہ مولا اسلام آباد تک پہنچ گئے تھے کہ ھندوستانی حکومت نے شکت کے خوف سے جنگ بندی اور کشمیر میں استصواب رائے کا مقدمہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا، اس وقت کے وزیراعظم اعظم ھندوستان جوال لال نہرو نے اپنی نشری تقریر میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق فیصلے  کا اعلان کیا، یوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے  اپنی زیر نگرانی استصواب رائے کی قرارداد منظور کی،  جس کی وجہ سے کشمیری مجاہدین واپس لوٹے اور لائن آف کنٹرول کی خونی لکیر کھینچ دی گئی، تاہم آزاد کشمیر کی حکومت سردار محمد ابراھیم خان کی صدارت میں قائم ہوئی جس کا پہلا دارالحکومت جنجال ہل تراڑکھل میں بنایا گیا، جنگ بندی اور مسئلہ اقوام متحدہ میں لیجانے کے پس پردہ ایجنڈا کچھ اور تھا نہرو، اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سازشیں رنگ لائیں اور بالآخر 27 اکتوبر 1947،ء کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں اس ناجائز قبضے کے خلاف کشمیری آج تک برسر پیکار ہیں، دوسری طرف آزاد کشمیر پاکستان کے زیر انتظام آگیا جس میں گلگت بلتستان بھی شامل تھا، آزاد کشمیر میں بننے والی حکومتوں میں سب سے زیادہ اقتدار مسلم کانفرنس کے پاس ہی رہا، جس کی قیادت پہلے سردار ابراھیم خان نے کی، جس کے بعد سردار عبد القیوم خان سربراہ بنے ، آج یہی جماعت چند نشستوں اور سردار عتیق احمد خان تک محدود ہو گئی، جبکہ ذولفقار علی بھٹو کی محبت اور تاشقند معاہدے کے بعد پیپلز کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی، مجھے یاد ہے کشمیر کے لوگ بھٹو سے اتنی محبت کرتے تھے کہ بھٹو صاحب کے جیل کے دوران ہر ماں، تمام گھر کے بچے روز ایک پارہ پڑھ کر ان کی رہائی کے لیے رورو کے دعا کرتے تھے، وہ پیپلز پارٹی بھی نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان میں بھی سندھ تک محدود ہو گئی، لبرشن لیگ جناب کے ایچ خورشید کی المناک وفات کے بعد سیاسی منظر سے اوجھل ہو گئی، جماعت اسلامی جتنی تھی اتنی ہی موجود ہے اور اس نے ترقی نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

(جاری ہے)

میاں نواز شریف نے سردار عبد القیوم خان جو کبھی ان کے اور ضیاء الحق کے مرشد ھوا کرتے تھے، کو مشرف سے دوستی کے جرم میں عاق کر کے مسلم لیگ ن بنا ڈالی ، جس کے سربراہ راجہ فاروق حیدر آج وزیراعظم ہیں اور وہ جولائی 2021ء میں اپنا انجام دیکھ رہے ہیں، اس طرح جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، نیشنلسٹ تنظیموں کے کچھ گروپ اور نو  پاکستان تحریک انصاف بھی اس مرتبہ الیکشن میں پنجہ آزمائی کر رہے ہیں، اگرچہ پی ٹی آئی نے 2013,ء  کے انتخابات بھی لڑے تاہم چونکہ پاکستان میں مسلم لیگ ن برسر اقتدار تھی اس لئے حسب روایت وہاں بھی لوگوں کا رحجان اسی طرف تھا۔

لبرشن لیگ، محاذ رائے شماری اور ایم کیو ایم کے بھی کچھ جھنڈے اور بندے ضرور نظر آتے ہیں مگر قابلِ ذکر نہیں ہیں،اول تو آزاد کشمیر کی بھی صورتحال وہی ھوگی جو گلگت بلتستان میں ھوئی ھے تاہم کچھ مقابلے سخت اور مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لئے معرکے کا  باعث ھوں گے،
آزاد جموں و کشمیر کا رقبہ 13297 مربع کلومیٹر  (5135 مربع میل) ہے، جس کے 10 اضلاع، 32 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں،جہاں 15 لاکھ 19 ھزار،347 مرد ووٹر، اور 12 لاکھ 19 ہزار خواتین ووٹرز ہیں، پہلے کل 29 نشستوں پر انتخابات ہوتے تھے اس مرتبہ  چار نشستیں بڑھانے کے بعد کل 33 نشستوں پر انتخابات 25 جولائی 2021ء کو ہیں، جن میں جموں و ویلی کی نشستیں پاکستان میں پھیلے مہاجرین پر مشتمل ہیں، عموما یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ جس کی پوزیشن ان نشستوں پر مضبوط ھوئی وہی حکومت بنائے گی، اس  سال انتخاب میں ان نشستوں پر پوزیشن مختلف ہے، مہنگائی کی" پرسپشن "عام جس کا اثر تحریک انصاف کے لئے مشکالات پیدا کر سکتا ہے تاہم جس رفتار سے مسلم لیگ ن، اور دیگر جماعتوں کے لوگ پی ٹی آئی میں شامل ھو رہے ہیں یا متوقع ہیں ان میں سابق صدر حاجی یعقوب، سردار قمر زمان، شاہ غلام قادر سمیت کئی لوگ اہمیت اختیار کر  رہے ہیں، جس سے تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ھو جائے گی، پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر میں ٹکٹوں کی تقسیم میں جو غلطیاں کی ہیں اس کے ثمرات دوسری جماعتیں سمیٹ لیں گی، تحریک انصاف میں آزاد کشمیر میں گروپنگ بہت موجود ہے جو خطرے کا الارم ہو گی اگر مرکزی قیادت یا عمران خان صاحب نے انہیں راضی نہ کیا تو مشکلات پیدا ھو سکتی ھیں تاہم ان میں بیشتر افراد ایسے ہیں جو ایک ھزار زائد ووٹ نہیں لے سکتے، البتہ تحریک انصاف کو ہرانے کے لیے یہ ووٹ اہم ھو ں گے، اس لئے انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ سب مل کر عمران خان کی طرف دیکھیں، ان کے سیاسی اور تعمیری کردار کو سمجھیں باری آپ کی پھر آ جائے گی، گزشتہ دنوں سردار عتیق احمد خان، سردار  خالد ابراھیم کے صاحبزادوں اور جماعت اسلامی کے رہنما نے بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیں کی ہیں اور مل کر چلنے کا اعلان کیا ہے،  کارکنان سوچیں کہ اس وقت کیا چیز اہم، انہیں اس پر لبیک کہنا چائیے"صاف چلی شفاف چلی" تحریک انصاف چلی کی آواز آزاد کشمیر پہنچ چکی ہے، قافلے بھی اسی طرف چل پڑے ہیں ویسے بھی راجہ فاروق حیدر ہوں یا کوئی اور رہنما، میجر جنرل حیات خان مرحوم کے علاؤہ کسی حکمران کی طرف دیکھیں "اسلام آباد میں پلاٹ اور لینڈ کروزر" ہی ان کا محور رہا ہے، قدرتی حسن و جمال پر مشتمل آزاد کشمیر کا علاقہ آج تک ھسپتالوں، سیاحت کے فروغ اور بے روزگاری کے خاتمے سے محروم رہا ہے" راجہ جی "تو ریاستی پارٹی کہتے پھرتے ہیں حالانکہ خود ان کی جماعت اس فارمولے پر پورا نہیں اترتی، راجہ فاروق حیدر تحریک آزادی کشمیر کا تذکرہ بڑی تواتر سے کر رہے ہیں یہ آزاد کشمیر کے رہنماؤں کی بدقسمتی ہے یا عوام کی کہ تمام سیاستدان الیکشن میں تحریک آزادی کشمیر کا راگ الاپنے لگتے ہیں جو کام انہیں پہلے کرنا چائیے، اقتدار کے مزے  میں سب بھول جاتے ہیں، حالانکہ مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو ان بورڈ کر کے وہ سفارتی محاذ پر بہت کچھ کر سکتے ہیں، رہی آزاد کشمیر کی ترقی تو اس چھوٹے سے خطے میں کوئی بھی حکومت نمایاں کام نہیں کر سکی صرف میجر جنرل حیات خان محروم کے دور حکومت میں بننے والا انفراسٹرکچر تھوڑے بہت ردوبدل سے آج تک چل رہا ہے، ٹورزم میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے لیکن سیاست دان اربوں روپے کا بجٹ عیاشیوں اور چند ایک سڑکوں اور سفارشی بھرتیوں پر  اڑا  دیتے ہیں، مہنگائی، صحت بحران اور بے روزگاری سے 65 فیصد تعلیم یافتہ  افراد ترس رہے ہیں، تعلیمی اداروں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اسلامیات والا حساب اور حساب والا اردو پڑھا رہا یے باقی زیادہ تر اساتذہ کرام سیاست کرتے ہیں،  بنیادی طور پر کشمیر کا بچہ بچہ سیاست اور مذہب کا گہرا شعور رکھتا ہے مگر ووٹ دیتے وقت برادری اور شخصیات اہم ھو جاتی ھیں یہ روایت ختم ھونی چاہیے، تحریک انصاف کے نوجوان اور نیشنلسٹ تنظیموں کے گروہ اس کے لیے سرگرم ہیں البتہ کامیابی کے لیے بہت محنت کرنی ہوگی کیونکہ بدقسمتی سے کشمیر میں قیادت اور دیانت دارانہ سیاست کا بڑا بحران ہے سوائے جماعت اسلامی کے  شاید کوئی ایسا ھو جو نظریے کو ووٹ دیتا ہو، ان حالات میں شخصیات اور برادریاں آج بھی الیکشن جیتنے کا اہم ٹول ہیں، میرپور، بھمبر سے بیرسٹرسلطان محمود، کوٹلی سے سردار سکندر حیات خان، سدھنوتی سے سدوزئی خاندان، پونچھ سے حاجی سردار یعقوب خان، سردار خالد ابراھیم خان، باغ سے سردار عتیق احمد خان، قمر الزمان، میر اکبر خان، حویلی سے مصطفی نیازی چوھدریوں کی برادری مظفرآباد سے خواجوں اور گیلانیوں ،جبکہ آٹھ مقام، ھٹیاں بالا و نیلم میں راجوں کا کردار اہم ھوتا ھے اس سال تحریک انصاف نے ہر برداری سے نوجوانوں کو اپنے ساتھ رکھا ہے جو تبدیلی کی ھوا پیدا کر سکتا ہے، البتہ مذکورہ بالا شخصیات تحریک انصاف کا حصہ بن گئیں تو حکومت بنانے کے چانسسز اسی فیصد تک بڑھ سکتے ہیں،  "کشمیر کو صوبہ بنایا جا رہا ہے "مسلم لیگ ن اس نعرے پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ گلگت بلتستان کے لوگ چاہتے تھے کہ گلگت بلتستان صوبہ بنے مگر کشمیر کے لوگ صوبے کے حق میں نہیں ہیں، دوسرا نعرا تحریک آزادی کشمیر کا لگایا جا رہا ہے، ان دو نعروں کو صرف الیکشن پزیرائی اور نوجوانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اصل مسائل صحت کا بحران، مہنگائی اور بے روزگاری ہے جس نے بھی اس کو حکمت سے اٹھایا وہ کامیاب رہے گا، فی الوقت مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہی متوقع ہے، عمران خان الیکشن شیڈول سے پہلے دورہ کر لیتے تو حالات یکسر بدل جاتے،  تحریک انصاف بیرسٹرسلطان محمود اور تنویر الیاس جیسے دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے یہ کوئی انتخابی مفاہمت ہے یا مخاصمت البتہ اس کا بہت نقصان ہو رہا ہے، 25 جولائی کو کشمیر کے نوجوان کیا فیصلہ کرتے ہیں، سامنے آ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :