عدالتی فیصلہ اورہماری ذمہ داری

منگل 31 دسمبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے پر جہاں عوامی رد عمل سامنے آیا وہاں کئی سوالات نے بھی جنم لیا۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بحث مباحثے ہوئے۔ فیصلہ کے قانونی پہلو، پرویز مشر ف کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست، یہ سب قانونی معاملات ہیں۔ قانونی سوالات کا جواب وکلاء ہی بہتر دے سکتے ہیں جسٹس مظاہر علی، اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا فل بنچ 9جنوری 2020ء کو اس درخواست کی سماعت کرے گا جو پرویز مشرف کے وکیل نے دائر کی ہے۔

ان قانونی معاملات پر تبصرہ راقم الحروف کا دائرہ اختیار نہیں۔ اس فیصلہ کے سیاسی اثرات اور رد عمل پر بات کی جائے تو مناسب ہے۔
سابق صدر ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آنے پر سب سے پہلے سول سوسائٹی کی جانب سے رد عمل آیا فوج اور پرویز مشرف کے حق میں ریلیاں، ملک گیر احتجاج، حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بھی واضح پوزیشن لی۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم نے کھل کر پرویز مشرف کی حمایت کی۔

اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کو جمہوریت سے جوڑنے کی کوشش کی۔ سیاستدانوں کا کام ہی سیاست کرنا ہے۔ میاں نواز شریف کی لندن روانگی ہو یا مریم نواز کی سزا معطلی، پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آ جائے تو عدلیہ کا کردار قابل تعریف، اور عدلیہ آزادہے۔ ستم ظریفی اگر یہی عدلیہ وزیر اعظم نواز شریف کو انٹر نیشنل سکینڈل پانامہ لیک میں سزا سنائے تو مجھے کیوں نکالا کی باز گشت، بغض سے بھرے جج، فیصلہ عوامی عدالت میں ہو گا۔

نواز شریف کی شخصیت کے سامنے عدلیہ کا وقار، ادارے کا تقد س کچھ بھی اہم نہیں۔بس فیصلہ وہ ہے جو مرضی و منشا کے مطابق آئے۔ ہائے رے قسمت جمہوریت کے محافظ نواز شریف کی پارٹی کا سپریم کورٹ پر حملہ کرنا، جسٹس ملک قیوم کو براہ راست ہدایت دینا، جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پنجاب کی حاکمیت قبول کرنا، وہ جنرل ضیاء الحق کے مشن کی تکمیل کے عہدو پیماں،اب جمہوریت کے علمبردار، نواز شریف ایک نظریہ ہے۔


بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ فیصلے پر افواج پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔ افواج پاکستان توقع کرتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا۔فوج کارد عمل سامنے آنا فطری ہے۔ سیاست سے بالا تر ہو کر افواج پاکستان بحیثیت ادارہ ملک کا سب سے مضبوط قابل اعتماد، قابل فخر ادارہ ہے۔

عام آدمی افواج پاکستان سے محبت کرتا ہے۔تحفظ پاکستان کی ضامن پاک فوج نے اپنے مثالی کردار سے یہ اعتماد حاصل کیا۔ یہاں تک کہ عام فہم اور سطحی سوچ کا حامل پاکستانی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ فوج میں ڈسپلن ہے، ادارے میں اندرونی چیک اینڈ بیلنس کا بہترین انتظام ہے۔ شخصیات نہیں ادارے کی اہمیت ہے، ادارے کا تقدس سب سے اہم ہے۔ ایسا تاثر ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتاکہ سربراہ ادارہ غدار ہو۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا جنرل پرویز مشرف نے چالیس سال سے زائد وطن عزیز کی خدمت کی ملک کیلئے جنگیں لڑیں وہ کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔
قارئین کرام! اس فیصلہ کو سیاسی تناظر میں دیکھیں تو کوئی اس بات کی تردید کرسکتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار میں آنا کیا میاں نواز شریف کے غلط اقدام کا نتیجہ نہیں تھا۔۔؟ نواز شریف نے اپنی سیاسی حریف محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ سیاست نہیں بلکہ دشمنی نبھائی۔

اداروں کو ساتھ ملا کر ادارے متنازع کیے۔ ملکی اداروں کی بد نامی تک ہی نہیں بس کیا۔ آج تک خالد خواجہ کے وہ الزامات غلط بھی نہ ثابت ہوئے کہ نواز شریف اسامہ بن لادن سے بھی عہد و پیماں کرتیرہے۔ کیوں خاموش رہے نام نہاد جمہوریت پسند، ووٹ کو عزت دینے کی بات اس وقت کیوں نہ کی جب محترمہ بے نظیر کی منتخب حکومت کو ختم کیا گیا۔جمہوریت بھی جمہور کے دکھ نہ دیکھ سکی نہ سمجھ سکی۔

مگر یہ بات کیسے جھٹلائی جا سکتی ہے کہ پرویز مشرف کو بر سر اقتدار لانے کا سہرا نواز شریف کے سر ہے۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جب پرویز مشرف اقتدار میں آئے دیوالیہ کے قریب پہنچی ہوئی ملکی معیشت کو انہوں نے ہی ایک حد تک سنبھالا دیا۔ 9-11کے بعد بعض جزوی کمزوریوں کے ایک درست فیصلہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کیا تو نواز شریف سے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت کے نتیجہ میں نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ وہ تو اگر بینظیر کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آتا تو پرویز مشرف اقتدار سے باہر نہ ہوتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو نقصان ہی نقصان ہوا عظیم قائد سے محروم ہوئی، ووٹر نواز شریف کے ساتھ تعاون پر بد دل ہو کر عمران خان کی طرف دیکھنے لگا۔ نواز شریف کا کیا گیا۔ اقتدار بھی مل گیا اور قائد جمہوریت بھی بن گئے۔


 میاں نواز شریف کو فوجی اقتدار بھی منظور، جمہوری منصب بھی۔ شرط اول و آخر صرف اقتدار ہے۔ جدہ جانے کے لیے ڈیل بھی مل جاتی ہے اور طبی بنیادوں پر انکی ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔ قابل رشک قسمت ہے میاں محمد نواز شریف کی اور بدقسمتی اس قوم کی۔ نواز شریف نے بر سر اقتدار آتے ہی 2013ء میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کروایا۔وہ 2016ء میں طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے، انکا نام اس وقت نواز شریف نے ہی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کر کے باہر جانے کی اجازت دی۔

پرویز مشرف 3,4سال سے ملک سے باہر ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کیا ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ وہ خود عدالت میں کھڑے ہو کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دے نہیں سکتے۔کیا انہیں یہ موقع نہیں ملنا چاہئے۔۔۔؟پرویز مشرف نے فیصلے کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا تھا کہ ایسے فیصلے کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جو خصوصی عدالت کی جانب سے جاری کیا گیا۔

ملز م اور اسکے وکیل کو دفاع کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اور فورسز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یاد رکھا۔۔ یہ میرے لئے تمغہ ہے اسے قبر میں لے کر جاؤں گا۔
نعش کو لٹکانے کی خواہش، اور جمہوریت کے استحکام کی باتیں اس سارے پس منظر میں مجھے تو نظریہ ضرورت ہی لگتی ہیں۔ ترجمان پاک فوج کا یہ بیان جس میں کہا گیا ''ملک پہلے ادارہ بعد میں '' بہت اہم ہے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر میجر آصف غفور نے خصوصی عدالت کے فیصلے میں استعمال کئے گئے الفاظ پر کہا یہ الفاظ مذہبی و اخلاقی اقدار سے بالا تر ہیں۔ فیصلے سے خدشات درست ثابت ہوئے۔ ہمارے لیے ملک پہلے ادارہ بعد میں ہے۔سول سوسائٹی اور علمائے اکرام نے بھی ان الفاظ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ متفقہ سوچ سامنے آئی یہ الفاظ انسانیت، مذہب اور تہذیبی اقدار سے بالا تر ہیں۔

ہمیں سوچنا چاہئے ہمارے ملک میں یہ حالات کیوں ہیں۔ ہماری قومی سلامتی کے مسائل جو گھمبیر بھی ہیں اور اس بات کے متقاضی بھی ہیں کہ اس امر کو مدنظر رکھا جائیکہ عوام کاافواج پاکستان پر اعتماد کم نہ ہو۔ افواج پاکستان پر عزم ہے کہ ملک میں انتشار نہیں پھیلنے دیں گے۔ ہمارا بھی فرض ہے ملک کو اس طرف لے جائیں جس سے ادارے مضبوط ہوں۔ خدا نہ کرے۔

۔ ہم تقسیم ہوں۔ جمہوریت، آئین، عدلیہ سب اہم ہیں۔ مگر شخصیت پرستی اور ذاتی عناد میں اتحاد، اداروں کو غیر مستحکم نہ ہونے دیا جائے۔ کسی کے کھیل کو آزادی سمجھ کر کوئی نادانی نہ کر بیٹھیں۔ تاریخ کا سبق بڑا تلخ ہے۔ بقول شاعر۔۔
 پھر ہوا یوں کہ بجھا چاند بھی چراغ کے ساتھ
سنا تو یہ تھا کہ سورج نکلنے والا ہے
جمہوریت کے ثمرات انقلابی نہیں ہوتے بلکہ ارتقائی ہوتے ہیں۔

جمہوری نظام میں بہتری لانے کی گنجائش ہے۔وطن عزیز میں سیاست ایک شخص کی انا اور ذات کے گرد محصور ہوجاتی ہے۔ذاتی وفاداری کو اہمیت دے کر فیصلوں میں من مرضی پراڑکر جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہمیں جمہوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔صرف عدالتی فیصلوں سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :