عمران خان کا دورہ امریکہ!

جمعرات 18 جولائی 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

وائٹ ہاؤس نے اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ 22جولائی کو وائٹ ہاؤس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خوش آمدید کہیں گے اس بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں دونوں ملکوں میں تعاون کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رہیگی جس کی وجہ سے خطے میں امن و استحکام اور معاشی خوشحالی کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔

بحیثیت وزیراعظم پاکستان عمران خان کا یہ پہلا امریکی دورہ ہے اس سے قبل امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ریکارڈ بک کے مطابق ایوب خان‘ضیاء الحق‘ذوالفقار علی بھٹو‘بے نظیر بھٹو‘جنرل (ر)مشرف اور نواز شریف پاکستان کے سربراہان کی حیثیت سے امریکی حکام کی دعوت پر امریکہ کے دورے کر چکے ہیں2015ء میں نواز شریف نے بحیثیت وزیراعظم امریکہ کا آخری دورہ کیا تھا جس کے بعد اب وزیراعظم عمران خان کو صدر ٹرمپ نے دورہ امریکہ کی دعوت دی ہے۔

(جاری ہے)

عالمی اور قومی میڈیا میں میں عمران خان کے دورہ امریکہ کو اس لئے بھی اہمیت دی جا رہی ہے کہ یہ ان کا پہلا دورہ ہے ماضی میں عمران خان امریکہ کے سخت ناقد رہے ہیں اور انہوں نے ڈرون حملوں کیخلاف بھر پور مہم بھی چلائی تھی۔صدر ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات کے ایجنڈا میں جن امور پر بات ہوگی ان میں انسداد دہشت گردی‘دفاع‘تجارت اور توانائی سمیت دیگر معاملات زیر غور آئیں گے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات کی راہ میں افغانستان حائل ہے امریکہ کا یہ الزام ہے کہ اسلام آباد حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی حمایت کرتا ہے واشنگٹن کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہ وہاں بیٹھ کر افغان حکومت کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ اسلام آباد کا یہ مئوقف ہے کہ امریکہ پاکستان کو بھارتی عینک سے دیکھتا ہے اور وہ افغانستان اور خطے میں نئی دہلی کو ایک اہم کردار دینا چاہتا ہے جس سے خطے کے امن کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہے۔

دراصل صڈر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے یا پھر ان کے خلاف کاررؤائی کرے دونوں صورتوں میں امریکہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے امریکہ کی دو عملی کے رخ کا جائزہ لیں ایک طرف تو وہ پاکستان سے افغان طالبان کیخلاف اقدامات کرنے کی بات کرتا ہے دوسری جانب دوحہ میں ان کا دفتر کھلوانے میں مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔

پاک امریکہ تعلقات میں کبھی بھی توازن نہیں رہا امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے امریکہ سے تعلقات استوار رکھنے کے لئے ساتھ دیا ۔سویت یونین کیخلاف امریکہ کی سرد جنگ ‘پشاور میں بڈھ بیر ہوائی اڈے کے استعمال کا حصول ‘امریکہ کے کہنے پر صدر نکسن کے دورہ چین کا انتظام سمیت پاکستان نے ہر موقع پر امریکہ کے مفادات سے جڑے معاملات کو اپنا کندھا پیش کر کے حل کیالیکن اس کے باوجود جب خطے میں پاک‘بھارت جوہری دھماکوں کی دوڑ شروع ہوئی تو امریکہ نے تمام تر قربانیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔

افغانستان میں مجاہدین کی فتح تک امریکہ کے پاکستان کیساتھ تعلقات اچھے رہے جونہی مشترکہ پراجیکٹ یعنی سویت یونین کو شکست ہوئی پاک امریکہ تعلقات میں دراڑ آگئی اور یہی وہ دور تھا جب امریکہ کی جانب سے ڈومور کے ایڈیشن کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ٹرمپ نے ڈومور کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے اپنی نئی حکمت عملی میں جنوبی ایشیاء کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی گئی کوششوں میں تیزی لانے کے لئے دباؤ ڈالیں گے جس سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ امریکی ڈومور کا تعلق صرف افغانستان میں سرگرم طالبان یا حقانی نیٹ ورک تک محدود نہیں بلکہ غاصب بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر میں سرگرم حریت پسندوں کیخلاف بھی مزید اقدامات چاہتا ہے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کہہ چکے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی دوسری جنگ پاکستان میں نہیں لڑنا چاہتا۔

پاکستان میں جب سے عمران خان کی حکومت بنی ہے امریکہ نے پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن عمران خان نے مزید ڈومور سے انکار کر دیا امریکہ اس وقت افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بری طرح پھنس چکا ہے اور امریکی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر وہ اپنی افواج کے انخلاء کو ممکن نہیں بنا سکتا اور امریکہ کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکہ کے علاؤہ اب پاکستان کے پاس دو آپشنز روس اور چین کی شکل میں موجود ہیں اس لئے امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کیساتھ تعلقات خراب کر کے افغانستان میں مزید اپنا نقصان کروائے۔

اٹھارہ سال سے امریکہ اپنے اتحادی افواج سمیت افغانستان میں جن مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے ان کا حصول اسے ممکن دکھائی نہیں دے رہا امریکہ اس جنگ میں سالانہ 45ارب ڈالر کے حساب سے اب تک 765ارب ڈالر جھونک چکا ہے امریکہ کا خیال تھا کہ وہ افغانستان میں بھاری انویسٹمنٹ کر کے یہاں سے معدنیات نکال کر پیسہ کمائے گا۔امریکہ کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ مل کر ایسا پلان کرے کہ وہ افغانستان میں رہتے ہوئے اپنی رقم پوری کر لے جبکہ پاکستان بھی افغانستان میں امن کا خواہاں ہے کیونکہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی جڑیں افغانستان سے جا ملتی ہیں۔

اگر امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کو ممکن بنا پایا تو جہاں امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا بلکہ امریکہ میں 2020ء میں ہونیوالے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ دوسری مدت کے لئے افغان جنگ کے خاتمہ کے نعرہ کیساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریں گے جس سے یقیننا ان کے جیتنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔عمران خان کا دورہ امریکہ کو اس بات کی کامیابی کی علامت بھی سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان کے تعاون سے امریکہ اور طالبان کے درمیان جو بات چیت جاری تھی وہ اب کسی نتیجہ پر پہنچ چکی ہے ۔

ان حالات کے تناظر میں اگر بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو دیکھا جائے تو اب بھارت کے امریکہ کے ساتھ اوباما دور جیسے مضبوط تعلقات نہیں رہے بھارت روس سے میزائل خرید رہا ہے ٹرمپ بھارت کے اس عمل کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھتے امریکہ نے بھارت کی مصنوعات پر ٹیرف لگایا یہ اب پاکستان کے لئے اچھا موقع ہے کہ وہ امریکہ سے اپنی برآمدات میں اضافے کی بات کر سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ فوجی امداد کی بحالی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے ساتھ قوم کی سائنس دان بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے ممکنہ بات چیت بھی ہو سکتی ہے شکیل آفریدی کے بدلے اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی مل جائے تو عمران خان کی حکومت کو اس کا بھر پور کریڈٹ جائے گا ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ان کا خاندان جس کرب سے گذر رہا ہے اس کا کسی کواندازہ نہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط بائیس کروڑ عوام کے جذبات ‘احساسات کا مجموعہ ہے ۔

بہر حال عمران خان کا دورہ امریکہ کس حد پاکستان کے حق میں کامیابیاں سمیٹتا ہے یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن دنیا اس وقت امریکہ اور روس کے درمیان لڑی جانیوالی پراکسی وار کی زد میں آچکی ہے اس جنگ میں پاکستان کی جانب سے اہم ترین کردار کسی بھی فریق کے حق میں پانسہ پلٹ سکتا ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو اس دورہ کے دوران پاکستان کے موجودہ حالات اورخطے کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :