''سرکاری ملازمت اورمیرٹ''

بدھ 27 جنوری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

گڈ گورننس کے لیے ایماندار سیاسی قیادت کے ساتھ ریاستی احکامات پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ دار،قابل بیوروکریسی کا ہونا ضروری ہے۔اہل بیوروکریسی کا وجود صرف بہتر سسٹم سے ہی ممکن ہیاوربہتر سسٹم میرٹ کی بنیاد پر تشکیل پاسکتا ہے۔ شفافیت، اعلانات اور کاغذوں کی حد تک تو تسلیم کی جاسکتی ہے مگرحقیقت میں ایسا نہیں۔ گریڈ ایک سے پندرہ تک ملازمتوں کی بندر بانٹ کی ایک اپنی تاریخ ہے۔

جس گاوں سے وزیر کو چار پانچ سو ووٹ ملے ہوں اس گاوں کا کوئی نہ کوئی نوجوان ایم این اے کوٹہ سے ملازمت کا حق دار ضرور قرار پایا۔ میرٹ پر آتا ہو یا نہ آتا ہو نوکری کے حصول کے لیے اہل ضرور ہے۔ سفارش کے ساتھ ملازمتیں فروخت بھی ہوتی ہیں۔ ملازمت کی قیمت لاکھوں میں وصول کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

کسی کو اپنی ماں کا زیور بیچنا پڑتا ہے تو کسی باپ کو اپنے بیٹے کی نوکری کے لیے اپنی چھت تک فروخت کرنی پڑی۔

رشوت اور سفارش ہی کی حکمرانی ہے ملازمتوں پر۔۔۔۔یہی ہمارا المیہ ہے۔حق دار کو حق نہیں دیا جاتا۔ سرکاری بھرتیوں میں کہاں کہاں بے قاعدگیاں ہیں عام آدمی تک کو علم ہے۔ سرکاری بنک، واپڈا،مقامی بلدیاتی ادارے، قومی ائیر لائن، تمام وفاقی اور صوبائی محکمہ جات میں سیاسی بھرتیاں اور نوکریاں خریدنے والوں کی بڑی تعداد تنخواہیں لے رہی ہے۔ ایسے میں سرکاری محکموں میں غریب کی شنوائی کیسے ممکن ہے۔

جو میرٹ کے قتل کے نتیجہ میں بھرتی ہوا ہواس کے نزدیک حلال اور حرام کی تمیز کیا معنی رکھتی ہے۔۔۔؟ صاحب جوکسی کا حق غصب کرکے کرسی پر براجمان ہیں ان میں انسانیت تلاش کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔
قارئین کرام! بابو لوگوں کے معاملات تو اس سے بھی آگے ہیں۔ بیوروکریسی کا رہن سہن دیکھیں اور انکے طور اطوار توسب گواہی دیتے ہیں کہ یہ سول سرونٹ نہیں۔

حکام ہیں، مالک ہیں۔ عوامی نمائندے انہی کے ذریعے ہم پر قابض ہیں۔ ہم صرف ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں اس سے آگے ہمارے حقوق نہیں۔ دولت کی سیاست اور بیوروکریسی کی طاقت ہے اور بس۔۔۔
میرٹ کا قتل، معاشرے میں کیسی تباہی لاتا ہے یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ راقم الحروف ایک نہیں ہزاروں ایسے سرکاری ملازمین کو جانتا ہے جو پیسے دیکربھرتی ہوئے، سیاسی بنیاد یا برادری کو نوازنے کی سیاست کے نتیجہ میں سرکار کے تنخواہ دار بنے۔

ہزاروں قابل، تعلیم یافتہ روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہے۔جومایوسی اور بے بسی کی تصویر بن کر اس ظلم کے نظام میں جی رہے ہیں۔میرٹ کا قتل اور بھرتیاں یہ کرپشن اور ظلم کی بنیاد ہے اسکے ساتھ گھوسٹ ملازمین کے وجود نے مختلف محکموں کو توبربادہی کردیا۔صوبہ بلوچستان میں انکشاف ہوا تھا کہ 45000 گھوسٹ ملازمین مختلف محکموں میں کام کررہے ہیں۔

یہ چونکا دینے والے انکشاف بھی سامنے آئے تھا کہ 20سال کے لڑکے بھی پنشن وصول کر رہے ہیں۔صوبے کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ سرکاری گھوسٹ ملازمین ہیں۔ ان ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے لیے غیر ترقیاتی بجٹ سے بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ افغان مہاجر اور نوجوان بھی ان ملازمین
 میں شامل ہیں۔ بعد ازاں حکومت بلوچستان نے جعلی ملازمین کے خلاف کاروائی بھی کی۔

صوبہ بلوچستان ہی نہیں،سندھ، کے پی کے، پنجاپ اور وفاق میں بھی کچھ ایسے معاملات ہیں۔ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے سب سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے برباد ہوئے۔
ماضی سے نکل کر اب نئے پاکستان میں دیکھیں تو لاہور میں بھرتیوں کا نیا سیکنڈل سامنے آیا۔پنجاب پولیس میں بھاری رشوت دیکر اصل امیدوار کی جگہ جعلی امیدوار پیپر دیتے رہے۔

پنجاب پبلک سروس کمیشن کے بعد اب پنجاب میں پولیس بھرتی کیلیے سی ٹی ایس کے افسران کی ملی بھگت سے اصل امیدوار کی جگہ جعلی امیدوار تحریری امتحان دیتے رہے۔ امیدوار نوید انجم انڑویو کے لیے آیا تو کسی سوال کا جواب نہ دے سکا۔ چیرمین بورڈ کے سامنے اپنا نام تک نہ لکھ سکا۔ پوچھ گچھ پر چیرمین بورڈ جواد ڈوگر کو بتادیا کہ میری جگہ کسی اور نے تحریری امتحان دیا۔

انکوائری کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 190امیدواروں کی جگہ جعلی امیدواران نے تحریری امتحان دیا۔ بھاری رشوت لیکر سی ٹی ایف ایجنسی کے افسران اور عملہ نے جعلی امیدوار بٹھائے۔ تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں ٹیسٹنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نذیر اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
جب بھی بھرتیاں ہوتی ہیں شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور اس طرح کی خبریں سامنے آتی ہیں۔


ہمیشہ پولیس اور کرپشن کا ذکر ایک ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ معاملہ محکمہ پولیس تک ہی محددو نہیں، محکمہ واپڈا کے میڑ ریڈ سے لیکر ایکسین تک، محکمہ صحت میں کرپشن کی داستانیں، پٹوار سرکار، بلدیات ہر طرف کرپشن یہ حالات صرف اسی صورت بہتر ہوسکتے ہیں جب بھرتیوں میں شفافیت لائی جائے بیوروکریسی کے لامحدود اختیارات کو محدود کیا جائے۔ بابو حضرات کے جاوجلال کو کم کیا جائے۔


ہم یہ نہیں کہتے کہ پانچ انگلیاں برابر ہوتی ہیں۔۔۔کچھ بھرتیاں میرٹ پر بھی ہوتی ہیں۔بعض سرکاری ملازمین نہایت دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ دوسری طرف بزرگوں کی یہ مثال بھی فراموش نہیں کی جاسکتی ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے۔ ایک آدھ بھرتی کا معاملہ نہیں ہم بہت سی سیاسی اور خریدی ہوئی آسامیوں پر موجود ملازمین کے بارے جانتے ہیں۔
میرٹ اورصرف میرٹ۔۔۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارا رویہ ہماری سوچ یہ ہو کہ کسی کا حق مارنے کی بجائے اسے حق دینے اور دلانے کے رویہ کو اختیار کریں۔ رشوت خور اور گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کریں۔ مصلحت پسندی سے باہر نکل کر سیاست نہیں ریاست کا سوچیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :