معیشت ہم کہاں پھنس جاتے ہیں؟

منگل 30 نومبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ملک معیشت کی کہانی سادہ سی  ھے ، یعنی اگر آپ کی آمدنی 100 روپے  ھو جس میں سے 85 روپے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑیں اور پندرہ روپے میں سب خرچ چلانا پڑے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟،  یہ تازہ رپورٹ ھے اور آج بھی اخبارات میں چھپی ھے، جس کے مطابق پاکستان آمدنی کا 85 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر ،بھارت 51 فیصد اور بنگلہ دیش 20 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے،  رپورٹ کے مطابق اس سال 2749 ارب روپے قرض کی ادائیگی پر خرچ ھوں گے، قیام پاکستان سے حساب لگائیں تو اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ 1947ء سے لے کر 2007 تک 6000 ھزار ارب قرض لیا گیا، جبکہ 2008ء سے 2018ء تک 2 ھزار ارب ڈالر سے زائد قرض لیا گیا ہے، قصور کس کا ہے؟
   رواں مالی سال کے اعدادوشمار  انتہائی بھیانک ہیں کہ حکومت کے پاس قرض کی ادائیگی کے بعد صرف 754 ارب روپے بچیں گے، جس سے ملکی نظام ، دفاع، ترقیاتی منصوبے، سبسڈیز، تنخواہیں، صوبوں کا حصہ ، پنشنز اور دیگر ضروریات پوری کی جائیں گی، کیسے؟ کیا کوئی کسی سے پوچھ سکتا ہے؟ اب موجود حکومت کی کارکردگی پر بات کریں تو  مہنگائی کے علاؤہ  بہت بہتری کے آثار ہیں غیر ملکی تجارت سے لے کر اندورنی سطح پر  کیا ھوا ایک نیا بزنس کا پرو پاکستان ٹرینڈ نمایاں ھوا،  بیرون ملک تجارت، برآمدات اور سرمائے کی آمد میں اضافہ ھوا، عالمی ادارے معاشی گروتھ کو بسر فیصد تک جانے کا عندیہ دے رہے ہیں،  تجارتی سطح پر روس سے تجارت کا حجم 45 فیصد بڑھ گیا، چین کی منڈیوں میں پاکستان کی زرعی اجناس کی تجارت بیس فیصد بڑھ گئی، ٹیکسٹائل کی بیس فیصد نئی انڈسٹری اور چالیس فیصد پیدوار اور سرمایہ کاری بڑھ گئی، پاکستان کی افریقی ممالک سے تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ھے، سعودی عرب، یورپی یونین، وسط ایشیائی ریاستوں، بیلا روس، ترکی، ایران، یہاں تک امریکہ کے ساتھ بھی پاکستانی تجارتی حجم میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بڑے بڑے دفاعی معاہدے بھی ھو چکے ھیں، پاکستان سے اردن کو  گوشت کی فراہمی کا ایک بڑا معاہدہ اور نوٹیفکیشن ھو چکا ھے، سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کے ساتھ چین، روس اور ایران سے زراعت کے شعبے کے لئے بڑے معاہدے ھوئے ہیں، مینوفیکچرنگ، موٹر اور سیمنٹ انڈسٹری تاریخ کی بہترین پوزیشن میں ہیں، جبکہ ملکی سطح پر تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں پچاس فیصد اضافہ ھو چکا ھے، میں صرف حکومت کا سپورٹر نہیں ھوں آپ  حکومت  کے مخالف ترین  اخبارات خبریں، تجزیے، اور اعدادوشمار  دیکھ لیں، صاف نظر آئے گا، کہ ٹیکس ریونیو کولیکشن،  ٹیکس نیٹ تجارت اور سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ھوا ھے، البتہ مہنگائی  12 فیصد سے تیرا فیصد بڑھی ھے آمدنی میں کمی اور روزگار معدوم ھوا ھے، جس کی وجوہات بڑے قرضے، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ،  گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے ھے،اشیاء خوردونوش اور زرعی اجناس کی قیمتیں نہ صرف یہاں بلکہ امریکہ جیسے ملک میں بھی 30 سال کی بلند ترین سطح پر ھیں، کورونا نے دنیا کو بڑے اقتصادی بحران میں مبتلا کر دیا،  ھمیں  آئی پی پیز اور ایل این جی کے لیے بھاری رقم دینی پڑتی ہے، بجلی اور گیس خریدنے کے لئے سبسڈیز ختم کرنی ہوتی ہیں، پھر اپنی نہیں دوسروں کی ماننی پڑتی ھے قصور کس کا ھے؟
معاشی آزادی صرف قرضوں کے چھٹکارے سے ممکن ہے، جس کے لیے تیزی سے قرض واپس کیا جا رہا ہے تاہم درآمدات کی وجہ سے تجارتی خسارہ،  آئی پی پیز کی وجہ سے گردشی، اور ڈالر کی قیمت، درآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے،جس رفتار سے انڈسٹری، زراعت، ڈیم کی تعمیر، تجارتی حجم میں اضافہ اور غیر ضروری اخراجات سے بچا جا رہا ہے یہ پانچ سال مزید رہا تو ملک اس تباہ کن اقتصادی بحران سے ھمیشہ کے لئے نکل آئے گآ، اپوزیشن اور قوم نے صبر کیا تو حالات بدل جائیں گے، کیا بہترین  مستقبل کے لیے صبر کیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کا جواب نہ میں ھوگا، ھم سب تبدیلی کی حسین خواہش رکھتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اسٹیٹس کو ٹوٹے، بڑے بڑے مافیاز کو قابو کیا جائے، قبضہ مافیا سے جان چھڑائی جائے، الیکشن سے دھاندلی کا خاتمہ ھو، کچھ طبقات اس کے تحفظ کے لیے پوری جان مار رہے ہیں، کچھ اندر سے بھی ملے ہوتے ہیں، کچھ کو صرف اقتدار پیارا ہوتا ہے، انہیں ڈر ہے کہ عمران خان اقتدار کا مزہ ھی ختم کر دے گا، کسی کو ڈر ہے کہ ھماری خبروں سے جان نکل جائے گی، کئی ڈر رہے ہیں کہ ھمیں بھی سچ بولنا پڑھ جائے گا، خواہشات انقلاب کی بھی رکھنے والے ہیں مگر اپنی کھوٹھی، دکان، اور آنا بھی بچانا چاہتے ہیں،
  مسئلہ غریب عوام کا ھے انہیں ھر حال میں ریلیف چائیے، حکومت قرض یا آمدنی سے انہیں دینا چاہتی ہے، مگر تاحال مکمل کامیابی نہیں ملی رہی، جس کا چند طبقات صرف سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، حکومت نے کفالت اور صحت کا ایک عالمی معیار کا پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کو ہر غریب تک پہنچانے کی کوشش جاری ھے، فوری ریلیف، کے ساتھ زراعت، صنعت، آسان قرض اور کامیاب پروگرام شروع کیا ہے، تبدیلی کا سب سے بڑا ذریعہ معاشرہ ھوتا ھے، جو خود احتسابی سے ہی بدل سکتا ہے، نفسیاتی طور پر جب ھم حکومت پر بھروسہ چھوڑ کر، اپنے زور بازو پر اعتبار نہیں کریں گے،تبدیلی نہیں آسکتی، ھمارے محترم سلیم صافی سے نسیم حجازی جیسے عنوانات پر کتابیں لکھ رہے ہیں، اور تبدیلی لائی گئی، اب نئی آ گئی اور تبدیلی الٹی ھو گئی ، حالانکہ تبدیل ہونا وہی ہوتا ہے کہ پرانا بالکل بدل دیا جائے، وہ تو الٹی ھی ھوتی ھے، معاشی آزادی کے لیے سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی، مہنگائی بھی کم ھوگی اور معیشت بھی بہتر، بس "گھبرانا نہیں ہے"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :