چھلنی کی پیاس کبھی نہیں بجھتی

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

عملی جذبہ ماند پڑجائے تو بندہ ماضی کی یادوں میں گم رہتا ہے ۔ایسے میں بعض تو صرف گم رہتے ہیں اور بعض گم سم رہتے ہیں۔
اول الذکر تو بس ماضی کارونا روتا ہے اگر اس کی نظر میں وہاں کچھ غلط ہوا ہو اور آج اس کے زعم کے مطابق کوئی کام ایسا ہوا جو اس کے خیال میں اس کے اس ماضی والی فکر یا بات کی تائید معلوم ہو ایسے میں وہ بالکل ہی سرسری قسم کی بات کرجاتا ہے کہ میں نے اس وقت ایسا ایسا کہا تھا۔

حالانکہ اس نے اس وقت جو کہا تھا اس کاخود بھی اس وقت اس بات پر یقین نہیں تھا بس معروضی حالات ایسے تھے کہ جاری وساری مارکیٹ میں اس کا سکہ نہیں چلتا تھا تو اس نے کہا کوئی نئی چیز مارکیٹ میں پیش کی جائے زیادہ نہ ہو تو تھوڑے بہت لوگ اس کو خرید لیں گے۔اب یہ وہاں اس کام میں اتنا فنا ہوچکا تھا کہ ابھی تک اس کا تحت الشعور اسے وہی پرنٹ دکھاتا ہے جب اسے کوئی بھی ایسی چیز سنائی دے جو بزعم او اس کے اس فکر سے مناسبت رکھتی ہو۔

(جاری ہے)

اس قسم کا دعوی کرکے یا تو وہ خود کو قدوسی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ میری شان القائی ہے یا پھر خود کو بڑا دوراندیش اور صاحب بصیرت ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اب تو لوگ مجھے مانیں ۔
اور اگر وہ یہ دوسرا یعنی گم سم ہوجاتا ہے تو وہ تو پھر بولتاہی نہیں یعنی یا تواس کو احساس ہوجاتا ہے کہ میرے بس کی بات نہیں لہذا خاموشی ہی میں عافیت ہے ۔یہ مؤخر الذکر بندہ کچھ نہ کچھ عافیت میں رہ جاتا ہے یازیادہ سے زیادہ وہ اس قسم کی باتوں میں پڑنے سے بیزار ہوجاتا ہے ۔

جبکہ اول الذکر تو جوکہتا ہے وہ اس وقت کی بیماری جو اسے لاحق تھی اور گزر بھی گئی ہے اس کا اب علاج کرنا چاہتا ہے حالانکہ وہ وائرس کب کا ختم ہوا ہوتا ہے جیسا کہ چیچک کی بیماری تھی ۔کہتے ہیں اب دنیا سے اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اس کا ویکسین یا اس کے لئے اب پنسلین لگانے کی کیا تُک ہے؟سوائے اس کے کہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جواس بندے کو لاحق ہے  وہم ہے اسے ابھی تک وہ باتیں سنائی دیتی ہیں یعنی Illusination ہےاور درحقیقت اس وقت اس کا جن لوگوں سے فکرکا مقابلہ تھا اپنے نفس کو مطمئن کرنے یا اپنی انا کو تسکین دینے کے لئےوہ ایسی باتیں کرتا رہتا ہے جو اس کی ذہنی صحت کے لئے بلکہ جسمانی صحت کے لئے بھی صحیح نہیں ۔

اس طرح وہ اپنے ذہن کو کند کرنا چاہتا ہے۔
مجھے کئی سالوں سے کندھے میں درد ہوتا ہے پہلے تو گردن میں تھا اس کے لئے کچھ دوا ودعا اور کچھ ورزش وغیرہ اپنائے تو اللہ نے کافی حد تک مہربانی فرمائی لیکن کندھے میں درد ہوتا ہے اور ہاتھ میں بھی ہوتا ہےجو بعض اوقات تو اگر فوری طور پر کسی چیز کے لئے وہ ہاتھ اٹھاؤں تو چھرا چبھتے جیسے ایک جھٹکا لگتا ہے کہ آنکھوں سے پانی نکل جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہی شافی وکافی ہے۔

یہاں ساتھیوں نے ایک ماہر کا انتظام کیا جو اس قسم کے درد کے لئے عرق النساء جسے عام لوگ بھی جانتے ہیں جو ایک ہی رگ ہے از فرق تابقدم یعنی پنجے سے لے کر سر تک اور ہاتھوں میں بھی چلا گیا ہے اور مختلف لوگوں کو اس کا درد کسی کو کمر میں، کسی کو گردن میں کسی کو ہاتھوں میں اور کسی کو رانوں میں ہوجاتا ہے ۔تو وہ ماہر پنجے سے لے کر سر تک جگہ جگہ اس کو اس سختی سے پکڑ لیتا ہے کہ موجود درد کو بھول جاؤ گے۔

توایک کمرے میں وہ مجھے وہ علاج کروارہا تھا ۔کوئی گھنٹہ بھر لگا اور تین چار ہفتے کیا یعنی ہر ہفتہ ایک بار۔تو پہلے دن جب فارغ ہوئے تو ہمارے ساتھی جو باہر بیٹھے تھے اس ماہرنے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ استاد مضبوط بندہ ہے نہ چیخا اور نہ رویا ورنہ آج تک مضبوط سے مضبوط لوگ بھی دیکھے اور کوئی بھی چیخے روئے بغیر نہ رہ سکا ۔تو میں نے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے استاد اور مذہبی رہنما ہیں ۔

تو میں نے کہا اب تمہارے سامنے چیختا یا روپڑتا تو یہ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا البتہ اب گھر جاکر زور زور سے روؤں گا بھی اور چیخوں گا بھی اس نے ایک زوردار قہقہہ لگا یا کہ
This is a good one
اور کہا کہ یہ بات تو اس سے بھی زیادہ انہونی اور عجیب ہے۔
تو اصل میں یہ دوست بھی مدتوں بعد وہ رونا رونا چاہتے ہیں کہ ماضی سے نکلنے کے لئے تیار نہیں۔


سنا ہے کہ روس بھی سی پیک میں شامل ہوگیا یا ہورہا ہے تو جس زمانے میں روس نہیں تھا بلکہ موجودہ روس سابقہ سوویت یونین کا ایک حصہ تھا البتہ لوگ اس کو روس ہی کہا کرتے تھے کہ وہی بڑا حصہ تھااور اس نے کئی ریاستوں کو ہڑپ کیا تھا ۔اب تو سوویت یونین آنجہانی ہوچکا ہے اور اس نے تو آن جہانی ہونا ہی تھا کہ غیر فطری انداز سے تسلط اور غیر فطری نظام اتنی طویل نہیں چلتے ۔

تو وہ تو مسلسل آگے بڑھ بڑھ کر ریاستوں کو ہڑپ کررہا تھا اور پندرہ کے قریب ریاستوں کو ساتھ ملایا تھا یہ توسیع پسندی اور تسلط اس کی تاریخ تھی تو یوں وہ افغانستان پر بھی جمپ کرگیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر ملک کے لئے گرم پانی ترقی کی ضمانت ہے کہ اس میں جہا ز رانی ہوتی ہے اور روز اول سے جب سے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے سمندر مسخر کیے ہیں
‘‘وسخر لکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخر لکم الانھار’’
کہ دنیا کی سب سے زیادہ تجارت اور مال برداری سمندری جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔

لیکن افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں یلغار کرنے والوں سے انکار کرتے ہیں ۔سکندر اعظم سے لے کر آج کےا تحادیوں تک انہوں نے وہ ٹکر لی اور بالعاقبت ان کو نکلنے پر مجبور کیا ۔اس مسئلے پر تو ہم کئی بار تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ خود اس کا حصہ رہے تھے تو اصلاً تومقابلہ افغانیوں نے از خود شروع کیا لیکن جب روس کے مقابل کی قوت نے محسوس کیا کہ وہ پھنس چکا ہے تو وہ آٹپکا کہ اس سے سارے حساب چکانے کے لئےیہی وقت ہے ۔

اب افغانی تو یلغار کا مقابلہ کررہے تھے اور پاکستان کی مجبوری تھی کہ روس تو صرف افغانستان کے لئے تھوڑا آیا تھا ۔گویا ساروں نے اپنے اپنے مفاد کو دیکھا اور یوں اکٹھ ہوگئی۔ اورسیاسیات میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ یا تو ایک محدود ایجنڈا پر اتفاق ہوتا ہے یا پھر ایک کام پر لیکن ہدف ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے ۔
؎ علی الصباح چوں مردم بروئے کار روند
بلاکشانِ  محبت   بہ کوئے  کار  روند
صبح سویرےمختلف انداز سے سارے لوگ دوڑتے ہیں اب رخ ان کا ایک ہوتا ہے لیکن منزل مختلف ہوتے ہیں۔

کوئی کام پر جاتا ہے، کوئی پڑھنے جاتا ہے، کوئی ہسپتال جاتا ہے ،کوئی کسی شادی غمی میں اور عاشق معشوق کی ایک جھلک دیکھنے ۔اور ان میں سے کوئی بھی مطعون نہیں چاہے وہ ایک ی گاڑی کو کھینچ رہے ہوں۔
اب نتیجہ نکلا کہ سوویت یونین نکلنے پر مجبور ہوگیا کہ اس کی اکانومی اور قوت دونوں جواب دے چکے تھے اور اب کے مقبوضہ علاقے اس کے دست سے نکلنے والے تھے اور جیسا کہ ہوتا ہے جنگ کے بعد بات چیت کے ذریعے راستہ نکالنا۔

کہ حقیقی جنگ میں تو بہت سارے تجربے ہوجاتے ہیں ۔دوسری جنگ عظیم میں رون رومیل جرمنی کے فیلڈ مارشل تھے۔ اس نے کہا کہ سچ مچ کی جنگ ایک دن کی بھی ہو تو وہ ایک سال کی مشقوں سے زیادہ ہوتی ہے۔یعنی اس میں گہرائی اور گھیرائی کا پتہ لگ جاتاہے کہ اب کرنا کیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے جنگ تو نہیں لڑنی۔ جنگ تو پیش آتی ہے یا کوئی اپنی حماقت سے اس کی ابتداء کرتا ہے جنگ میں تو یا خوردہ فروش خوش ہوتے ہیں یا بردہ فروش۔

جبکہ واقعتاً لڑنے والے پھر اس کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اور جو سائیڈ پر بیٹھ کر اس نام سے کھاتے رہتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ یہ ختم نہ ہو۔اس لئے جو اس میں پھنسا ہو وہ یا تو بات کرنا چاہتا ہے یا پھر ایسی فتح چاہتا ہے جس سے کہ مخالف زندہ رہے اور نہ مردہ۔
رہی بات کہ اس قسم کی رفاقتیں بنتی ہیں تو جیسا کہ ہم ے عرض کیا کہ یہ حالات ہوتے ہیں جو جنگوں میں چاہے وہ سیاسی ہو یا اسلحے کی اس میں یہ بنتی رہتی ہیں تاریخ اس کی گواہ ہے۔

اب اس سے کس کو انکار ہے کہ ہٹلر نے ایک قتل عام کیا تھا اور دنیا کو جنگ میں جونک دیا تھا۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے ایک بار اس کے لئے قوت کی دعا کی ۔کسی نےعرض کیا کہ اس سے ہمدردی؟تو فرمایا اس سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن جوہمارے اوپر مسلط ہے یعنی برطانیہ۔ہٹلر کی قوت اس کو کمزور کررہی ہے اور یہ کمزور ہوجائے توہندوستان چھوڑےگا ورنہ نہیں ۔

تو فرمایا دراصل اس کی قوت میں میرا اپنا مقصد ہے یعنی ہندوستان کی آزادی ۔
اور اس وقت روس جب مغرب کے مقابلے میں ابھرا تو حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ افغانستان اور وہاں سے پھر روس گئے کیا وہ وہاں سے سوشلزم لارہے تھے؟بالکل بھی نہیں بلکہ وہ اس سے سیاسی سپورٹ چاہتے تھے تاکہ ہندوستان کی آزادی کی راہ پیدا ہو ورنہ آپ نے تو کریمین میں بھی قرآن وسنت کے اقتصادی نظام کا تصور پیش کیا اور سٹالن نے کہا کہ یہ تو بہت عمدہ ہے لیکن ہم تواب سوشلزم میں اتنے آگے گئے ہیں کہ وہاں سے تو اب یوٹرن نہیں لے سکتے۔

لیکن جب سٹالن نے پوچھا کہ یہ نظام آج کہیں عملی بھی ہے؟تو حضرت سندھی ؒ خاموش رہ گئے۔اور حضرت سندھی رحمہ اللہ جب 1939ء میں واپس تشریف لائے تو کراچی میں جمعیۃ طلباء اسلام کے استتقبالیہ  میں فرمایا کہ میں نے دنیا دیکھی ،روس کا نظام دیکھا جو وہ اقتصاد کے حوالے سے کررہا ہے لیکن فطرت کے ساتھ اس کی مناسبت نہیں تو زیادہ سے زیادہ ستر سال میں یہ نظام دھڑام سے گرجائے گا اور وہ بندہ تو تھا قلندر تو واقعی سترہی سال بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور سوشلزم والے منڈی کی معیشت کی طرف لپک گئے۔

حضرت سندھیؒ نےفرمایا کہ ہم نے قرآن وسنت کے نظام کے لئے کوئی خطہ حاصل کرنا ہے تاکہ دنیا کو نمونہ پیش کرسکے کیونکہ یہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے تو بھاگ کے سوشلزم کی آغوش میں پناہ لے چکے ہیں لیکن اس غیر فطری نظام نے تو گرنا ہی ہے تو ان کے لئے اگر کوئی دوسرا نظام نہ ہو تو یہ تو واپس سرمایہ دارانہ نظام کی جھولی میں پکے پھل کی طرح گرجائیں گے اور گر ہی گئے۔


اب سی پیک میں شمولیت کے بعد کچھ احباب کو یاد آیا کہ وہاں جب سوویت یونین افغانستان میں آگیا اور ہم انتظار میں تھے کہ اب وہ تشریف لاکر ہمیں مشرف بخوشی کرجائیں گے لیکن وہ نہ آسکا تو درد تو ان کو ہوچکا لیکن وہاں وہ نہیں چیخے نہ روئے اب مدتوں بعد یہ اس کی قضاء کررہے ہیں کہ جو لوگ اس جہاد میں مرے ان کو کیا کہیں کہ روس تو گرم پانیوں میں آگیا جب کہ ہم تو اس کو گرم پانیوں سے رکوارہے تھے ۔

افغانیوں کے پاس تو خود گرم پانی نہیں تھا انہوں نے پانیوں سے کیا رکوانا تھا انہوں نے تو یلغار کرنے والوں کو للکارا۔ البتہ پاکستان کو اپنی فکر تھی کہ پانی تو ہمارے پاس ہے تو یہ تو افغانستان میں رکنے والا نہیں یہ تو ہمارے اوپر حملہ کرے گا ۔جبکہ باقی دنیا کو فکر تھی کہ اس کے پاس علاقہ توبہت وسیع ہے کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد تو دس سے زیادہ ریاستیں بن چکی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی اس کے پاس مضبوط ہے سو اس کو اگر پانی مل گیا تو پھر تو ہم گئے اور کچھ نہ ہو تو ہر وقت ہمارے لئے ایک خطرہ اور چیلنج تو رہے گا ہی رہے گا۔

اب اس وقت آتا تو بزور وجبر اور خود ہی مانیٹر ہوتا جیسا کہ باقی ریاستوں میں تھااور اب کے جو آیا ہے تو
1۔ ایک تو سوویت یونین نہیں آیا روس آیا ہے۔
2۔دوسرایہ کہ سوشلزم کا علمبردار نہیں منڈی کی معیشت والا آیاہے۔
3۔اور تیسرا یہ کہ درخواست اور عقدپر آیا یا دعوت پر آیا ہے۔
اب ایک کسی بندے کا مونچھوں کو تاؤ دے کر بندوق کولہرا کر کسی کے گھر میں گھسنا ہے تو گھر کا مالک اس کا نعرہ ہائے تکبیر وتحسین سے استقبال کرے گا؟یا اپنی پوری قوت لگاکر اسے واپس نکالے گا ۔

اور دوسرا جو درخواست کرکے آئے یا اسے دعوت دی جائے تو پھر اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے ۔دونوں آنے آنے ہیں لیکن نوعیت بالکل مختلف ہے ۔
ایک چھرا ہوتا ہے ڈاکوکے پاس اور ایک ہوتا ہے ڈاکٹر کے پاس۔اور ہر دو بدن کو کاٹتے ہیں اور دونوں کے کاٹ سے زخم بھی آتا ہے اور خون بھی نکلتا ہے لیکن ایک مفضی ہوتا ہے موت کو اور دوسرا سبب بن جاتا ہے علاج کا۔

ہردو کو ایک سمجھنا یا ڈاکٹر کے نشتر سے خود کو زخمی کروانے والے کو طعنہ دینا کہ زخم لگوانا تھا تو ڈاکو کا کیوں مقابلہ کیا ۔ایسے لوگوں کے عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ یہ اب مدتوں بعد اس درد کا رونا رورہے ہیں جو کئی سال پہلے ہوا تھا اور اب کس کا رونا ہے؟روس کا تو روس تواس وقت ایک ملک نہیں تھا بلکہ ایک ملک کا حصہ تھا جو سوشلسٹ تھا، اس کا ایک علیحدہ آئین تھا، علیحدہ جھنڈا تھا، علیحدہ نظام حکومت تھا علیحدہ نظام اقتصاد تھا وغیرہ وغیرہ۔

زمین تو وہی ہوتی ہے ملک بدل جاتا ہے آج کا پاکستان تو کسی زمانے میں ہندوستان تھا اور آج کا بنگلہ دیش کسی زمانے میں پاکستان تھا ۔اب تو نام بھی اور کام بھی اور آئین بھی اور نظام بھی علیحدہ ہیں  حالانکہ زمین تووہی ہے۔
تخیلات کی دنیا عجیب ہوتی ہے لیکن حقائق کی دنیا عجیب تر ہے ۔ماضی کی یادیں سہانی ہوتی ہیں لیکن زندگی حال میں گزرتی ہے اور مستقبل کا سوچتی ہے ۔

سیاست معروضی حالات میں راستہ نکالنے کا نام ہوتا ہے سایوں سے نہیں لڑاجاتا۔نیند سے بیدار ہونا پڑتا ہے ہروقت کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور جو وقت کے تقاضے سمجھتے نہیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں۔ہم اس میں لگے رہتے ہیں کہ کسی کو طعنہ دیں یاکسی کو ذلیل کیسے کریں چلو کرہی دیا تو تمہیں کیا فائدہ ہوا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک کام ہوگیا البتہ اس سے جو حاصل کرنا تھا وہ نہ ہوسکا یا الٹا ہوگیا ۔

تو دنیا تو نام ہے اس کا ۔کیا دنیا کے کامیاب لوگ ہر ہر کام میں کامیاب ہوتے ہیں یا وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔رسول پاکﷺ سے افضل تو کائنات میں تصور کرنا بھی ایمان کے منافی ہے اور پھر آپ ﷺ نے جو جماعت بنائی جس کی گواہی بلکہ سرٹیفیکیٹ خود رب کائنات نے دی کہ
‘‘اولئک ھم خیر البریۃ’’
لیکن قیصر روم نے آپﷺ کا خط ملنے کے بعد جب ابوسفیان سے پوچھا کہ کبھی آپ لوگوں کی جنگ بھی ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو کون کامیاب ہوتا ہے ؟تو اس نے کہا
‘‘الحرب بیننا وبینہ سجال فیوم لنا ویوم لہ’’
یعنی کبھی ہم کامیاب اور کبھی وہ کامیاب ۔


توقیصر نے کہا کہ انبیاء کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
اب بات ذرا مصالحہ تیز ہے لیکن پیشگی معذرت ۔بچوں کا ختنہ سنت ابراہیمی ہے ۔اب بچے کا ختنہ کرایا گیا اور خدانخواستہ زخم سیٹک ہوکے بچہ مرگیا تو کیا پھر ختنہ پر پابندی لگانی ہے؟کہ اس کیس کا حوالہ دیتے رہیں گے کہ نہیں نہیں فلاں بچہ مرگیا تھا ۔
اب بات وہی ہے کہ جو جو اللہ کے لئے لڑے اور مرے وہ شہید ہوئے اور جو زندہ رہے وہ غازی رہے ۔

نہ تو مرنے والے خسارے میں ہیں اورنہ زندہ رہنے والے ۔ہاں البتہ جو زندہ رہے ان کا وہ کام صحیح اور اس کے علاوہ کوئی غلط کام کرتا ہے تو وہ کام غلط۔اب آج کی ان کی غلطی کیو جہ سے تو ان کے کل کے خیر والے کام کو صفر میں ضرب نہیں دیا جاسکتا ۔ہم مسلمان ہیں الحمد للہ لیکن انسان ہونے کے ناطے ہم غلطیاں بھی کرتے ہیں ہم سے گناہ بھی ہوتا ہے کچھ اچھے کام کرتے ہیں ۔

اب ہمارا اچھا اچھا ہے اور برا برا ہے ۔کسی وقت بہت بڑااچھا کام کرنے سے کوئی پیغمبر تو نہیں بنتا پتہ نہیں ہمارا عقل کیوں کام نہیں کرتا ؟اس لئے کہ ہم نے پہلے سے ایک فکر اپنائی ہے اور پھر دور کی کوڑی لاکے اس کے لئے دلائل اور تائیدات ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔
آج ہی عزم کریں کہ میں نے کسی بھی بزرگ سے بزرگ شخصیت کو بھی معصوم نہیں سمجھنا اچھا سمجھنا ہے جبکہ معصوم صرف اللہ کے رسول ﷺہیں وہ آئیڈیل بھی ہیں، وہ رول ماڈل بھی ہیں تبھی اس جنجھٹ سے چھٹکارا مل جائے گا ۔

کسی کی توہین بھی نہیں کروگے نہ کسی کو معاذاللہ پیغمبر بناؤگے ۔یعنی آج سے سارے سوراخ بند کریں ورنہ چھلنی  کی پیاس کبھی نہیں بجھتی اس لئے کہ اس میں پانی ٹھہرتا نہیں ۔
اللہ ہمیں راہ راست پر لگاکے چلائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :