''بدامنی اور عالمی یوم امن''

جمعرات 24 ستمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں نے انسانی زندگی اور تاریخ کے اہم پہلووں کے بارے کئی بین الاقوامی دن مقرر کر رکھے ہیں۔21ستمبر کو اقوام متحدہ نے اس دن کو منانے کا اہتمام کیا۔اس دن کو منانے کی شروعات1981ء میں کی گئی۔عالمی یوم امن کا مقصد دنیا میں امن کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔ امن کے تصور کو تقویت دینے کے لیے اس دن یہ توقع کی جاتی ہے کہ کم از کم 24گھنٹے پرامن گزارے جائیں اور اگر کسی جگہ جنگ جاری ہے تو ایک دن کے لیے سیز فائر ضرور کیا جائے۔

جنرل اسمبلی میں بیل بجاکر اس دن کا آغاز کیا جاتا ہے اور دن 12بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک امن کے خواہش مند ہیں۔لیکن قابل غور تو یہ امر ہے کہ امن کے حصول کے لیے کیااقدامات کیے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔؟2020ء کے عالمی یوم امن کا موضوع تھا ''مل کر امن کی تشکیل''۔اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس سال یہ پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں۔

بلکہ مشترکہ دشمن ایک انتھک وائرس ہے جو ہماری زندگی، صحت اورسلامتی کے لیے خطرہ ہے۔COVID-19 نے ہر جگہ ہماری زندگیوں پر اثر ڈالا۔
قارئین کرام! یہ خواہشات، نیک جذبات اور خوبصورت پیغامات ایک طرف مگر دنیا میں امن کے لیے بہت بڑا خطرہ علاقائی اور عالمی بالادستی کی خواہش ہے۔ ظلم ہو اور امن بھی ہو ایسا ممکن نہیں۔کشمیر، فلسطین جیسے دیرنیہ مسائل کے حل تک امن ایک خواب ہی رہے گا۔

کشمیریوں پربھارت کے مظالم اور اسرائیل کی جارحانہ عزائم کی تکمیل میں عالمی طاقتیں خاموش ہی نہیں بلکہ ملوث بھی ہیں۔افغانستان، شام، عراق، جنوبی سوڈان، یمن، صومالیہ، لیبیا سمیت کئی ممالک بدامنی کا شکار ہیں۔
عالمی یوم امن پر افغانستان میں بدترین بدامنی جاری رہی۔10صوبوں میں طالبان سے شدید جھڑپوں میں 42اہلکاروں سمیت 64افراد ہلاک ہوئے۔

شمالی صوبہ تخار میں چیک پوسٹ پر طالبان کے حملے میں افغان فوج کے 6اہلکاراور 3پولیس افسر ہلاک ہوگئے۔قندوز، بلخ، اور کیپسا میں جھڑپوں میں 13سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔کابل میں دودھماکوں میں 1بچہ ہلاک اور 4افراد زخمی ہوئے۔بامیان اور گیزاب میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں ان جھڑپوں میں 22طالبان بھی ہلاک ہوئے۔
افغانستان میں بد امنی گزشتہ چالیس سال سے جاری ہے۔

سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے سے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ آج امریکی افواج کی موجودگی میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔افغانستان کے ساتھ خطہ کواس بدامنی کی ایک بھاری قیمت اداکرنی پڑی پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان اور عام پاکستانیوں نے بہت قربانیاں دیں۔کشمیری 1947ئسے بھارتی مظالم کے خلاف سڑکوں پر
 احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

فلسطینی اسرائیل کے سامنے جھکنے پر تیار نہیں۔ امریکہ بہادر جو امن کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے اس نے عراق، لیبیا، افغانستان میں بربادی کا انتظام کیا۔ اپنے مفادات کے لیے پوری دنیا کے امن کو برباد کرنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کی بھرپور حمایت، سرپرستی کی۔ جبکہ بے گناہ کشمیریوں کے لیے عملی حمایت پر تیار نہیں۔

امریکہ ہی نہیں اسکے اتحادی سب عالمی امن کے لیے سیمینارز، ورکشاپ کے اہتمام، اجتماعات اور ریلیوں، کنسرٹ، فیسٹیول، ایک دن ایک منٹ کی خاموشی، مراقبہ اور دعا کے زریعے دنیا میں امن لانا چاہتے ہیں۔ جبکہ محفل موسیقی، محافل، اجتماعات یا خوبصورت بیانات امن کا راستہ نہیں ہوسکتے۔امن صرف انصاف میں پنہاں ہے۔۔۔۔حق خودارادیت کو تسلیم کرنے، کمزور ریاستوں اور غریب ممالک کی آزادی کا احترام کرنے، مسائل کے حل کے لیے مذاکرات اور لچک دکھانے سے ہی معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔


ماضی کی غلطیوں میں بہت سے عالمی کردار اور ممالک حصہ دار ہیں، کچھ زیادہ اور کچھ کم۔
جنوبی ایشیاء کا علاقائی تھانے دار بھارت ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحیت کا خواہشمند ہے مگر اس کے خلاف اقوام متحدہ، امریکہ سمیت عالمی طاقتیں خاموش ہیں۔کشمیر لہو لہو ہے۔ جبکہ دنیا 21ستمبر کو عالمی یوم امن منانے تک محدود ہے۔کب تک ہم ماضی کی ناکامیوں کا ماتم کرتے رہیں گے۔

۔۔؟کب عالمی طاقتیں ماضی سے سبق سیکھیں گی۔۔۔؟وقت اور عالمی یوم امن کا تقاضا ہے کہ حال کی تعمیر کریں اور مستقبل پر نظر رکھیں۔عزت سے جینے کا واحد راستہ انصاف کے حصول اور حق کے ساتھ کھڑے رہنے میں ہے۔ریاستی مفادات یا وقتی فائدے عالمی امن کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔جنگ کو مستقل روکنے کے لیے تمام تصفیہ طلب مسائل کے فوری حل تک جایا جائے۔دنیا میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کیاجائے۔ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔اسلحہ سازی اور فروخت میں کمی لائی جائے۔معاشی مفادات کو انسان اور انسانیت پر ترجیح نہ دی جائے تو عالمی امن کا حصول آسان ہوگا۔اگر سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو 21ستمبر ہر سال آئے گا اور اسطرح ہی گزرجائے گا اور امن خواب ہی رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :