
عدالتی فیصلہ اورہماری ذمہ داری
منگل 31 دسمبر 2019

سلمان احمد قریشی
سابق صدر ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آنے پر سب سے پہلے سول سوسائٹی کی جانب سے رد عمل آیا فوج اور پرویز مشرف کے حق میں ریلیاں، ملک گیر احتجاج، حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بھی واضح پوزیشن لی۔
(جاری ہے)
ایم کیو ایم نے کھل کر پرویز مشرف کی حمایت کی۔
اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کو جمہوریت سے جوڑنے کی کوشش کی۔ سیاستدانوں کا کام ہی سیاست کرنا ہے۔ میاں نواز شریف کی لندن روانگی ہو یا مریم نواز کی سزا معطلی، پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آ جائے تو عدلیہ کا کردار قابل تعریف، اور عدلیہ آزادہے۔ ستم ظریفی اگر یہی عدلیہ وزیر اعظم نواز شریف کو انٹر نیشنل سکینڈل پانامہ لیک میں سزا سنائے تو مجھے کیوں نکالا کی باز گشت، بغض سے بھرے جج، فیصلہ عوامی عدالت میں ہو گا۔نواز شریف کی شخصیت کے سامنے عدلیہ کا وقار، ادارے کا تقد س کچھ بھی اہم نہیں۔بس فیصلہ وہ ہے جو مرضی و منشا کے مطابق آئے۔ ہائے رے قسمت جمہوریت کے محافظ نواز شریف کی پارٹی کا سپریم کورٹ پر حملہ کرنا، جسٹس ملک قیوم کو براہ راست ہدایت دینا، جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پنجاب کی حاکمیت قبول کرنا، وہ جنرل ضیاء الحق کے مشن کی تکمیل کے عہدو پیماں،اب جمہوریت کے علمبردار، نواز شریف ایک نظریہ ہے۔قارئین کرام! اس فیصلہ کو سیاسی تناظر میں دیکھیں تو کوئی اس بات کی تردید کرسکتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار میں آنا کیا میاں نواز شریف کے غلط اقدام کا نتیجہ نہیں تھا۔۔؟ نواز شریف نے اپنی سیاسی حریف محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ سیاست نہیں بلکہ دشمنی نبھائی۔ اداروں کو ساتھ ملا کر ادارے متنازع کیے۔ ملکی اداروں کی بد نامی تک ہی نہیں بس کیا۔ آج تک خالد خواجہ کے وہ الزامات غلط بھی نہ ثابت ہوئے کہ نواز شریف اسامہ بن لادن سے بھی عہد و پیماں کرتیرہے۔ کیوں خاموش رہے نام نہاد جمہوریت پسند، ووٹ کو عزت دینے کی بات اس وقت کیوں نہ کی جب محترمہ بے نظیر کی منتخب حکومت کو ختم کیا گیا۔جمہوریت بھی جمہور کے دکھ نہ دیکھ سکی نہ سمجھ سکی۔مگر یہ بات کیسے جھٹلائی جا سکتی ہے کہ پرویز مشرف کو بر سر اقتدار لانے کا سہرا نواز شریف کے سر ہے۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جب پرویز مشرف اقتدار میں آئے دیوالیہ کے قریب پہنچی ہوئی ملکی معیشت کو انہوں نے ہی ایک حد تک سنبھالا دیا۔ 9-11کے بعد بعض جزوی کمزوریوں کے ایک درست فیصلہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کیا تو نواز شریف سے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت کے نتیجہ میں نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ وہ تو اگر بینظیر کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آتا تو پرویز مشرف اقتدار سے باہر نہ ہوتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو نقصان ہی نقصان ہوا عظیم قائد سے محروم ہوئی، ووٹر نواز شریف کے ساتھ تعاون پر بد دل ہو کر عمران خان کی طرف دیکھنے لگا۔ نواز شریف کا کیا گیا۔ اقتدار بھی مل گیا اور قائد جمہوریت بھی بن گئے۔
میاں نواز شریف کو فوجی اقتدار بھی منظور، جمہوری منصب بھی۔ شرط اول و آخر صرف اقتدار ہے۔ جدہ جانے کے لیے ڈیل بھی مل جاتی ہے اور طبی بنیادوں پر انکی ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔ قابل رشک قسمت ہے میاں محمد نواز شریف کی اور بدقسمتی اس قوم کی۔ نواز شریف نے بر سر اقتدار آتے ہی 2013ء میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کروایا۔وہ 2016ء میں طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے، انکا نام اس وقت نواز شریف نے ہی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کر کے باہر جانے کی اجازت دی۔پرویز مشرف 3,4سال سے ملک سے باہر ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کیا ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ وہ خود عدالت میں کھڑے ہو کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دے نہیں سکتے۔کیا انہیں یہ موقع نہیں ملنا چاہئے۔۔۔؟پرویز مشرف نے فیصلے کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا تھا کہ ایسے فیصلے کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جو خصوصی عدالت کی جانب سے جاری کیا گیا۔ ملز م اور اسکے وکیل کو دفاع کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اور فورسز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یاد رکھا۔۔ یہ میرے لئے تمغہ ہے اسے قبر میں لے کر جاؤں گا۔
نعش کو لٹکانے کی خواہش، اور جمہوریت کے استحکام کی باتیں اس سارے پس منظر میں مجھے تو نظریہ ضرورت ہی لگتی ہیں۔ ترجمان پاک فوج کا یہ بیان جس میں کہا گیا ''ملک پہلے ادارہ بعد میں '' بہت اہم ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر آصف غفور نے خصوصی عدالت کے فیصلے میں استعمال کئے گئے الفاظ پر کہا یہ الفاظ مذہبی و اخلاقی اقدار سے بالا تر ہیں۔ فیصلے سے خدشات درست ثابت ہوئے۔ ہمارے لیے ملک پہلے ادارہ بعد میں ہے۔سول سوسائٹی اور علمائے اکرام نے بھی ان الفاظ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ متفقہ سوچ سامنے آئی یہ الفاظ انسانیت، مذہب اور تہذیبی اقدار سے بالا تر ہیں۔ہمیں سوچنا چاہئے ہمارے ملک میں یہ حالات کیوں ہیں۔ ہماری قومی سلامتی کے مسائل جو گھمبیر بھی ہیں اور اس بات کے متقاضی بھی ہیں کہ اس امر کو مدنظر رکھا جائیکہ عوام کاافواج پاکستان پر اعتماد کم نہ ہو۔ افواج پاکستان پر عزم ہے کہ ملک میں انتشار نہیں پھیلنے دیں گے۔ ہمارا بھی فرض ہے ملک کو اس طرف لے جائیں جس سے ادارے مضبوط ہوں۔ خدا نہ کرے۔۔ ہم تقسیم ہوں۔ جمہوریت، آئین، عدلیہ سب اہم ہیں۔ مگر شخصیت پرستی اور ذاتی عناد میں اتحاد، اداروں کو غیر مستحکم نہ ہونے دیا جائے۔ کسی کے کھیل کو آزادی سمجھ کر کوئی نادانی نہ کر بیٹھیں۔ تاریخ کا سبق بڑا تلخ ہے۔ بقول شاعر۔۔
سنا تو یہ تھا کہ سورج نکلنے والا ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.