ظلمت،ابھی زندہ ہے!

ہفتہ 18 اگست 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

بندوق کی نوک پر ملک پر قبضہ کیا گیا،جمہوریت کا خاتمہ کرکے آمریت مسلط کردی گئی ،سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے،ملک بھر کی جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر گئیں۔شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں لرزادینے سزاؤں کا مرکز بنا دیاگیا۔ عوامی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو”جوڈیشل مرڈر“ کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا،ایم آرڈی کی تحریک کو خون میں ڈبودیا گیا، کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں 200کے قریب صنعتی کارکنوں کو ریاستی جبر کے نتیجے میں شہید کردیا کردیاگیا۔

کونسا وہ ستم تھا جو اس عہد میں نا ڈھایا گیا ہو۔یہ سب فوجی آمر ضیاء الحق کی ایماء ،مرضی اور منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا تھا۔مجھے ضیاء الحق سے بہت نفرت تھی،میں اسکی موت کاخواہشمند تھا،مجھے17اگست 1988کی وہ سپہر بہت اچھی طرح یاد ہے،میں اپنا ٹی وی ٹھیک کرانے کیلئے اپنے شہر کے بازار میں تھا، جب ورکشاپ میں سامنے چلتے ہوئے ٹیلی وژن کی سکرین سے پی ٹی وی ٹرانسمیشن غائب ہوگئی۔

(جاری ہے)

میں چلایاکہ ملک میں کچھ ہوگیا ہے،پھرٹی وی پر لمبی تلاوت شروع ہوگئی تو یہ تصدیق ہوگئی کہ کچھ غیرمعمولی ضرورہے۔ جب ضیاء الحق کی ہلاکت کی خبر نشر ہوئی تومیں بازار میں ناچنے لگ گیا،میرے منہ سے نعرے نکل رہے تھے اور خود پر اختیار نہیں رہا تھا،لوگ حیرانی سے میرے ردعمل کو دیکھ رہے تھے اوراپنے خیالات کااظہار بھی کررہے تھے۔لگتا تھا کہ ”نئے پاکستان “ کاظہور ہونے جارہا ہے۔

تاثر کے مطابق ‘اب سب کچھ ٹھیک ہونے کاگمان تھا ۔پھرایک لمبا وقت ہم نے سرابوں کے پیچھے بھاگتے گزار دیا ۔گزرا زمانہ کسی اخبار کی طرح اپنے مندرجات لئے سامنے ہے۔ آج پھر17اگست کے دن‘30سال بعد‘ میں سوچتاہوں کہ کسی انسان کے مرجانے سے کچھ بھی نہیں بدلتا،جب تک وہ نظریات اورفلسفہ شکست ناپائے جو ضیاء الحقوں یعنی ظلم کے استعاروں کو پیدا کرتا اور پروان چڑھاتا ہے۔

سماج کو اپنی گرفت میں لیکر پیچھے دھکیل دینے والی سوچوں کے پنپنے کا ماحول نا بدلے تو کسی بھی ضیاء الحق کے مرنے سے وقتی راحت تو ضرور ملتی ہے مگرزندگی میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا ۔آج ضیاء الحق نہیں ہے مگر اسکا بھوت ہر طرف قہقہے لگاکر اپنے ہونے کا اعلان کررہا ہے۔
جسموں اور انسانوں کو بہر حال مرہی جانا ہوتا ہے چاہے ان کوکوئی زبردستی موت کے گھاٹ اتاراجائے یاوہ طبعی عمر بتاچکے ہوں۔

لہذا کسی شخص کی موت کسی نظام کی موت سے تعبیر نہیں ہوتی ۔ضرورت اس فلسفے کی موت کی ہوتی ہے جو عام انسانوں کو،غریبوں اور کمزوروں کو اپنے ”نظام“ کا ’باج گزار‘بنائے رکھتا ہے۔جس میں چند بالادست افراد یا گروہوں کی غیرفطری اورپاگل پن پر مبنی خواہشوں کیلئے کروڑوں ،اربوں انسانوں کا جینا دوبھر کردیاجاتاہے۔منافعوں کے لئے جنگوں کوسماجوں پر مسلط کردیا جاتاہے۔

کروڑوں باشندوں کے ملک میں خوشحالی کومخصوص دائروں میں ہی گھمایا جاتاہے۔ عام طورپر جسموں کو‘مگر پھر نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سوچوں کوبھی پابندسلاسل کرکے استحصال اور جبر کے نظام کوبچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ”عوامی دھوکوں“سے عوام کی نجات کے سیراب دکھا کر نسلوں سے انتقام لیا جاتا ہے۔قومی مفادات کے نام پر کمپنیوں،جاگیروں،بنکوں اور سامراجی مفادات کوپروان چڑھایا جاتاہے۔

فکری ارتقاء،شک، تخلیق اور نئے زاویوں پر سوچنے کو قومی سلامتی کے منافی قراردیکر ”فکری جیل خانے“ تعمیر کئے جاتے ہیں۔ضیاء الحق کے دور میں ’اخبار‘ سارا ہی لفظوں سے خالی‘صرف’ پیشانی‘کے ساتھ ’چٹا سفید ‘کاغذ‘ پرنٹنگ پریسوں سے چھپ کر نکلتا تھا۔ آج اخبار کے صفحات لفظوں سے بھرے ہوتے ہیں مگر لفظوں کے معنے ضیاء الحق کے جانشین طے کرتے ہیں۔

تب صرف پی ٹی وی ضیاء الحق کے باطل خیالات کانقیب تھا، اب یہ گھناؤنے خیالات جانے کتنے ٹیلی نیٹ ورک تک پھیل چکے ہیں۔
تیس سال پر مبنی تاریخ نے اسی سوچ کو راسخ کیا ہے کہ زورزبردستی کی سوچ،دھوکے،فکری بدیانتی اور استحصال کا خاتمہ کسی ’ظالم انسان ‘کے قبرنشین ہونے سے نہیں ہوتا۔ظلم واستبداد بھی صرف کوڑے مارنے یا شاہی قلعے کے عقوبت خانے بھرنے تک محدود نہیں ہے۔

’فکری جبر‘ ساری برائیوں کامرکز ہے،جواذہان کواپنے گرد طواف لگواتارہتا ہے۔ثقافتی پسماندگی کی جڑیں فکری پسماندگی کے پیڑ سے پیوست ہوتی ہیں۔
محنت کش طبقے کے خلاف معرض وجود میں آنے والی ریاست اوراسکی حاکمیت معاشی جبرلاگو کرنے اور برداشت کرنے کے ایک سو ایک طریقے ازبر کرادیتی ہے،بعض اوقات توایک بھی چابک مارے بغیراور اگر ضرورت ہوتو خون کے دریا بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔

کسی بھی طبقاتی ریاست میں ضیاء الحقوں کا ظہور عام سی بات ہے،وردی کا ہونا یا ناہونا وقت اور حالات کے مطابق طے ہوتا رہتا ہے۔ دنیامیں بہت سے ضیاء الحق نرم خو،عبادت گزار،شائستہ لہجے اور انسانی اقدار کی بلندیوں کے ثناخواں ہونے کے تاثر کے ساتھ سماجوں کو یرغمال بنائے گزرے ہیں۔ شائد ’ریاست‘ اور’نظام‘ کے مفادات‘ درمیان میں نا ہوتے تو وہ کبھی مکھی بھی نا مارسکتے جنہوں نے سینکڑوں،ہزاروں بے گناہوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

اگر نظام اور عہد کے کردار کو نا سمجھا جائے تو پھر عامیانہ باتوں سے خوش اور دل برداشتہ ہونے کے خدشات بھی موجود رہتے ہیں اور خوابوں کی دنیا میں رہنے کی سہولت بھی موجود رہتی ہے۔ عمومی طور زوال پذیر نظاموں کی تباہی کا ’اقرار ‘دم آخر تک حکمران طبقہ نہیں کرتا۔حالات اور ناکامیاں پے درپے نظام کے شکستہ،شکست خوردہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔

مگر ہمیشہ ہی نظام کی ناکامی کو’فرد‘ یا افرادیا پھر آمریت اور”جمہوریت “کی ناکامی سے منسوب کرکے زوال پزیری اور شکستگی کااقرارکرنے سے پہلوتہی کی جاتی ہے۔عام طور پر ”حکمرانی“ کا ادل بدل کرکے عام شعورکو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ موجودہ عہد میں سرمایہ داری نظام کی عالمگیر زوال پذیری کے بعدسرمایہ داری کے آسمان‘ یعنی امریکہ اور یورپ میں تو کسی میں جراء ت نہیں کہ وہ وہاں پر کسی قسم کے نئے مارشل پلان، تعمیر نو یا کسی بھی قسم کی اصلاحات کا ڈھونگ رچایا جاسکتا مگرپاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں عمومی شعورکو آج بھی کسی ”نجات دہندہ“،”اچھی حکمرانی“یا اصلاح پسندی کے ڈھونگ سے دھوکہ دینے کا عمل جاری ہے۔

یہاں پر آج بھی نظام کی ہیئت ،کیفیت اور ارتقائی حالت دیکھے بغیر دعوے وعدے اور ’کوششیں ‘ کی جاتی ہیں۔ ان سب کا انت پہلے سے بڑی ناکامی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ناکامیوں اور نامرادیوں کے جھرمٹ سے مایوسی کا جنم ہوتا ہے۔ مایوسی اور شکستوں کاتسلسل ‘ماضی کی سوچوں کی واپسی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ماضی کے تعصبات،نظریات اور فلسفے ہمیشہ کسی نا کسی ضیاء الحق کو جنم دیتے ہی رہتے ہیں جواپنی نحوست اور وحشت سماجوں پر دھائیوں تک اثر انداز ہونے کیلئے چھوڑ جاتے ہیں۔

ضیاء الحقوں کو جس نظام کی نگہبانی کیلئے میدان میں اتارا جاتا ہے اس نظام کے خاتمے کو سیاسی افق پر پہلا ایجنڈا بنائے بغیر صرف جذباتیت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے یا صرف کوسنے دیے جاسکتے ہیں۔ جب تک ضیاء الحق کو جنم دینے والی کوکھ یعنی ماضی کے نظاموں میں رہنے کی سوچ اپنی جڑیں سماج میں زندہ رکھ پائے گی‘ضیاء الحق مر مر کے بھی جنم لیتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :