ٹرائیکا پلس مذاکرات، اور بھارت

ہفتہ 13 نومبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بھارت نے "بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ" کے مترادف افغانستان کی سیکورٹی پر اجلاس بلایا جس میں پاکستان کو بھی مدعو کیا گیا، پاکستان نے بھارت کے سابقہ رویے اور غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا، جبکہ چین نے بھی طے شدہ شیڈول کو وجہ بنا کر اجلاس میں شرکت نہیں کی، امریکہ اور روس کے علاؤہ وسط ایشیا کے ممالک نے اجلاس میں شرکت کی مگر، نشتن گفتن برخاستن سے بات آگے نہیں بڑھی، بنیادی طور پر بھارت افغانستان میں اپنی ناکامی اور غلطیوں پر شدید خفت میں مبتلا ھے، اربوں روپے لگا کر، افغان عوام اور حکومت کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جس میں اسے اس وقت جھٹکا لگا جب اشرف غنی حکومت "فرار" ھوگئی، اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار ھونی والی فوج ریت کی دیوار ثابت ھوئی اور بھارتی کوششوں اور  داعش کی تیاری کا منصوبہ ٹھپ ہو گیا، افغانستان کی سیکورٹی پر بھارت میں کانفرنس بہت زیادہ اہمیت بھی نہیں رکھتی کیونکہ بھارتی حکومت غیر نمائندہ افغان رہنماؤں کو مدعو کر رہی ہے، دوسری طرف وہ جلا وطنی اختیار کرنے والے سابق افغان فوجیوں، عام شہریوں اور معزول حکومت کے نمائندوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کی کوششیں کر رہی ہے، حال ہی میں معزول افغان نائب صدر سے بھارتی حکومت مذاکرات بھی کرتی رہی ہے،
  دوسری طرف پاکستان میں ٹروئیکا پلس مذاکرات میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی، امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ، روس اور چین کے اعلئ حکام شریک رہے، قبل اس کے امریکی نمائندہ تھامس ویسٹ نے برسلز میں نیٹو کو امریکہ کی طالبان سے بات چیت پر بریفننگ دی، انہوں نے واضح طور پر کہا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکی امداد کی واپسی، عالمی تعلقات معمول پر لانا اور پابندیاں ختم کرنے پر مذاکرات ھوں اور یہ تین نکاتی ایجنڈا مذاکرات کا حصہ ہے، تھامس ویسٹ کو زلمے خلیل زاد کی جگہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان نامزد کیا گیا تھا  یہ ان کا پہلا دورہ پاکستان ھے، زلمے خلیل زاد نے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اور انخلا کے لیے دوحہ معاہدے سمیت اہم امور پر نمائندگی کی، جس  سےطالبان قیدیوں کی رہائی، امریکہ کی پرامن واپسی اور سابقہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی ھوئے تاہم اشرف غنی حکومت نہ مذاکرات اور نہ ہی دفاع میں کوئی کردار ادا کر سکی جس سے امریکہ، طالبان اور پاکستان کے درمیان ایک خلا پیدا ہوا، جس کی برف پگھلنے لگی ہے، اس میں پاکستان، چین، روس، ازبکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے، چین نے واضح موقف اپنایا کہ وہ افغانستان کے امن اور استحکام کے لیے کسی کے ساتھ بھی بیٹھنے کے لیے تیار ھے مگر بھارت نہیں، کیونکہ بھارت کا رویہ سازشی اور اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم امریکہ کا موقف ہے کہ وہ اپنے شراکت داروں سے بات کرتا رہے گا، دوسری طرف، پاکستانی حکومت، عسکری قیادت، اور اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں سردی آنے کے ساتھ بھوک اور خوراک کی کمی کا بہت بڑا بحران جنم لے گا، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 80 لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے، جس کے لیے دنیا اور خصوصاً بڑے ممالک کو کوشش کرنی ھو گی، پاکستان اس انسانی المیے کو او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر لے جا رہا ہے، یورپی یونین نے افغانستان کی مدد کے لیے فنڈز جاری کیے اور وہ مزید کوشش کر رہی ہے، پاکستان گزشتہ کئی سال سے افغان جنگ سے براہ راست متاثر ھے، معاشی، معاشرتی اور خوراک کی فراہمی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ھے، مگر بھارت غیر ضروری طور پر اجلاس منعقد کرکے خطے میں اپنی دسترس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے، جس کی وجہ سے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، ایک بات بالکل تاریخی نوعیت کی ہے کہ طالبان عبوری حکومت اور رویے میں واضح تبدیلی آئی ہے، وہ سیاست، عالمی امور اور اندرونی حالات پر گہری گرفت رکھتے ہیں، جس طرح وہ کیس بیلٹ کر رہے ہیں اس کے نتائج اچھے ھو گئے،ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے افغانستان میں دلچسپی نہ لی تو بگرام ایئر بیس جلد چائنہ کے پاس ھوگا، دراصل ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی موجوہ امریکہ چین کی سرد جنگ کے بیج بوئے تھے، آج بائیڈن انتظامیہ کی ساری توجہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور دفاعی طاقت کی طرف ھے، فائیو آئیز ھوں یا دوسرے معاہدے وہ بھارت کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اور ازبکستان کے انکار کے بعد بھارتی سرزمین چین کے خلاف استعمال کی جائے، یہ شطرنج کے مہرے بچھانے کے لیے بھارتی فوج اور حکومت کے گوڈے، گھٹے سوج گئے ہیں، ھاتھ کانپ رہے ہیں، انہیں ایک سال سے گلوان میں بیٹھا "شیر" نظر آ رہا ہے، ٹرویئکا پلس میں اہم پیشرفت بھارت کے لئے ایک نئی خفت ھو گی جسے مٹانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :