ڈاکٹر اور ایس ایچ او

ہفتہ 17 اکتوبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

ڈاکٹر اور ایس ایچ او ہمارے معاشرے میں لازم و ملزم ہیں ۔دونوں شخصیات کی پیسے الگ الگ ہیں لیکن دونوں کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔پہلے کسی دور میں گاؤں کا چورہدری بطور تھانیدار فرائض انجام دیتا ہے اور حکیم طبیب وغیرہ ڈاکٹر تصور کیے جاتے ہیں لیکن وقت بدلنے کے ساتھ دونوں شعبوں میں جدت آتی گئی۔تھانیدار وقت کے ساتھ پاور ہوتا گیا اور ڈاکٹر کا معاشرے میں رول کم ہوگیا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر کی اہمیت کم نہیں ہوسکی۔

ایک دن اچانک ڈاکٹر اور ایس ایچ او کو اکٹھے ایک ہی جہاز میں سفر کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔اتفاق سے دونوں کی سیٹ بھی ایک ساتھ ہوتی ہے۔ایس ایچ او صاحب سعودی عرب عمرہ کرنے جارہے ہوتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب امریکہ میں نیا ڈاکٹری کا کورس کرنے جارہے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)


ایس ایچ او:اسلام و علیکم جناب کیسے ہیں اور کہاں جارہے ہیں آپ بھی کہی عمرہ کرنے تو نہیں جارہے؟
ڈاکٹر:وعلیکم اسلام جناب تھنک یو میں فٹ فاٹ ہوں ،جناب نہیں میں توامریکہ جارہا ہوں عمرہ کرنے نہیں جارہا ۔


ایس ایچ او:یہ فلائٹ سعودی عرب جارہی ہے اس لیے میں نے سمجھا آپ بھی عمرہ کرنے جارہے ہیں ۔ویسے امریکہ کیا لینے جارہے ہیں ؟
ڈاکٹر :جی میں ڈاکٹر ہوں اور ایک کورس کے سلسلے میں امریکہ جارہا ہے میرا یہ تین سال کا کورس ہے یہ کورس خصوصا امریکہ سے ہوتا ہے ۔
ایس ایچ او:آپ کسی سرکاری ہسپتال میں نوکری کرتے ہیں یا اپنا کلینک ہے ؟
ڈاکٹر :جی میں سرکاری ہسپتال میں نوکری کرتا ہوں اور میں حکومت کی طرف سے امریکہ میں ڈاکٹری کا نیا کورس کرنے جا رہا ہوں۔


ایس ایچ او: معذرت سے دنیا کے جس مرضی ملک سے کورس کرکے آجائیں آپ نے پاکستان واپس آکر پھر احتجاج کرنے ہیں دھرنے دینے ہیں ،او پی ڈی بند کرنی ہیں اور غریب مریض پھر ذلیل ہونے ہیں۔
ڈاکٹر :جناب ہم ڈاکٹر شوق سے احتجاج نہیں کرتے ہم حکومت کے ملازم ہیں لیکن جب ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو ہم احتجاج تو لازمی کریں گے اور دوسری بات ہم صرف اپنے حق کیلئے احتجاج نہیں کرتے غریب مریضوں کیلئے بھی احتجاج کرتے ہیں ۔

ابھی پیچھلے دنوں ہم نے پنجاب حکومت کے میڈیکل ٹیچنگ ایکٹ کیخلاف احتجاج کیا یہ ایکٹ غریبوں کیخلاف تھا اس میں ہمار اکوئی مفاد نہیں تھا۔اچھا جناب آپ کا کیا جاب کرتے ہیں؟
ایس ایچ او:جی میں پنجاب پولیس میں ملازم ہوں او ر بطور انسپکٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوں؟
ڈاکٹر:ماشاء اللہ آپ ایس ایچ او ہیں پھر تو آپ بہت ایمانداری سے عوام کی خدمت کررہے ہیں وہ تو میں اچھی طرح میڈیا پر دیکھ رہا ہوں ۔

ایک ہفتے سے پنجاب پولیس نے جس طرح سے گوجرنوالہ میں اودھم مچایا ہوا ۔اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم جلسہ تو گوجرنوالہ میں کررہا ہے لیکن پولیس لاہور میں نواز لیگ کے دفاتر ،ارکان اسمبلی،لوکل باڈی کے نمائندوں اور کارکنوں کے گھروں میں چھاپے مار رہی ہے۔یہ آپ لوگ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں؟
ایس ایچ او:دیکھیں جی ڈاکٹر صاحب ہم یہ سب کچھ شوق سے نہیں کررہے ہیں ۔

ہم تو حکومت کے آڈرز کے پابند ہیں جو ہمیں حکومت آڈر کرے گی ہم وہی کریں گے۔ہمارا کام صرف امن و امان کو برقرار رکھنا ہے۔ہماری طرف سے اپوزیشن جلسے کرے یا حکومت کرے۔
ڈاکٹر:آپ لوگوں نے کبھی سوچا نہیں کہ یہ سیاستدان پولیس کو ہمیشہ استعمال کرتے ہیں جب بھی کوئی واقعہ ہو تو سارا ملبہ پولیس پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ساہیوال میں ایک فیملی کا قتل اور معذور شخص صلاح الدین کا پولیس حراست میں قتل ۔

ان دونوں کیسز کا ملبہ حکومت نے پولیس پر ڈال دیا ۔آپ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی بار بار استعمال کیوں ہوتے ہیں ۔
ایس ایچ او:ڈاکٹر صاحب آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ سب کچھ ہمارے اعلیٰ افسرز کو سوچنا چاہیے وہ حکومت کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کریں اگر افسر انکار کریں گے تو یقینا ہمیں بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ہمیں بھی سیاسی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرنا اچھا نہیں لگتا ہمیں پتہ ہے اگر آج یہ لوگ اپوزیشن میں ہیں کل حکومت میں بھی ہو سکتے ہیں ۔


ڈاکٹر:اگر آپ کے افسر غیر قانون احکامات مانتے ہیں تو یقینا آپ کو بھی اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ آپ کے افسران کی تعیناتی میرٹ پر نہیں ہوتی افسر تو دور کی بات ایک ایس ایچ او بھی سفارش پر تعینات ہوتا ہے۔یہاں تو تھانوں کے بھی ریٹس ہیں ۔ایس ایچ او لگنے کیلئے سفارشیں کرائی جاتی ہیں رشوتیں دی جاتی ہیں ۔کرپشن اور رشوت پولیس اہلکاروں کے ساتھ بھرتی ہونے کے ساتھ ہی جوڑ جاتی ہے۔


ایس ایچ او :ڈاکٹر صاحب رشوت خوری ہمیں بھی پسند نہیں ہم بھی نہیں چاہتے کہ ہم اپنے بچوں کو حرام کھیلائیں ۔
ڈاکٹر:جناب یہ پولیس کی غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ روزانہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہور ہا ۔اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں میں پولیس کا خوف ختم ہو گیا ہے یہ خوف اس لیے ختم ہوا ہے کہ پولیس پیسے لے کر ملزم چھوڑ دیتی ہے یا تفتیش میں سستی کا مظاہرہ کرتی ہے اور ملزم آسانی سے عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں ۔

پولیس اگر اپنے حلف کی پاسداری کرے تو معاشرے کی تمام برائیاں ختم ہو سکتی ہے ۔آپ اگر پوری پولیس فورس کو ٹھیک نہیں کرسکتے تو اپنے پولیس اسٹیشن کو ٹھیک کرلیں اگر وہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم خود کو ٹھیک کرلیں۔
ایس ایچ او:ڈاکٹر صاحب میں آپ کی باتوں سے سو فیصد متفق ہوں اور کوشش کروگا کہ میرے تھانے کی حدود میں کسی سے زیادتی نہ ہو۔چلیں اب جدہ ایئر پورٹ آگیا ہے لہذا مجھے اجازت دیں۔
ڈاکٹر:مجھے امید ہے کہ آپ میری باتوں کو سنجیدہ لیں گے اور اپنے حلف کی پاسداری کریں گے۔انشاء اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :