مسئلہ کشمیر اور بہتر خارجہ پالیسی

منگل 5 نومبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لاک ڈاؤن کو تین ماہ ہو گئے۔ خطہ دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔ تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز بند ہیں، خوراک اور ادویات کی قلت ہے۔کرفیو کے باوجود سری نگر، اننت ناگ، پلوامہ، بڈگام، گاندربل، شوپیاں، بارہ مولا میں کشمیری کرفیو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکلے۔ بھارت کے خلاف کشمیر میں آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں۔

بھارتی افواج مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس، شیلنگ اور پائلٹس گنز کا استعمال کر رہی ہے۔
حریت رہنما سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام کو محکوم نہیں کر سکتا، یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ مودی سرکار کے حالیہ اقدامات سے کشمیری عوام میں بھارت سے نفرت، ناراضگی اور مذمت کئی گنا بڑھی ہے۔

(جاری ہے)


بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے ہندو انتہا پسندوں کے بڑھتے اثرو رسوخ پر کہا کہ بھارت کو نئی تحریک اور نئے میڈیا کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ ان حالات میں ''میرا بھارت مہان ''کہنے سے قاصر ہوں، بھارتی مصنفہ نے اپنے میڈیا کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ بہت کم صحافیوں نے کشمیر کے حالات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔


مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے تین سابق وزراء اعلی فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت 450کشمیریوں پر سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے۔غیر انسانی پابندیوں اور کریک ڈاؤن سے عام کشمیری بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔72سالوں کے بعد جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ اسکا پرچم اور آئین بھی ختم کر دیا گیا۔

اب ایک اور وار کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر اور دلاخ کو تقسیم کرنے کے بعد بھارتی قوانین لاگو کر دیے گئے۔ اب دونو ں یونٹس کو نئے لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلایا جائے گا۔ زیادہ اختیارات دہلی کے پاس ہوں گے۔اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان روپرٹ کول ول نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

مقبوضہ کشمیر اورلداخ کی تقسیم پر چین نے بھی شدید رد عمل دیتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا۔
رواں ماہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھارت کا 3روزہ دورہ کیا۔ تمام تر اقتصادی مفادات اورباہمی تعاون کے معاہدوں کے بعد بھی جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی کہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اچھی نہیں اسے ہر صورت تبدیل ہونا چاہئے واضح رہے کہ جرمنی یورپ میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

انڈیا میں تقریباً 1700 سے زائد کمپنیاں کام رہی ہیں۔ بھارت اندرون ملک عوام میں پائی جانے والی بے چینی، انتہا پسند نظریات پر توجہ دینے کی بجائے پاکستان سے کشیدگی اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔بھارت میں حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ مودی سرکار بے محل بیان بازی کے سہارے معاملات کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ نے لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے کے فیصلہ کو سرمناک قرار دیا۔

مقامی سیاستدان مقبوضہ کشمیر کے حالات پر حکومتی اقدامات سے نالاں ہیں۔ اکثر کشمیر ی رہنما قید ہیں، لوگوں میں حکومت کے ان اقدامات کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔
عالمی برادری کو یہ تاثر دینے کیلئے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں یورپی پارلیمان کے 28ارکان پرمشتمل وفد کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروایا۔ بھارتی سرکار دنیا کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے۔

بھارت اور یورپ میں اس وفد پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے۔ یہ دورہ تنازعات کا شکار رہا۔بھارتی سیاستدان کانگرس کے رہنما جے رام مہیش نے ٹویٹ کیا جب بھارتی سیاست دانوں کو کشمیر میں لوگوں سے ملنے نہیں دیا جا رہا تو یورپی یونین کے سیاستدانوں کو اسکی اجازت کیوں۔۔؟ انہوں نے لکھا کہ یہ بھارت کے پارلیمان اور جمہوریت کی توہین ہے۔
یورپی یونین کے اس وفد میں زیادہ تر اراکین کی سیاسی جماعتیں اپنے ملک میں ہی بہت چھوٹی سطح کی پارٹیاں ہیں۔

ان اراکین کی اپنے ملک میں کوئی خاص پہچان نہیں۔ یہ دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے اور اسلام مخالف نظریات کے حامل سیاستدان تھے۔اس وفد میں شامل ہونے کا دعوت نامہ لیبر ڈیموکریٹک پارٹی برطانیہ کے رکن کرس ڈیوس سے اس لئے واپس لیا گیا کیونکہ انہوں نے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ پولیس یا فوج کی غیر موجودگی میں عام کشمیریوں سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔


مبصرین یورپی پارلیمانی وفد کو مودی سرکار کی ایک اور غلطی قرار دیتے ہیں۔ اجیت ساہی کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے انے ان چھوٹی پارٹیوں کے رہنماؤں کو کشمیر بھیج کر انہیں اہمیت دی یہ مودی کے حق میں بہتر نہیں۔ بھارت جموں و کشمیر کو متنازع تسلیم کرنے کے بعد اب دنیا کو دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے۔یہ طے شدہ فرضی دورے، پاکستان پر الزام تراشی اور اقتصادی جال کشمیر کیلئے بلند عالمی آواز کو دبانے کے طریقے ہیں۔

پاکستان اس صورتحال کا مقابلہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے اور بہتر سفارتکاری کے ذریعے ہی کر سکتا ہے۔
ناروے کی وزیر خارجہ مس اینے ایم ابرکس سوریدے کا نے جنوبی ایشیائی خطے کی موجودصورتحال میں تنازعہ کشمیر میں بیرونی سہولت کاری کے کردار کے امکان کو محدود قرار دیا ہے۔
اب پاکستان عالمی برادری کو بھارت کا حقیقی چہرہ دیکھانے کے لیے سفارتی کوششوں میں بہتری لائے۔

ایک ارب کی آبادی اورعالمی اقتصادی مفادات اپنی جگہ عالمی برادری کے سامنے اپنا مثبت کردار اور بھارتی جارحیت کو بہترسفارت کاری سے ہی واضح کیا جا سکتا ہے۔یو این او میں ایک تقریر سے مسئلہ کشمیر اور اصل حقائق دنیا کے سامنے نہیں آ سکتے۔ حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے مسلسل سفارت کاری ضروری ہے۔
آج بھارت کشمیر کی تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے نقشوں سے مطابقت نہ رکھنے والے نئے نقشے جار ی کرنا اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اب بھارت پاکستان سے مذاکرات پر اس وقت تک آمادہ نہیں ہوگا جب تک عالمی دباو اس پر نہیں بڑھتا۔
ہم ہفتہ وار یکجہتی کشمیر منانے کے بعد مطمئن ہیں کہ حل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کو مزید گمبیر بنارہا ہے موجودہ خارجہ پالیسی میں بہتری لانا وقت کا تقاضا ہے۔ بصورت دیگر بھارت کی اقوام عالم کو مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے گمراہ کرنے کی کوششوں سے معاملات مزید خراب ہونگے۔اور مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کا سلسلہ بھی رکنے والا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :