''ویلے دی نماز تے کویلے دی ٹکراں''

بدھ 15 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

13جولائی کو عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس ایڈہانوم نے متنبہ کیا ہے کہ ہم ان ممالک میں متاثرین میں خطرناک اضافہ دیکھ رہے ہیں جہاں خطرے کو کم کرنے کے لیے ثابت شدہ اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بہت سارے ممالک غلط سمت کی طرف جارہے ہیں۔کئی رہنماوں کے ملے جلے بیانات وبائی مرض کو قابو کرنے کی کوششوں پر پانی پھیررہے ہیں۔

اگر بنیادی باتوں پر عمل نہیں ہوتا تو صرف ایک ہی راستہ باقی ہے جس سے صورتحال خراب سے خراب ہوتی جائے گی۔وائرس کنٹرول کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کرنے والے افراد کو با اختیار بنانا ہوگا تاکہ وہ انفرادی طور پر ایسے اقدامات اٹھا سکیں جسکی ضرورت ہو۔
قارئین کرام! کورونا وائرس سے عالمی معیشت غیر یقینی کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

تمام ممالک کو معاشی نقصانات کا سامنا ہے۔

بے روزگاری میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، عوام میں اندرونی خلفشار کے امکانات ہیں۔جو سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔پاکستان سمیت تمام ممالک میں یہ چیلنجز درپیش ہیں۔ اب یہ حکومتوں کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح کم سے کم نقصان پر عوام کی جان کو معیشت پر فوقیت دیتی ہیں۔کورونا وبا کب ختم ہوگی کوئی بتا نہیں سکتا۔ اس سے نجات پانے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔

جب تک موثر ویکسین کی تیاری اور دستیابی نہیں ہوتی دنیاکو صحت اور معیشت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دانشمند قیادت اپنی عوام کو محفوظ بنانے کے لیے نیوزی لینڈ کے اقدامات کو بھی سامنے رکھ سکتی ہے اور امریکہ، برطانیہ کی صورتحال میں بھی ایک سبق ہے۔امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو غیر سنجیدہ لیا۔ مسخرہ پن اور غرور کے نتیجے ابتک امریکہ میں سب سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔

دنیا بھر میں معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے بتدریج لاک ڈاون کھول دیا گیا۔مختلف ممالک میں معاشی اور صحت کی سہولیات ایک جیسی نہیں لیکن جہاں بھی سیاسی قیادت نے بر وقت فیصلے نہیں لئے وہاں صورتحال خراب ہوئی۔سب سے زیادہ کیسز امریکہ، برازیل، بھارت میں رپورٹ ہوئے۔ملکی آبادی اورمعیشت کو پیش نظر رکھتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ لیڈر شپ کے صحیح اور بروقت فیصلوں نے نقصان کو کم سے کم کیا۔

چین کی آبادی1 ارب 43کروڑ 93لاکھ سے زائد ہے لاک ڈاون کی پالیسی اور سیاسی نظام کے مختلف ہونے کی وجہ سے حالات خراب نہیں ہوئے۔ریاست کے کنڑول نے عوام کو حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے پر مجبورکیا۔ سب سے بڑھ کر کورونا پر سیاست نہیں کی گئی۔اس وقت دنیا میں متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 34لاکھ سے زائد ہے۔جبکہ ہلاکتیں 6لاکھ کے قریب ہیں۔دنیا بھر میں ایک بار پھرکورونا پھیلاو میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔

جبکہ دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے عالمی فاقہ کش، غربت، افلاس اور بے روزگاری کے بارے بھی اعداد و شمار جاری کر رہے ہیں۔ دنیا کو دوہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان بھی ایسی صورت حال سے دوچار ہے۔ کورونا پھیلاو، معاشی مسائل کے ساتھ سیاسی کشیدگی بھی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔کورونا وباء کے آغاز پر وفاقی حکومت نے اس مشکل کو نظر انداز کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور متفقہ پالیسی تاحال وضع نہ ہو سکی۔وفاق اور صوبہ سندھ مدمقابل محسوس ہوئے۔ لاک ڈاون پالیسی کو مسترد کرکے وفاقی حکومت نے سمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی اختیار کی۔ یہی نہیں صوبہ سندھ اور دیگر صوبوں میں ٹیسٹنگ کی شرح میں بہت فرق ہے۔مریضوں کی تعداد اور شرح اموات میں بھی فرق ہے۔ اس مختلف صورتحال کو سمجھنے اور ماہرین کی رائے کو اہمیت دینے کی بجائے سیاست کے نام پر وفاق اور صوبہ سندھ کی حکومتیں یکسرمختلف موقف رکھتی ہیں۔

لاک ڈاون پر وزیراعظم عمران خان تنقید کرتے ہیں تو بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا کہ ٹیسٹنگ کم ہورہی ہے جسکی وجہ سے مریضوں کی صحیح تعداد سامنے نہیں آرہی۔ اس الزام کی تصدیق اس خبر سے بھی ہوتی ہے کہ پنجاب میں ٹیسٹنگ گنجائش سے 60فی صد کم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ٹیسٹنگ کے لیے 18سرکاری جبکہ 16نجی لیبارٹریاں فعال ہیں۔

18سرکاری لیبارٹریوں کی یومیہ ٹیسٹنگ کی صلاحیت 8040ہے جبکہ اوسطا 5812ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔16نجی لیباٹریوں کی یومیہ ٹیسٹنگ صلاحیت 8430ہے جبکہ 2363ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ لاک ڈاون، امداد کی تقسیم گویا ہر قدم پر سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان لفظی جنگ جارہی۔ کورونا پھیلاو میں کمی نہیں آرہی بھارت میں ایک دن میں 29ہزار کیسز جبکہ دنیا میں 2لاکھ 30ہزار 370کیسز رپورٹ ہوئے۔

ڈبلیوایچ او کے مطابق لاک ڈاون نرم کرنے والے ممالک میں وائرس دوبارہ پھیل رہا ہے احتیاط نہ کی گئی تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔
ان اعدادوشمار اور ڈبلیو ایچ او کی تنبیہ کے باوجود حکومتیں راست اقدامات نہیں اٹھاتی تو تباہی کی ذمہ دار ہی ٹھہرائی جائیں گی۔ سیاست اور سیاسی بیان بازی کے لیے آئندہ وقت آئے گا ابھی انسان بچالیں سیاست بھی بچ جائے گی اور معشیت بھی بہتر ہو جائے گی۔

دنیا غلط سمت جارہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ '' ویلے دی نماز تے کویلے دی ٹکراں'' والا معاملہ نہ ہوجائے۔ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کو نظر انداز کرنا قطعی دانشمندی نہیں۔ سمارٹ لاک ڈاون کے تخلیق کار کریڈیٹ لینے کے چکر میں ملک کو مشکلات کے گرداب میں نہ پھنسادے۔ اب بھی وقت ہے طبی ماہرین کو اہمیت دیں یہ مارکیٹ کھلوانے کے لیے تاجروں کا پریشر اب شادی ہالز کھلوانے کے لیے احتجاج انسانی جانوں سے زیادہ اہم نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :