کیا ایک اور کھلاڑی۔۔۔؟

جمعہ 28 اگست 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

سندھ بھر میں موسلادھار بارشوں سے زندگی مفلوج ہوگئی۔اگست کے دوران ہونے والی بارشوں کا 60سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔رواں ماہ 25تاریخ تک کراچی میں 345 ملی میڑ بارش ریکارڈ کی جاچکی ہے۔سندھ کے دیگر شہروں میں جیسے حیدر آباد میں 134ملی میڑ، میر پور خاص میں 172ملی میڑ، ٹھٹہ میں 82ملی میڑ، بدین میں 110ملی میڑ اور مٹھی میں 147ملی میڑ بارش ہو چکی ہے۔

منگل کے روز پی اے ایف ائیر بیس کے علاقہ میں 118ملی میڑ بارش ریکارڈ کی گئی۔ایک مقام پر اگست کے مہینے میں زیادہ بارش کا نیا ریکارڈ ہے۔اربن فلڈنگ کی وارننگ بھی جاری کی گئی۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی۔ پاک فوج کے جوان اور سندھ رینجرز کے اہلکار امدادی کاروائیوں کے لیے شہری انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کے الیکڑک کے گرڈ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے بھی فوجی جوان تعینات ہیں۔مختلف حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوا۔
کراچی کے مسائل کو لیکر سیاست تو ایک عرصہ سے جاری ہے۔کبھی وفاقی حکومت کی طرف سے آوازیں بلند ہوتی ہیں، تو کبھی اپوزیشن جماعتیں لسانیت کی بنیاد پر کراچی کو تقسیم اور بلدیاتی اداروں کے بے اختیار ہونے پر سیاست کرتی آرہی ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں گزشتہ 12سال سے برسراقتدار ہے۔ مسائل کا ذکر ہر طرف مگر کراچی کی اونر شپ لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
حالیہ بارشوں کے ساتھ جھوٹ کی برسات، فیک نیوز سوشل میڈیا پر بھارت، بنگلہ دیش کی ویڈیو تصاویر بھی کراچی کے نام پر اپ لوڈ۔ کراچی کے حوالہ سے الیکڑونک میڈیا پر بھی بحث، دعوے تجزیے جاری ہیں۔اس بحث میں عام آدمی، سیاسی جماعتیں، سماجی کارکن اور اداکار بھی شامل رہے۔

سیاسی جماعتوں کا تو کام ہی سیاست ہے۔ سیاست نام ہے عوامی خدمت کا، مگر وطن عزیز میں سیاست صرف اقتدار کے حصول کا ذریعہ ہے۔ سیاست میں لسانیت کا نعرہ، تو کبھی مبینہ طور پر گٹر کے ڈھکن غائب کرنے والی سماجی تنظم سیاسی جماعت میں تحلیل، عالم آن لائن بھی سیاست میں، مسلک کے نام پر سیاسی دکان ہر طرف سیاست ہی سیاست۔۔ الزامات، دعوے مگر مسائل جوں کے توں ہیں۔

کراچی کے مسائل کا علم سب کو ہے مگراسکا حل کس کے پاس ہے۔۔۔؟
قارئین کرام! سیاستدانوں کی طرف سے کراچی پر سیاست عام فہم بات ہے، لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کا یہ کہنا کہ کراچی کے حالات پر اب خاموش رہنا مجرمانہ خاموشی ہے۔ ملک کو سب سے زیادہ آمدنی دینے والا کراچی انتظامیہ کی سب سے بڑی ناکامی ثابت ہوچکا۔ سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں شاہد آفریدی نے کہا ''دل خون کے آنسو روتا ہے''۔

شاہد آفریدی کرکٹ کے میدان میں کارکردگی کی بنیاد پر نہیں میڈیا کے سہارے ایک سٹار کے طور پر موجود رہے۔مقبول ترین کرکٹ فارمیٹ T20میں شاہد آفریدی کی اوسط 17.92ہے جبکہ مصباح الحق کی اوسط 37.52رنز ہے۔ مصباح الحق کو میڈیا نے ایک سست رفتار پلیئر اور شاہد آفریدی کو بوم بوم کے طور پیش کیا۔ پرفامنس میں مصباح الحق ایک بڑا کھلاڑی ہے مگر مقبولیت میں عمران خان کے بعد شاہد آفریدی دوسرے نمبر پر آتا ہے۔

کارکردگی اچھی نہ ہونے کے باوجود وہ طویل عرصہ ٹیم کا حصہ رہے۔398 ون ڈے کھیل گئے، اوسط صرف 23.58رنز ہی ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ شاہد آفریدی کی باتیں بھی غیر اہم یا غیر سیاسی نہیں ہوسکتیں۔عمران خان بھی بطور کھلاڑی اپنے عروج کے وقت جنرل ضیاء الحق کے قریب رہے۔ شاہد آفریدی بھی دیگر ہم عصر کھلاڑیوں کے مقابلہ میں لاڈلے رہے۔ عمران خان نے سیاست سے پہلے سماجی خدمات کا انتخاب کیا۔

پھر انکار اور بلآخر سیاست میں ہی آئے اور آج وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔شاہد آفریدی بھی اسی راستہ کے مسافر معلوم ہوتے ہیں۔
کھیل کے بعد سیاسی میدان میں اننگز شروع کرنے والے کھلاڑیوں کی لسٹ طویل ہے۔ بھارت کے منصور علی خان پٹودی پہلے کرکٹر تھے جو سیاست میں آئے۔پاکستان کے حفیظ کاردار، سرفراز نواز، عامر سہیل، بھارت کے گوتم گھمبیر، نوجوت سنگھ سدھو، محمد اظہر الدین، ونود کمبلے، محمد کیف، کیرتی آزاد، ایس سریسانت، چیتن چوہان، منوج پابھاکر، سری لنکا کے ارجنہ رانا ٹنگا، جیاسوریا،ہشان تلکارتنے جبکہ بنگلہ دیش کے مشرافیی مرتضی عوامی لیگ کی طرف سے سیاست میں کامیاب آغاز کرچکے ہیں۔

راقم الحروف شاہد آفریدی کی سیاست میں انٹری کا منتظر ہے۔میری دانست میں شاہد آفریدی سیاست میں متحرک ہونے کا فیصلہ دیر یا سویر ضرور کریں گے۔ پاکستان کی سیاست میں موجودہ حالات میں بہت گنجائش ہے۔مستقبل میں بلاول بھٹواور مریم نواز کے مدمقابل نوجوان لیڈر کی جگہ بنتی ہے۔
کراچی کے حوالہ سے شاہد آفریدی کی باتیں سیاسی ہیں وہ کہتے ہیں گھروں میں صبح سے بجلی نہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گلیاں پانی سے بھرگئی ہیں، لوگ ڈوب رہے ہیں، گٹر ابل رہے ہیں, کچرا بستیاں نگل رہا ہے، بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں مکمل ناکام ہوچکی ہیں۔

کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نے رہنے کے لیے اس شہر کا انتخاب کیا۔۔؟یہاں کے لوگ ٹیکس دیتے ہیں لیکن انتظامیہ کون سی ذمہ داری پوری کرتی ہے؟
یہ سیاسی باتیں توہو گئیں، اس میں شک بھی نہیں کہ کچرا بہت بڑا مسئلہ ہے مگر کوئی یہ بتائے کہ جب ہم لوگ اپنے گھروں سے کچرا اٹھا کر باہر پھینک دیں گے تو کس طرح دنیا کی کوئی بھی حکومت اس کچرے کو ٹھکانے لگا سکتی ہے؟۔

نالوں پر تجاوزات، تعمیرات کیا حکومت نے اپنی خواہش پر کراوئیں۔۔۔؟۔گجر نالا دس فٹ بھی نہیں رہا کراچی کے رہائشی اس پر گھر بناکر بیٹھ گئے۔ کیا شہریوں کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا سب حکومت نے ہی کرنا ہے۔ کیا شاہد آفریدی نہیں جانتے کہ کے پی کے سے کتنی تعداد میں ہجرت کراچی کی طرف ہوئی۔ کس طرح ملک بھر سے روزگار کے لیے کراچی پر نقل مکانی کرکے آنے والے پاکستانیوں کا دباو ہے اس صورتحال میں منصوبہ بندی ممکن ہی نہیں۔

کراچی کنکریٹ کا جنگل بنتا چلاگیا۔ اب حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے انتظامیہ کی ناکامی کی بات بہت آسان ہے مگر فہم سے عاری ہے۔ سیاسی طور پر شہر تقسیم، مینڈیٹ منقسم ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سندھ واحد صوبہ ہے جہاں بلدیاتی ادارے کام کرتے رہے۔ ندی نالے تجاوزات سے محفوظ نہیں ایسے میں معمول کی بارشیں بھی مسائل پیدا کر یں گی۔اب معمول سے زیادہ بارشیں ہورہی ہیں تو زیادہ پانی آگیا۔

جب زیادہ پانی آئے گا تو نکاسی میں مسائل تو ہونگے۔یہ برسات تو گزر ہی جائے گی مگر اسکے بعد گیارہ موسم اور ہیں۔ نئے پاکستان میں تو بارہ موسم ہیں۔ آج کے مسائل کی وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور بلدیہ سب ذمہ دار ہیں، مگر عام آدمی بھی بری الذمہ نہیں۔
مصطفےٰ کمال کے ساتھ شاہد آفریدی آگے آئیں، تنقید یا باتیں توآسان ہیں مگر کام بہت مشکل ہے۔کتنے کرکٹر ہیں جو ریٹاریڑمنٹ کے بعد عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ مسائل کا ذکر نہیں انکے حل کے پلان کے ساتھ آپ مکمل طور پر سامنے آئیں۔ معلوم یہ پڑتا ہے کہ ایک کھلاڑی اور میدان سیاست میں آنے کی تیاری کر رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :