
پہلے تولو ، پھر بولو
پیر 24 ستمبر 2018

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
عقلمند تو وہ جو تاریخ سے سبق حاصل کرتا ہے لیکن تاریخ کا سبق یہ کہ اُس سے کوئی نہیں سیکھتا۔ وزیرِاعظم عمران خاں اور حواری بولتے بہت ہیں لیکن ”تولتے“ ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاں صاحب کو بار بار” یوٹرن“ لینے پڑتے ہیں۔ اُن کے لیے تو ایک فال نکالنے والا ”جماں جنج نال“ المعروف شیخ رشید ہی کافی تھا، اب فوادچودھری بھی لنگوٹ کَس کر میدان میں ہے۔فوادچودھری تو خالصتاََ آمر پرویزمشرف کی نرسری کا پالا ہوا ہے البتہ شیخ رشید ہواوٴ ں کا رُخ دیکھ کر دَرِآمر پر سجدہ ریز ہوا۔ یہ دونوں اصحاب ایک دوسرے سے بڑھ کر نوازلیگ کے خلاف آگ اُگلتے رہتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کے خلاف دیئے گئے بیان پر کپتان بہت خوش ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی رہائی کے بعد فوادچودھری نے کہا ”نوازشریف اور مریم نواز کو ڈیل ملے گی نہ ڈھیل ہوگی۔ نوازشریف کو وہیں پہنچایا جائے گا جہاں وہ کچھ دِن پہلے تھے۔ دیکھ رہے ہیں کہ نیب کی پراسیکیوشن میں کہاں کہاں خامیاں ہیں۔ نہ تو نوازشریف اور مریم نواز کو باہر جانے دیں گے اور نہ ہی اسحاق ڈار، حسین اور حسن نواز کو باہر رہنے دیں گے “۔ ہم فوادچودھری کو صرف اتنا ہی کہیں گے کہ
دُنیا ہے چل چلاوٴ کا رستہ ، سنبھل کے چل
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ تو متنازع تھا ہی لیکن سپریم کورٹ کے معزز جسٹس اعجازا لاحسن کی زیرِنگرانی کام کرنے والی احتساب عدالت کے محترم جج محمد بشیر کا فیصلہ تو اتنا حیران کُن کہ کسی کو یقین ہی نہ آیا۔ آوازِ خلق یہی تھی کہ جونہی اِس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، یہ فیصلہ”پھڑکا“ دیا جائے گا۔ وجہ اُس کی یہ تھی کہ احتساب عدالت کے جج صاحب نے اپنے فیصلے میں ہی تحریر کر دیا تھا کہ استغاثہ کرپشن کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے اوریہ فیصلہ مفروضوں کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ کرپشن کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود جج صاحب کا گمان تھا کہ استغاثہ نے جو کہا، وہی سچ ہے۔ اِسی مفروضے کو بنیاد بنا کر میاں نوازشریف کو 11 سال ،مریم نواز کو 8 سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قیدِبامشقت کی سزا سنادی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے بنچ نے جو فیصلہ سنایا، اُسی کی توقع کی جا رہی تھی جس کا غالباََ اکابرینِ تحریکِ انصاف کو بھی علم تھا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرِاعظم کی زیرِصدارت منعقد ہونے والی کابینہ کی پہلی میٹنگ میں جو پہلا فیصلہ ہوا وہ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا تھا۔اب فوادچودھری طنزیہ انداز میں کہتے ہیں ”جو لوگ کہتے تھے کہ نوازشریف کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا، اُن کو تسلی ہو گئی ہو گی۔ اگر جیل سے رہائی کے بعد وہ لندن چلے جاتے تو ہم کہاں ڈھونڈتے کہ شہزادے کہاں چلے گئے“۔ شہزادے نے تو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے پر سرِتسلیم خم کیا اور الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن آنے سے پہلے ہی وزارتِ عظمیٰ چھوڑ دی۔ پھراحتساب عدالت کے فیصلے کے بعد بھی لندن سے قید بھگتنے پاکستان چلا آیا لیکن یہ طے کہ اگر فواد چودھری پر کبھی ایسا وقت آیا تو وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔اُس کی پریس کانفرنس سے ذاتی انتقام کی بُو آتی ہے جو ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے اور نہ ہی تحریکِ انصاف کے لیے۔ ہمارا اُسے مشورہ ہے کہ وہ نیب پراسیکیوشن کی خامیاں تلاش کرنے جیسا کارِبیکار نہ ہی کرے تو اچھا ہے کیونکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب اکرم قریشی کے سامنے وہ ابھی طفلِ مکتب ہے۔ جب کیس کے اندر جان ہی نہیں ہو گی تو بیچارہ پراسیکیوٹر جنرل کرے گا کیا ۔ اب فوادچودھری کو چاہیے کہ وہ اپنی تمامتر توجہ العزیزیہ اور فلیگ شِپ ریفرنسز پر مرکوز کر دے کیونکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں کچھ باقی نہیں بچا۔ یہ یقین کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ جب بھی آئے، شریف فیملی کے حق میں ہی آئے گا۔ العزیزیہ اور فلیگ شِپ ریفرنسز صرف میاں نوازشریف کے خلاف ہیں اِس لیے یہ طے کہ نوازلیگ کی ”شیرنی“ اور میاں نوازشریف کی جانشین مریم نواز تو بہرحال آزاد فضاوٴں ہی میں رہے گی جو تحریکِ انصاف کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے کافی ہے۔
بات پہلے تولو، پھر بولو سے شروع ہوئی اور پہنچ گئی فوادچودھری پر۔ یہ فوادچودھری ہی نے کہا تھاکہ پہلے تین ماہ میں کوئی بیرونی دورہ نہیں کیا جائے گا اور تین ماہ بعد جو دورہ کیا جائے گا، وہ بھی عام جہاز میں۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے دورے پر چلے گئے پھر وزیرِاعظم نے سعودی عرب اور دبئی کے لیے رختِ سفر باندھا، وہ بھی عام جہاز پر نہیں، خصوصی طیارے پر۔ اِسی طیارے کے اندر فوادچودھری بھی موجود تھے۔ پتہ نہیں اُن کا ضمیر اُنہیں ملامت کرتا ہو گا کہ نہیں لیکن واپسی پر وزیرِاعظم کو یہ کہنا پڑا کہ طے تو یہی تھا کہ پہلے تین ماہ تک کوئی دورہ نہیں کیا جائے گا لیکن برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا دورہ اور عمرے کی سعادت حاصل کرنا ضروری تھا۔ ہمیں اِس پر تو قطعاََ کوئی اعتراض نہیں کہ وزیرِاعظم صاحب غیرملکی دورے پر کیوں گئے، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ آپ وہ کہتے کیوں ہیں جو کر نہیں سکتے۔ کپتان صاحب کو اپنے بہت سے یو ٹرن یاد ہوں گے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تولنے سے پہلے بولتے ہیں۔ اب وہ ماشاء اللہ ایٹمی پاکستان کے وزیرِاعظم ہیں، خُدارا! اب تو وہ بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔
ایک اور مخلصانہ مشورہ یہ کہ وزیرِاعظم صاحب اپنی دوستیاں اپنی ذات تک محدود رکھیں، اُن کی ملکی امور میں مداخلت مناسب نہیں۔ یہ اُنہی کے حق میں بہتر ہے کیونکہ آصف زرداری بھی دوستیاں پالتے پالتے اِس مقام پر پہنچے۔ کپتان نے اپنے ذاتی دوستوں، احسان مانی، ذاکر خاں اور سب سے بڑھ کر زُلفی بخاری کو حکومتی عہدوں سے نوازا۔ زلفی بخاری کو معاونِ خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی بنایا گیا جس کا درجہ وزیرِمملکت کے برابر ہے۔ اِس پر میڈیا میں شور اُٹھا اور حامد میر جیسے سینئر لکھاری اور اینکر نے بھی اِس تقرری پر کھُل کر تنقید کی۔ عمران خان صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا ” زلفی بخاری برطانوی شہری ہے، نیب اُسے طلب نہیں کر سکتی“۔ یہی بات فواد چودھری نے بھی بار بار دہرائی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک غیرملکی شہری پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا تو وہ معاونِ خصوصی کیسے بن سکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ کا بھی واضح فیصلہ آچکا کہ دوہری شہریت کا حامل شخص نہ تو انتخابات میں حصّہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اُسے کوئی حکومتی عہدہ دیا جا سکتا ہے۔محض خاں صاحب کا ذاتی دوست ہونے کو معیار بنا کر زلفی بخاری کو حکومتی امور میں مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا ۔اگر عون چودھری اور زلفی بخاری جیسے محرمِ راز اصحاب کو حکومتی عہدے تفویض کرنا ہی معیار ٹھہرا تو پھر بیچارے مفتی محمد سعید کا کیا قصور ؟۔ وہ بھی تو محرمِ راز ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اُسے اور کچھ نہیں تو کم از کم اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین ہی بنا دینا چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.