چار لوگ عقل کل نہیں

جمعہ 13 مارچ 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان میں سیاسی تبدیلی مشکل اور نئی بات نہیں۔میدان سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔نظریہ،وفاداری، اصول، علاقائی و قومی مفاد، نظریہ ضرورت اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر جمہوریت کے استحکام اور وقت کے تقاضہ کے مطابق فیصلہ کرنا ہی دانشمندی ہے۔ یہ الفاظ عام پاکستانی کے لیے نئے نہیں۔۔۔حقیقی معنوں میں نہ ہی جمہوریت مستحکم ہے نہ نظریاتی سیاست مضبوط، عوام منشور کو ووٹ دیتے ہیں نہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہے۔

سیاسی رہنما بھی اپنا پروگرام عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں نہ ہی عوام پالیسی سازی میں دلچسپی لیتے ہیں۔عقل، غور و فکر کی جگہ جذباتی نعریاور مخالفین کی تذلیل ہی سیاست کا چلن ہے۔پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے۔

(جاری ہے)

عوامی حمایت شخصیات سے منسوب ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں 2008ئکے الیکشن کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی سیاسی جماعت نے بطور حکمران پارٹی اپنی پانچ سال کی آیئنی مدت پوری کی۔

2013ئمیں الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) اور 2018ء میں پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنی آئینی مدت پوری کی تو اس کے پیچھے آصف علی زرداری کی فہم وفراست تھی۔ نواز شریف تو ججز بحالی کے لیے سڑکوں پر آگئے تھے اور میمو گیٹ سکینڈل پر عدالت جا پہنچے۔جبکہ انہی کے دور اقتدار میں دھرنا کے دوران آصف علی زرداری نے ایک دفعہ پر پارلیمنٹ کے ذریعے مسلم لیگ کی حکومت کو مضبوط کیا۔

اب ملک پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے اور اسے کسی بڑے سیاسی چیلنچ کا سامنا نہیں۔پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) دونوں جماعتوں نے اپنے اقتدار کی آئینی مدت ضرور پوری کی مگر کوئی بھی وزیر اعظم پانچ سال پورے نہیں کر سکا۔ عدالتی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔قانون کی بالادستی پر کوئی سوال نہیں لیکن وزیر اعظم سیاسی طور پر تبدیل ہوتے تو بہتر ہوتا۔

ماضی سے نکل کر حال میں دیکھیں تو عمران خان کا چہرہ ہے اس سے آگے کچھ واضح نہیں۔بلاول بھٹو ضرور اپنی پارٹی کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔آصف علی زرداری علیل ہیں۔مسلم لیگ (ن)کی لیڈر شپ ماضی کی طرح اقتدار سے باہر ہونے کے ساتھ ملک سے بھی باہر ہے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی عدم موجودگی نے اپوزیشن کو تقسیم اور کمزرو کیا۔آج عام آدمی حکومت سے پریشان ہے تو اسکی امیدوں کا مرکز اپوزیشن ہی ہو سکتی ہے مگر اپوزیشن متحرک نہیں۔

اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔انکی اپنی پارٹی میں لیڈر شپ کی عدم موجودگی سے بے چینی پھیلتی نظر آرہی ہے۔ مریم نواز کی جانب سے خاموشی مسلم لیگ کے ووٹروں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اب بلند نہیں ہوتا۔بلاول بھٹو تنہا اپوزیشن کر رہے ہیں جبکہ پی پی پی پنجاب میں بہت کمزور پوزیشن میں ہے۔سندھ کی حد تک پی ٹی آئی، پی پی پی سے مقابلہ نہیں کر سکتی مگر پنجاب میں مسلم لیگ کی چھتری سے پرندے اڑ رہے ہیں۔

پارٹی کے اندر سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔لوگ پوچھتے ہیں اپوزیشن لیڈر کہاں ہیں۔حالیہ پارٹی اجلاس کی مبینہ کہانی بتا رہی ہے کہ شہباز شریف کی سیاست پارٹی کے اندر دوسرے درجے کی لیڈر شب کوقابل قبول تو ہو سکتی ہے لیکن عوام کو پسند نہیں۔صابر شاہ کے حوالہ سے بات کی جائے توانھوں نے واضح کہا کہ ن لیگ کے بیانیہ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور پارلیمانی کارکردگی پر عوام افسوس کر رہے ہیں۔

محسن رانجھا نے بھی شہباز شریف کی واپسی کا مطالبہ کیا۔پارلیمانی پارٹی میں خوب گرما گرمی ہوئی جس میں پارٹی پالیسی پر تنقید کی گئی۔جاوید لطیف نے کہا چار لوگ عقل کل نہیں۔
قارئین کرام! یہ چار لوگ کون ہیں۔واقف حال ان کا نام بھی جانتے ہیں۔ہمارے اس کالم کا موضوع بھی یہ چار لوگ ہی ہیں جو ہر پارٹی میں موجود ہیں۔ مقامی سطح پر اور صوبائی قیادت میں بھی۔

۔۔۔چار لوگ جو عقل کل نہیں ہوتے لیکن کل کو مفلوج کر دیتے ہیں۔لیڈر شپ کو غلط لائن پر لے جانے اور ان کے غلط رویے کا دفاع کر کے پارٹی کے مخلص ساتھیوں کو کمزور کرتے ہیں۔ ان کے نام سے واقف ہوتے ہیں تو کام سے بے خبر رہتے ہیں۔کام سے آگاہ ہو جائیں تو نام نہیں لیتے۔ اس طرز عمل کے تحت پارٹیاں عوامی امنگوں کے مطابق سیاست کرنے کی بجائے وقت کے انتظار میں ہی رہتی ہیں۔

جمہوریت، عوام کی ترجمانی اور صیحیح راہنمائی کا فریضہ کوئی ادا نہیں کرتا۔ یہی ہماری سیاست کا المیہ ہے۔سیاسی جماعتوں کے ا ستحکام کی بجائے شخصیات پرستی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ نظریاتی مخلص کارکنوں کو عزت نصیب ہوتی ہے نہ عوام کے ہاتھ کچھ آتا ہے۔ طاقتور شخصیت برسر اقتدار تو آجاتی ہے لیکن جمہوریت کو استحکام میسر نہیں۔چار کی اہمیت کی بجائے مشاورت کا اصول اپنایا جائے گا تو عوام اقتدار میں شریک ہو سکتے ہیں۔بصورت دیگر نظام چلتا آرہا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا۔سیاسی تبدیلی تو کسی وقت بھی آسکتی ہے حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :