حلقہ این اے 133۔۔کس کے لیے لمحہ فکریہ!

جمعرات 9 دسمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

  قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کا ضمنی انتخاب بخیر و خوبی انجام پا چکا ہے، اس حلقے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ اور مسرت چیمہ تکنکی بنیادوں پر انتخاب سے باہر ھوگئی تھیں، جس کے بعد یہ حلقہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے روایتی حریفوں کے درمیان معرکہ بنا رہا، سابق وزیراعظم پرویز اشرف زرداری صاحب کے حکم پر الیکشن مہم میں سرگرم رہے، جب کہ یہ حلقہ چونکہ مسلم لیگ ن کے ایم این اور مضبوط امیدوار پرویز ملک کے انتقال کے باعث خالی ھوا تھا اس لئے یہ سیٹ مسلم لیگ ن کی ہی سمجھی جا رہی تھی، جبکہ پیپلز پارٹی نے مقامی امیدوار اسلم گل کو ٹکٹ دے رکھا تھا، دونوں کے درمیان مقابلہ تھا کہ نہیں لیکن ووٹوں کی خرید کے الزامات عروج پر رہے، یہاں تک کہ ووٹ کو فروخت کرنے کی ویڈیوز پر بھی منظر عام پر آئیں، اس حلقے میں پانچ دسمبر کو انتخابات مکمل ھوئے جس کے مطابق شائستہ پرویز ملک تقریباً 46900 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائیں، اور پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل نے 32 ھزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا، یوں پیلیز پارٹی خوش ھے کہ اسے پنجاب میں ایک نئی انٹری مل گئی اور 2018 ء کے انتخابات میں صرف 5500 ووٹ حاصل کرنے والے اسلم گل، تقریباً 26 ھزار ووٹ زائد  حاصل کر گئے، اس کی دو وجوہات تو نمایاں ہیں، ایک حکمران جماعت تحریک انصاف کا الیکشن سے باہر ھونا اور دوسرا الزام مسلم لیگ ن نے لگایا کہ پیپلز پارٹی نے ووٹ خریدے ہیں، مگر دوسری طرف وہ یہ بھول گئے کہ مسلم لیگ ن نے گزشتہ الیکشن کی نسبت تقریباً 50 فیصد ووٹ کم حاصل کیے جو ن لیگ کے لیے  لمحہ فکریہ اور حکمران جماعت کے موقف کی تائید کرتا ہے، نوے ھزار ووٹ حاصل کرنے والے پرویز ملک اس حلقے کے ھمیشہ سے مضبوط امیدوار تھے ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک صرف چھیالیس ھزار ووٹ حاصل کر سکیں، جس کو مسلم لیگ ن کے رہنما اپنا گڑھ قرار دے رہے ہیں، وہی حلقہ  لمحہ فکریہ بن گیا، سب سے مایوس کن بات یہ تھی کہ 2018 ء میں اس حلقے کا ٹرن آؤٹ 51 فیصد تھا جو 32 فیصد گر کر صرف 19 فیصد رہ گیا، ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ کیا ستر فیصد سے زائد ووٹ نہ دینے پر یہ انتخاب کلعدم نہیں ہونا چاہیے؟ کیا اس حلقے کے لوگ مسلم لیگ ن کے متضاد بیانیے سے تنگ ہیں؟ کیا حکمران جماعت کا موقف  درست ہےکہ لوگ تحریک انصاف کے آؤٹ ہونے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں نکلے؟ کیا زیادہ سردی یا مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ نظام انتخاب سے مایوس ھو رہے ہیں،؟ اور کیا یہ پیپلز پارٹی کی کامیابی ھے؟ ان سوالات کے جوابات بہرحال تلاش کرنے ھوں گے، سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کو سوچنا ھو گا،
  جولائی 2018ء  کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار  پرویز ملک کامیاب ہوئے تھے جنہوں نے تقریباً 90 ھزار ووٹ حاصل کیے تھے، تحریک انصاف کے امیدوار اعجاز احمد چودھری نے تقریباً 78 ھزار ووٹ حاصل لئے تھے، ٹی ایل پی کے مطلوب احمد نے 13 ھزار اور پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل نے 5500 تک ووٹ لئے تھے،اسی بنیاد پر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن ووٹرز کو نکالنے میں ناکام رہی جس سے ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا، جبکہ پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے باہر ہونے اور اپنی موجودہ سیاسی حکمت عملی سے فائدہ اٹھایا ہے،
   مسلم لیگ ن کا المیہ ہے کہ وہ کبھی نواز شریف اور مریم کے ساتھ اور کبھی شہباز اور ھمزہ شہباز کے ساتھ دوڑ دوڑ کر تھک چکی ہے، پارلمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی قانون سازی کے بعد کئی ایم ، این ایز اور ایم پی ایز بھی پارٹی بدلنے کا سوچ رہے ہیں، کارکن پہلے ہی متضاد بیانیے کا شکار ہیں، میرے خیال میں اس انتخاب کو کالعدم قرار دینا چائیے، اگرچہ ھماری جمہوریت سادہ اکثریت کے قانون پر کھڑی ہے مگر اخلاقی اعتبار سے اتنا کم ٹرن آؤٹ عوام کی ناراضگی اور لاتعلقی کا اعلان ھے، وہ چاہئے حکمران جماعت کے لئے ھو یا سردی اور مہنگائی کی وجہ سے، مہنگائی وجہ ھوتی تو زیادہ لوگ نکل کر  نفرت کا اظہار کرتے مگر ایسا نہیں ھوا، سردی کے دلائل میں بھی زیادہ جان نہیں، دو ہی وجوہات نمایاں ہیں، ایک حکمران جماعت کے موقف کی تائید اور دوسرا نظام انتخاب سے مایوسی،  ایک بات واضح ہے کہ لوگ عمران خان سے۔

(جاری ہے)

ناراض ہیں تو باقی جماعتوں سے بہت مایوس ہیں، ان کو دوبارہ موقع دینے کے لیے تیار نہیں، اس کی وجہ گزشتہ ادوار حکومت اور موجودہ دور میں مایوس کن اپوزیشن، اب پی ڈی ایم سخت موقف کی طرف جا رہی ہے تو کیا لے کر نکلے گی، مسلم لیگ ن ،نواز، مریم، شہباز، ھمزہ یا شاید خاقان عباسی،  والی پالیسی والی جماعت کو، اس حلقہ انتخاب سے پیپلز پارٹی کو ایک نیا حوصلہ ملا ہے جس سے وہ خوش ھے لیکن یہ خوشی دیرپا ھر گز نہیں  ھوگی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن مدمقابل ھوتیں تو پھر کانٹے کا جوڑ ھو نا تھا اور ٹرن آؤٹ چالیس فیصد تک ضرور جاتا پھر خوب مقابلہ ہوتا، یہ حلقہ انتخاب مسلم لیگ ن کے لئے بڑا لمحہ فکریہ ہے کیونکہ وہ ھمیشہ جیتتے آئے ہیں،  دوسرا  یہ حلقہ میاں برادران کی ناک کے نیچے اور قبیلے کا اثر رسوخ بھی رکھتا ہے، جسے حقیقی سیاسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، دیکھتے ہیں مسلم لیگ ن اس سے کیا نتیجہ نکالتی ہے،  یہ انتخاب لاھور اور پنجاب کی سیاست پر اہمیّت واضح کر دیں گے کہکون کتنا ،کس، کے ساتھ ھے، ضمنی انتخابات میں ھمیشہ ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے تاہم اتنا کم شاید بھی نہیں ھوتا، اور دوسرا تاریخی مہنگائی میں بھی لوگوں کا باہر نہ آنا عمران خان کی تائید کے برابر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :