خارجہ پالیسی اور مسئلہ کشمیر

اتوار 6 اکتوبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہریوں پر پابندیاں مزید سخت کر دیں اور جواب دینے کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی امور خارجہ کی معاون وزیر ویدیشا ماترا نے پاکستان وزیر اعظم کے خطاب کو نفرت انگیز قرار دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران دہشتگردی کی مذمت کی لیکن انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری کریک ڈاؤن بلیک آوٹ کا ذکر تک نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا ''دہشتگردی انسانیت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے دنیا کو کوئی یودھ نہیں دی بلکہ گوتم بدھ کے امن کا پیغام دیا، یہی وجہ ہے ہماری آواز دہشتگردی کے خلاف ہے تاکہ اس دنیا کو خبردار کیا جا سکے ''۔

(جاری ہے)


قارئین کرام! ''بغل میں چھری منہ میں رام رام ''۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے خطاب کا ذکر مذکورا بالا سطور میں اس لئے کیا تا کہ سمجھ سکیں بھارت دنیا کو کیسے گمراہ کر رہا ہے۔

کشمیری عوام پر مظالم ڈھانے والے دنیا میں بھارت کو امن پسند اور ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ یودھ اور بدھ کی بات کرنے والے کس حد تک زوال پذیر ہو چکے ہیں گاندھی جی کے 150ویں جنم دن کے وقع پر مہاتما گاندھی کے میوزیم میں سبزرنگ سے تصاویر پر غدار لکھ دیا گیا۔نا معلوم افراد نے یادگاری مقام میں داخل ہو کر گاندھی جی کی تصویر پر نا زیبا کلمات لکھے۔

ہندو انتہا پسند گاندھی جی کے نظریات سے شدید اختلاف کرتے ہیں اور ان پر پاکستان کی تخلیق کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
 1948ء میں ہندو شدت پسند نتھو رام گوڈسے جس نے گاندھی جی کو گولی مار کر قتل کیا تھا آج بھارت میں ہیرو ہے۔نریندرا مودی دنیا میں امن کی بات کرتا ہے جبکہ بھارتی گجرات میں بطور وزیر اعلیٰ بھیانک انکا کردار دنیا کے سامنے ہے۔

سیکولر بھارت آج بدل چکا ہے بی جے پی کے رہنما راجیشور سنگھ کا حال ہی میں ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا2021ء تک بھارت کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ سخت گیر ہندو جماعت آر ایس ایس کی شاخ کے سابق کنیونر راجیشور سنگھ نے کہا کہ ہمارا عہد ہے کہ 31دسمبر 2020ء تک سب کو ہندو بنا دیں گے۔ گاندھی جی کا بھارت آج مودی کی مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے۔

بھارت میں ہندو اکثریت کی جانب سے روز نئی متنازع کوششیں سامنے آ رہی ہیں اور بھارت میں ہندو انتہا پسند گروپس نے مذہبی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرد یا ہے۔ گجرات بھارت کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں پر مظالم کی ایک باقاعدہ تاریخ موجود ہے۔ وہاں پر قتل عام کے بعد مودی بھارت کا لیڈربن کر ابھرا۔ بھارتی وزارت اطلاعات کے ترجمان ناووپراسون سے پوچھا گیا کہ مودی سرکار لوگوں پر ہندو مذہب مسلط کر رہی ہے تو انہوں نے جواب د یا یہ ایک سیاسی معاملہ ہے وہ اس پر بیان نہیں دیں گے۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے گزشتہ پانچ برسوں میں بھارت میں مذہبی بنیاد پر نفرت انگیزی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر تو ایسا خطہ ہے جس کے بارے عالمی دنیا ستر برس سے آگاہ ہے اور یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے حل طلب مسئلوں میں سر فہرست ہے۔مذہب کی بنیاد پر ظلم کو مودی نے اندرونی مسئلہ قرار دے دیا اور کشمیر کو در اندازی سے جوڑ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پالیسی اختیار کی۔

جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے شہری امید ظاہر کر رہے تھے کہ دنیا کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو سکے گی۔5اگست سے جاری پابندیاں ختم ہو سکیں گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب میں دنیا کو واضح پیغام دیا مسئلہ کشمیر کے نتیجہ میں دنیا جنگ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ دھمکی نہیں فکر ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔

عالمی میڈیا اور پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کو خوب سراہا گیا۔ عالمی سطح پر کشمیر کے حوالہ سے پاکستان کو عوامی حمایت بھی حاصل ہے مگر حکومتوں سطح پر عالمی طاقتیں کھل کر پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آ رہیں۔ اقوام متحدہ کے 74ویں اجلاس میں ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے جموں و کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل کا ذکر کیا تو بھارت میں بائیکاٹ ملائیشیا کے ہیش ٹیگ کا آغاز ہوا۔

بھارتی رد عمل سب کے سامنے ہے۔ اس لئے ہمیں اب وزیر اعظم کے خطاب اور اجلاس سے آگے سفارتکاری پر بات کرنی چاہئے تاکہ دنیا کو اپنا موقف سمجھایا جا سکے۔ بھارت کے گھناؤنے کردار کو دنیا کے سامنے لانے کیلئے مضبوط سفارتکاری ضروری ہے۔ ملکی سطح پر برادر اسلامی ممالک کے معاشی مفادات کی بات کر کے وزارت خارجہ عوامی جذبات کو نظر انداز کر سکتی ہے، عالمی سطح پر حمایت کیلئے سفارتکاری ہی واحد راستہ ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کا حاصل جمع کیا ہے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کا موازنہ شہیدذوالفقار علی بھٹو کے انداز خطابت سے کیا گیا تو کیا پولینڈ کی قرار داد پھاڑنے کے عمل اور واک آوٹ سے سقوط ڈھاکہ روکا جا سکا۔۔؟
بلا شبہ پاکستانی قوم بھٹو کے ساتھ تھی اور آج مسئلہ کشمیر پر قوم عمران خان کی قیادت میں متحد ہے۔

عمران خان کے خطاب کو ذوالفقار علی بھٹو کے خطاب سے بھی بہتر قرار دے لیں لیکن قوم کو یہ ضرور بتائیں کہ پاکستا ن کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کار کردگی کیسی رہی۔۔۔؟ عمران خان کے خطاب کے انداز، الفاظ سبب بہترین، مگر یہ تو وضاحت فرمائیں اقوام متحدہ،برادر اسلامی ممالک اور عالمی طاقتوں کی حمایت میں ہم کس حد تک کامیاب رہے۔جارحانہ خطاب زیادہ اہم ہے یا بھارتی رویہ میں تبدیلی اور کشمیریوں کے لیے ریلیف ضروری ہے۔

۔؟وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کردار پر بات کیوں نہ ہو جب جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو تبدیل کر کے سابق سفارتکار ستر سالہ منیر اکرم کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وہ پہلے بھی 2002ء سے 2008ء تک اس عہدے پر کام کر چکے ہیں اس وقت ان پر گھریلو تشدد کا الزام سامنے آیا تھا۔ اب وہ دوبارہ سفارتکاری کا فریضہ انجا م دیں گے۔

اس تبدیلی کو معمول کی تبدیلی اور تعیناتی کہہ لیں لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کارکردگی کا جواب بہر حال ضروری ہے۔اقتصادی مفادات کا عذر پیش کر کے وہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے،مسئلہ کشمیر پر اہم عرب ممالک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔اور ہم عرب بھائیوں کے ساتھ۔
نریندرا مودی پر بھارتی اپوزیشن کا بھی الزام ہے کہ وہ کشمیر پر سچائی چھپا رہے ہیں۔

ہم اس سچ کو آشکار کیوں نہیں کر پاتے۔ بھارت کو اندرونی طور پر ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور مودی بات کرتے ہیں گوتم بدھ کی۔ بھارت میں چار سو مندروں کی بحالی کا نعرہ سامنے آتا ہے تو کبھی گائے کے نام پر انسان قتل ہوتے ہیں۔ عالمی ضمیر کیا اتنا مردہ ہو چکا ہے کہ اقتصادی مفادات کا ذکر کر کے ہم خاموش ہو جائیں۔ وزیر خاررجہ شاہ محمود قریشی سفارتکاری بہتر کرنے کی بجائے پاکستانی عوام کو عمران خان کے خطاب اور اپنی صفائیوں سے کیسے مطمئن کر سکتے ہیں۔

کیا عالمی ضمیر کے بارے اور دفتر خارجہ کے لیے پاکستانیوں کے ذہنوں میں سوال پیدا نہیں ہوں گے۔۔۔؟امریکی دفتر خارجہ کے سینئر اہلکار ایلس ویلس نے کہا کہ اگر پاکستان کی طرف سے سرحد پار کاروائیاں روکنے کے عزم پر کام ہوتا ہے تو پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔اس بیان سے ہی امریکہ کی پالیسی واضح ہے کہ وہ پاکستان کے موقف کو اہمیت دیتاہے یا بھارت کے موقف کو درست سمجھتا ہے۔

۔۔ وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے دورہ کی خوشی کو ورلڈ کپ کی جیت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ قارئین! امریکی دورے کی کامیابی کا پیمانہ کیا ہے۔۔۔۔؟ اب جذبات سے آگے نکل کر ہمیں عالمی طاقتوں کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چائیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مکار بھارتی قیادت کے امن پسند ہونے اور پاکستان کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دینے کے بھارتی پراپیگنڈہ کا موثر جواب دیا جائے۔

یہ صرف سفارتکاری ہی سے ممکن ہے اقتصادی مفادات کے عذر سے یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں۔
پاکستان کا دفتر خارجہ جتنا فعال ہو گا بھارت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔گوتم بدھ کی بات کرنے والا مودی بھارت میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو زندہ رہنے کا حق دینے پر تیار نہیں تو کشمیریوں کو انکے حقوق کیا دے گا۔الحمداللہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور یہ صلاحیت ہماری سلامتی کی ضمانت ہے مگر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی بہتر کر لے تو کوئی وجہ نہیں بھارت کے بڑھتے ہوئی ناپاک عزائم کو خا ک میں ملایا جا سکتا ہے۔

عالمی ضمیر کو جگانے کا بھی واحد طریقہ مسلسل بہتر سفارتکاری ہے۔ جذباتی خطابات اور اقتصادی مفادات جیسی اصلاحات سے بالا تر ہو کر خارجہ پالیسی کو از سر نو تشکیل دینا ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :