
"پاکستانی شناخت اور آذربائیجان "
اتوار 11 اکتوبر 2020

سلمان احمد قریشی
برسبیل تذکرہ حیدر علیوف کے بارے چند سطور لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔حیدر علیوف 14جولائی 1969ء سے 3دسمبر تک کیمونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکرٹری کے طور پر سوویت آذربائیجان کی قیادت کرتے رہے۔1993ء میں آذربائیجان کی آذادی کے بعد دوبارہ ملک کی قیادت سنبھالی۔ ہمسایہ ملک آرمینیا کے ساتھ ناگورنوقرہباخ کے مسئلہ پر جنگ کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا۔
(جاری ہے)
حالیہ دنوں میں آذربائیجان ، آرمینیا کے ساتھ تنازعے کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں توجہ کا مرکز ہے۔ پاکستان میں عام آدمی ان دونوں ملکوں کے بارے زیادہ معلومات نہیں رکھتا۔صرف سیر و تفریح کے حوالہ سے باکو کا ذکر اب ٹورازم انڈسڑی میں ضرور ہونے لگا ہے۔ کیمونسٹ روس کی دو آزاد ریاستوں میں وجہ تنازعہ ناگورنو قرہباخ کا متنازع علاقہ ہے۔حالیہ برسوں میں ناگورنو قرہباخ پر دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی سخت ترین لڑائی ہے۔1988ء سے 1994ء تک آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ جاری رہی۔2016 ء میں آذربائیجان کچھ علاقوں پر قبضہ لینے میں کامیاب ہوا۔آذربائیجان ایک عرصہ سے اپنے علاقوں کی بازیابی کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود آرمینیا آذربائیجان کے تسلیم شدہ علاقوں سے اپنا فوجی تسلط ختم کرنے پر تیار نہیں ہوا۔علاقائی سیاست کی وجہ سے یہ تنازع مزید پیچیدہ ہوگیا۔
آذربائیجان میں سیاسی احتجاج بھی دیکھا اور نچلی ترین سطح پر کرپشن بھی عام دیکھی۔جس امرکو سب سے زیادہ محسوس کیا وہ تھا آذری عوام کا جذبہ حب الوطنی۔۔۔آذری جوان اپنی شناخت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔مادر وطن کے لیے لڑنے پر تیار اپنی افواج سے محبت کرتے ہیں۔باکو میں قیام کے دوران آزری دوستوں نے اس احساس کو اجاگر کیا کہ میں شیعہ ، سنی مسلمان تو پاکستان میں ہوں ، وہاں میری ایک ہی شناخت ہے اور وہ یہ کہ میں پاکستانی ہوں۔۔۔صرف پاکستانی۔
پاکستان کے بارے انکی معلومات رسمی تھی ۔بھارت کی فلمیں اور کلچر سے وہ ضرور آشنا تھے۔ پاکستان کو پسند کرتے تھے تو صرف اس لیے کہ پاکستان ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان کی افواج اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن ملک کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کا کشمیر اور آذربائیجان کا ناگورنوقرہباخ کے مسئلہ پر ہمسایہ ممالک سے تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ آذری قوم عسکری قوت کی اہمیت کو خوب
سمجھتی تھی۔
ملکی اداروں کے معاملہ میں آذری قوم کو بہت حساس پایا۔ وہاں سیاسی نظام میں دھاندلی بھی ہے ، جبر بھی، موروثی سیاست بھی اور کرپشن بھی مگر حکومت وقت الزام تراشی سے آگے ایک قوم بنانے میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔حکومت کے حمایتی صرف اس بات پر خوش نہیں کہ
قیادت ہینڈ سم ہے اور خود کو ایماندار سمجھتی ہے۔۔ایسا کوئی فخر وہاں موجود نہیں ۔۔۔۔فقط ایک جذبہ سب پر غالب ہے وہ ہے وطن سے محبت ۔۔!
اذری مسلم اکثریت کا عقیدہ فقہ جعفریہ ہے۔ ایران سے سرحد بھی ملتی ہے مگر ایران کھل کر آذربائیجان کے ساتھ نہیں۔آذربائیجان کے تعلقات اسرائیل سے تعاون پر مبنی ہیں۔ترکی کھل کر آذربائیجان کے ساتھ ہے۔ اس تعاون پر آذربائیجان میں آذری پرچموں کے ساتھ ترکی کے پرچم لہراتے ہیں۔آج سفارتی اور اخلاقی حمایت پر باکو میں تیسرا جھنڈا بھی نظر آرہا ہے اور وہ ہے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم۔۔۔ آذربائیجان کی عوام نے پاکستان سے محبت کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا کہ مجھے 2002-2003ء کا وہ زمانہ یاد آگیا جب باکو کا کوئی بھی جوان مجھ سے ملتاتو ریشن زبان میں میرے ملک کا نام جاننے کے لیے سوال کرتا۔۔۔میرا جواب تھا پاکستان ۔ سب خوش ہوتے پھر دوسرا سوال نہیں ہوتا تھا کہ میں کون ہوں ۔۔۔بس سب مجھے پاکستان ہی سمجھتے ۔ باکو میں 14اگست کے دن پاکستانی سفارت خانہ میں پاکستانی سفیر محمد حفیظ سے ملاقات بھی یاد ہے ۔مجھے شکایت تھی کہ ہمارا سفارت خانہ فعال نہیں۔ مگر آذربائیجان کی عوام نے اس سوچ کو مضبوط کر دیا تھا کہ میں پاکستان ہوں اور پاکستان کا سفیر بھی ہوں
اور پاک فوج ہمارا فخر ہے ۔
تین دہائیوں پرانے مسئلہ کے حل کے لیے اب روس میں آرمینیا اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ ایک میز پر بیھٹے ہیں۔ ادھر آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اپنی قوم سے خطاب میں کہا کہ آرمینیا کو نگورنوقرہباخ کے تنازع کے پر امن حل کا آخری موقع دیا جارہا ہے اور اپنے علاقے ہر حال میں واپس لینے کا عہد بھی کیا۔
آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پاشنیان نے کہا کہ انکا ملک بین الاقوامی ثالثوں کی نگرانی میں امن عمل دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہے۔27ستمبر سے شروع ہونے والی کشیدگی میں اب تک 300سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ روسی وزیرخارجہ سرجی لیوروو نے ماسکو میں دس گھنٹے کے طویل مذکرات کے بعد معاہدے کا اعلان کیا کہ فائر بندی عمل میں آئے گی اور باضابطہ مذکرات ہونگے۔
قارئین کرام ! آذربائیجان نے عالمی برادری کو یہ باور کروادیا کہ امن کی خواہش کمزری نہیں ہوتی اور مضبوط دفاع ہی امن کی ضمانت ہے۔ پاکستان کے لیے اس حالیہ کشیدگی میں یہ سبق ہے کہ مذاکرات بھی تبھی بامقصد اور کامیاب ہو سکتے ہیں جب قون اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو ۔محض تاریخی خطاب سے کشمیر کے مسئلہ کا حل بھی ممکن نہیں۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر کشمیر کے مسئلہ پر سیاسی قیادت پر الزام تراشی مناسب نہیں۔سیاست میں اداروں کو ملوث کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنایا جانا بھی غلط ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.