اسرائیل اور پاکستان‎

منگل 18 مئی 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

14مئی 1948 کو اسرائیل بنا اور 14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔کچھ حیرت انگیز مماثلتیں ناقابل فہم ہیں۔بنی اسرائیل پر تورات نازل کی گئی جو پہلی الہامی کتاب ہے۔اس طرح بنی اسرائیل کو پہلی امت مسلمہ کا درجہ حاصل ہوگیا جس پر اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے اپنی شریعت کا نفاذ کیا۔
صدیوں تک انبیاء اور رسول نسل اسحٰق علیہ السلام (جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے چھوٹے سگے بھائی تھے) یعنی بنی اسرائیل  میں آتے رہے جو بنی اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور انعام تھا۔

اس اعزاز و انعام کو وہ اللہ کے فضل کی بجائے اپنا حق سمجھنا شروع ہو گئے۔
اور اپنے آپ کو دوسری اقوام سے افضل و اعلیٰ سمجھنا شروع ہو گئے۔آج بھی یہودی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و برتر خیال کرتے ہیں اور نسلی تفاخر میں مبتلا ہیں۔

(جاری ہے)

  عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہیں آیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔


اس کے بعد نبوت ورسالت کی فضیلت بنی اسرائیل سے لیکر بنی اسماعیل کو عطا کی گئی جو یہود کیلئے ناقابلِ قبول تھی اسی لیے جانتے بوجھتے یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار کر دیا۔بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دو بھائیوں کی اولاد ہیں اور نسلاً ایک دوسرے کے کزن ہیں۔
بنی اسرائیل ہمیشہ سے اپنے آپ کو برتر خیال کرتے۔


تورات اور انجیل میں اپنی مرضی کی تحریفات کرتے اور بنی اسماعیل اور دوسری اقوام کو حقیر اور کمتر خیال کرتے۔ نبوت کا بنی اسماعیل میں منتقل ہو جانا اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت بنی اسماعیل میں ہونا ان کیلئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھا۔
یعنی بنی اسرائیل سے نبوت ورسالت بھی گئی اور امت مسلمہ کا اعزاز بھی چھین لیا گیا۔


ان سے امت مسلمہ کا اعزاز لیکر امت محمدی کو یہ اعزاز دے دیا گیا۔
اب مسلمان دوسری امت مسلمہ ہیں۔
لہذا رسالت محمدی اور نبوت کا بنی اسماعیل میں منتقل ہو جانا ایک دائمی دشمنی کی وجہ اور بنیاد بن گیا۔
یہ دشمنی ایسی ہی دائمی ہے جیسے ابلیس اور آدم کی دشمنی دائمی ہے۔
قرآن مجید میں مذکور ہے کہ "یہودی" اور "مشرک" اسلام دشمنی میں سب سے زیادہ متشدد ہونگے۔


آج عملی اور حقیقی شکل میں شرک سب سے زیادہ ہندوستان میں ہوتا ہے۔
اور یہودیوں کی ریاست اسرائیل ہے۔
اسرائیل اور بھارت کی اسلام اور پاکستان دشمنی کی شدت  اور پاکستان سے نفرت کی وجہ سے آپس کا گٹھ جوڑ ، قرآن میں مذکور حقیقت کا عملی اظہار ہے۔
مسلمانوں کی دو عظیم الشان سلطنتوں کا اختتام ہوئے ابھی دو سو سال بھی نہیں گزرے ہیں۔


1857میں مغلیہ سلطنت کا باقاعدہ خاتمہ ہوا اور 1924 میں سلطنت عثمانیہ کا باقاعدہ خاتمہ ہوا۔
جس پر علامہ اقبال نوحہ کناں ہوئے اور کہا۔۔۔۔
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ  
دنیا کے 155 سے زائد ممالک میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جو کسی مذہب یا نظریے کی بنیاد پر بنے ہیں اور حیرت انگیز طور پر وہ دو ممالک اسرائیل اور پاکستان ہیں۔

دونوں کا قیام تقریباً ساتھ ساتھ ہی ہوا۔ایک پہلی امت مسلمہ کا نمائندہ ہے اور ایک دوسری امت مسلمہ کا نمائندہ ہے۔ایک بنی اسرائیل کے نظریے کا پرچارک ہے اور دوسرا بنی اسماعیل کے نظریے کا علمبردار ہے۔
اسرائیل کو دنیا کی نام نہاد طاقتوں نے مل کر نا جائز غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقے سے بنوایا اور پاکستان کو حقیقی الوہی طاقت نے جمہوری اور قانونی طریقے سے بنوایا۔


پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
مکار ہندو اور عیار انگریز کے ہوتے ہوئے پاکستان کا بننا اس بات کی علامت ہے کہ اس کو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے بنایا گیا ہے۔
اسرائیل کی پاکستان سے دشمنی اظہر من الشمس ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل اپنی عداوت اور بغض کی تسکین ہزاروں میل دور سے مشرک ہنود کے ساتھ ملکر کرنا چاہتے ہیں۔


یہود و ہنود کا یہ گٹھ جوڑ فطری ہے۔ علامہ نے کیا خوب کہا تھا
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی
یہودی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وہ مسلمانوں کی تکلیف سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔وہ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے اس پر اپنی عبادت گاہ یعنی ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔موجودہ ظلم وستم نیا نہیں ہے۔جب تک آخری یہودی زمین پر موجود ہے وہ فتنہ،شرارت اور سازش سے باز نہیں آسکتا۔ انبیا اور رسولوں کو قتل کرنے والے کس فطرت کے حامل ہوں گے اندازہ لگانا کچھ مشکل تو نہیں ہے۔
اس موضوع پر چند معروضات اگلے کالم میں گوش گزار کرنے کی کوشش کرونگا۔انشاء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :