ٹرائیکا پلس مذاکرات، اور بھارت
ہفتہ 13 نومبر 2021
دوسری طرف پاکستان میں ٹروئیکا پلس مذاکرات میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی، امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ، روس اور چین کے اعلئ حکام شریک رہے، قبل اس کے امریکی نمائندہ تھامس ویسٹ نے برسلز میں نیٹو کو امریکہ کی طالبان سے بات چیت پر بریفننگ دی، انہوں نے واضح طور پر کہا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکی امداد کی واپسی، عالمی تعلقات معمول پر لانا اور پابندیاں ختم کرنے پر مذاکرات ھوں اور یہ تین نکاتی ایجنڈا مذاکرات کا حصہ ہے، تھامس ویسٹ کو زلمے خلیل زاد کی جگہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان نامزد کیا گیا تھا یہ ان کا پہلا دورہ پاکستان ھے، زلمے خلیل زاد نے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اور انخلا کے لیے دوحہ معاہدے سمیت اہم امور پر نمائندگی کی، جس سےطالبان قیدیوں کی رہائی، امریکہ کی پرامن واپسی اور سابقہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی ھوئے تاہم اشرف غنی حکومت نہ مذاکرات اور نہ ہی دفاع میں کوئی کردار ادا کر سکی جس سے امریکہ، طالبان اور پاکستان کے درمیان ایک خلا پیدا ہوا، جس کی برف پگھلنے لگی ہے، اس میں پاکستان، چین، روس، ازبکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے، چین نے واضح موقف اپنایا کہ وہ افغانستان کے امن اور استحکام کے لیے کسی کے ساتھ بھی بیٹھنے کے لیے تیار ھے مگر بھارت نہیں، کیونکہ بھارت کا رویہ سازشی اور اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم امریکہ کا موقف ہے کہ وہ اپنے شراکت داروں سے بات کرتا رہے گا، دوسری طرف، پاکستانی حکومت، عسکری قیادت، اور اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں سردی آنے کے ساتھ بھوک اور خوراک کی کمی کا بہت بڑا بحران جنم لے گا، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 80 لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے، جس کے لیے دنیا اور خصوصاً بڑے ممالک کو کوشش کرنی ھو گی، پاکستان اس انسانی المیے کو او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر لے جا رہا ہے، یورپی یونین نے افغانستان کی مدد کے لیے فنڈز جاری کیے اور وہ مزید کوشش کر رہی ہے، پاکستان گزشتہ کئی سال سے افغان جنگ سے براہ راست متاثر ھے، معاشی، معاشرتی اور خوراک کی فراہمی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ھے، مگر بھارت غیر ضروری طور پر اجلاس منعقد کرکے خطے میں اپنی دسترس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے، جس کی وجہ سے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، ایک بات بالکل تاریخی نوعیت کی ہے کہ طالبان عبوری حکومت اور رویے میں واضح تبدیلی آئی ہے، وہ سیاست، عالمی امور اور اندرونی حالات پر گہری گرفت رکھتے ہیں، جس طرح وہ کیس بیلٹ کر رہے ہیں اس کے نتائج اچھے ھو گئے،ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے افغانستان میں دلچسپی نہ لی تو بگرام ایئر بیس جلد چائنہ کے پاس ھوگا، دراصل ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی موجوہ امریکہ چین کی سرد جنگ کے بیج بوئے تھے، آج بائیڈن انتظامیہ کی ساری توجہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور دفاعی طاقت کی طرف ھے، فائیو آئیز ھوں یا دوسرے معاہدے وہ بھارت کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اور ازبکستان کے انکار کے بعد بھارتی سرزمین چین کے خلاف استعمال کی جائے، یہ شطرنج کے مہرے بچھانے کے لیے بھارتی فوج اور حکومت کے گوڈے، گھٹے سوج گئے ہیں، ھاتھ کانپ رہے ہیں، انہیں ایک سال سے گلوان میں بیٹھا "شیر" نظر آ رہا ہے، ٹرویئکا پلس میں اہم پیشرفت بھارت کے لئے ایک نئی خفت ھو گی جسے مٹانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.