
کیا یہ جمہوریت ہے؟
جمعرات 1 اپریل 2021

راؤ غلام مصطفی
(جاری ہے)
کہ پاکستان میں جمہوریت کس قدر مضبوط ہے۔اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف کچھ یوں بیان کرتی ہے۔
جمہوریت خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام ہے۔جو افراد اور اقوام کو ترقی کی راہ پر لیجاتا ہے۔اور معاشرہ میں بسنے والے افراد کو بنیادی حقوق سے آراستہ کرکے انہیں آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے۔لیکن پاکستان میں اسکے بر عکس صرف انتخابات کے انعقاد کو ہی جمہوریت سمجھا اور مانا جاتا ہے۔پوری دنیا میں جو ممالک جمہوری نظام سے منسلک ہیں۔وہاں گو اقتدار کی منتقلی کا طریقہ انتخابی عمل ہے۔لیکن صرف اس عمل کو مکمل جمہوریت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔بلکہ انتخابات کو جمہوریت کی چھلنی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔پاکستان میں حکمرانوں کے نزدیک صرف انتخابات میں ہی عوام کو شریک کرنا جمہوریت ہے۔موجودہ حالات میں ملک کا سیاسی نظام پچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار ہے۔اس ملک میں جس تواتر کیساتھ سویلین حکومتوں نے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا ہے۔اس سے ملک میں غیر جمہوری ہی نہیں بلکہ آمرانہ اقدار کو بھی فروغ ملا ہے۔پبلک پالیسی پر تحقیق کے ادارے پلڈیٹ نے اپنی تحقیق میں پانچ عناصر کی نشاندہی کی ہے۔جو پاکستان میں جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں۔جن میں حکومت چلانے کے شفاف نظام اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا‘ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان‘ سیاست میں بڑھتا ہوا پیسے کا عمل دخل‘ غیر فعال یا کمزور پارلیمان‘ اور جمہوری تسلسل کی اہمیت سے انکارشامل ہیں۔کسی بھی جمہوری حکومت کی بقاء کی مضبوط ضمانت اسکی گڈ گورننس میں ہوتی ہے۔ملک کے مجموعی موجودہ حالات حکومتی گڈ گورننس کی قلعی سر بازار کھولتے نظر آ رہے ہیں۔کرپشن‘ مہنگائی‘ غربت و بیروزگاری‘اقرباء پروری‘ لوڈشیڈنگ‘غیر مستحکم ریاستی ادارے‘ زبوں حال معشیت‘انصاف کی عدم دستیابی جیسے مسائل جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں سے جڑے ہوئے ہیں۔اس اپاہج جمہوریت کو اپنی گرہ سے باندھے ملک کی تین سو باون رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں ہر پانچ سال بعد ملکی وسائل اور خزانے پر نقب زنی کرنے کیلئے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرتی ہیں۔سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری رویوں کے فقدان کے باعث عوام کو حکمرانوں کے آمرانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بد قسمتی سے ملک میں موجود حق حکمرانی کی دعویدار بڑی سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔اور ان شخصیات کی قیادت کو پارٹی کے اندر کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔سیاسی جماعتوں میں جبر اور آمریت کی فضا ان پارٹیوں کو جمہوریت کا وہ مضبوط ستون نہیں بننے دیتں جو انکا اصل مقام ہے۔اور سیاسی جماعتوں میں موجود یہ رویہ نوجوان نسل کو بھی سیاست سے دور رکھنے کا باعث ہے۔ان تمام حالات میں افسوسناک منظر یہ ابھرتا ہے۔یہ سیاسی جماعتیں ووٹ کیلئے تو عوام کے دروازے پر دستک دیتی ہیں لیکن اقتدار کے حصول کے لئے سرحد پار قوتوں کے دروں پر در بدر نظر آتی ہیں۔آج بھی عوام کو فیصلے سازی کے عمل سے باہر رکھنے کیوجہ سے ملکی تاریخ کے اہم فیصلے عوام سے مخفی ہیں۔کبھی یہ فیصلے سعودی عرب کبھی برطانیہ اور کبھی واشنگٹن میں طے پائے جاتے ہیں۔جسکے باعث سیاسی عمل پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا چلا جا رہا ہے۔مجھے حیرت ہے ایسے جمہوری نظام پر جس نظام میں ووٹ کے تقدس اور عوامی مینیڈیٹ کی حفاظت نہیں‘انتخابی عمل کو آزادی اور شفافیت حاصل نہیں‘ ہر طبقہ کو برابر نمائندگی کا حق حاصل نہیں‘ ادارے غیر مستحکم اور ان میں گڈ گورننس قائم نہیں‘کرپشن و بد عنوانی کے تدارک کے لئے سیاسی‘انتظامی اور قانونی اقدامات نہیں‘اور معاشرہ میں بسنے والے افراد کے لئے روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات نہیں۔ایسے نظام کو میں جمہوریت تو نہیں آمریت کہہ سکتا ہوں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے محقق اینڈریس شیڈلر کے مطابق انتخابی آمریت ایک فوگی زون ہے۔جہاں جمہوریت کا سورج نہیں نکلتا۔پاکستان جیسے ملک میں انتخابی عمل کو ہی جمہوریت کہا جاتا ہے۔جبکہ پوری دنیا اسے جھوٹ اور فراڈ کہتی ہے۔محض الیکٹورل پراسیس یعنی چار پانچ سال بعد الیکشن میں چلے جانا جمہوریت نہیں ہے۔سٹینفورڈیونیورسٹی امریکہ کے پروفیسرلیری ڈائمنڈ جو پولیٹیکل سائنس پر ایک اتھارٹی ہیں۔اپنے آرٹیکلElection Without Democracy:Thinking About Hybrid Regimesمیں لکھتے ہیں۔کہ دنیا میں ایسے ممالک ہیں۔جہاں الیکشن ہوتے ہیں مگر عوام کو جمہوریت نہیں ملتی۔اکا دکا جمہوری چیزیں دینے سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جمہوریت ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت سے عوام کو کیا ملا۔انکو بنیادی حقوق ملے‘جانی تحفظ فراہم کیا گیا‘ نوجوان نسل کو روزگار دے کر قومی دھارے میں شامل کیا گیا‘ریاستی اداروں میں عوام کا عمل دخل کس حد تک ہے‘اورکیا عوام کو سوشل سیکورٹی دی گئی اگر یہ چیزیں جمہوری نظام میں نہیں پائی جاتیں تو ایسے نظام کو قطعا ہم جمہوری نہیں کہہ سکتے۔ملک میں قیادت کے فقدان کے باعث ستر سال گذرنے کے باوجود اس ملک کے ستر خاندان اس دھرتی پر آباد کروڑوں عوام کی قسمت کی فال نکالنے کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔آخر یہ فرسودہ اور خود ساختہ نظام کو کون بدلے گا کیا یہی خاندان سیاسی گدھ عوام کی شہ رگ سے یوں ہی لہو نچوڑتے رہینگے اور یہ عوام ہاتھوں پر ہاتھ دھرے اس نظام کی اصلاح اور اپنے مسائل کے حل کیلئے کسی آسمانی معجزے کی منتظر رہیگی تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھ لیں اگر ان حالات میں تاریخ کے اوراق معجزوں سے مزین ملیں تو پھر انتظار میں قباحت نہیں اگر نہیں تو پھر اپنی سمت درست کرنے کی اشد ضرورت ہے قوموں کے عروج و زوال انکے کردار و عمل سے جڑے ہوئے ہیں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھ لیں کہ کردار و عمل میں ہم کہاں کھڑے ہیں موجودہ حالات کی پرتوں کو کھول کر اسکا عمیق نظر سے مطالعہ کرکے دیکھیں کہ بحیثیت عوام ہم اس نظام کی تبدیلی کیلئے کس حد تک مخلص ہیں۔حکمرانوں کا طرز عمل اپنی جگہ لیکن اپنے آپکو بھی ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔اگر آپ جمہوریت اور تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔تو یاد رکھیں صرف انتخابی عمل آپکی گرہ سے مکمل جمہوریت نہیں باندھ سکتا اسکے لئے جارج برناڈ شاہ کے اس قول کو عمل کی سیڑھی دینا ہوگی جسمیں اس نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک ایسا عمل ہے۔جسکے تحت ہمیں ایسے ہی حکمران ملتے ہیں جسکے ہم لائق ہوتے ہیں۔لہذا اگر تبدیلی آسکتی ہے تو اسکا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے۔جب لوگ اپنی انفرادی اور خاندانی زندگیوں میں جمہوریت کو مستقل جگہ دینگے تو انکے حکمرانوں کو بھی جمہوریت کا پاس کرنا پڑے گا ۔۔۔!ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
راؤ غلام مصطفی کے کالمز
-
کثرت رائے کی خدمات ‘حکومتی چشم پوشی کیوں؟
بدھ 16 فروری 2022
-
کرناٹک واقعہ اوربھارت کا بھیانک چہرہ!
ہفتہ 12 فروری 2022
-
کشمیر:اقوام متحدہ بھارتی مظالم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے!
ہفتہ 5 فروری 2022
-
”ایک پیج پر“
جمعہ 4 فروری 2022
-
بلدیاتی نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کی ضرورت!
اتوار 23 جنوری 2022
-
بھارت میں نسل پرستوں کیخلاف نصیرالدین شاہ کی آواز!
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
اشک شوئی کی ضرورت!
اتوار 5 دسمبر 2021
-
موروثی سیاست اور جمہوریت!
منگل 2 نومبر 2021
راؤ غلام مصطفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.