''پولیو مہم اور ریسکیو1122کا کردار''

منگل 23 فروری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پولیوایک سنگین اورممکنہ طورپر مہلک متعدی بیماری ہے۔پولیووائرس متاثرہ شخص سے فوری طورپر دوسرے شخص میں پھیل سکتاہے۔ اسکی باقاعدہ علامات ایک سیدو ہفتوں کیاندرظاہر ہوتی ہیں۔ پولیوسے انسان زندگی بھر کیلیے معذور ہوجاتا ہے۔
پولیوکی روک تھام کے لیے ویکسین کے چند قطریزندگی بھرکی معذوری سے انسان کومحفوظ رکھ سکتے ہیں۔

پولیوویکسین سے بچوں کی پولیوسے حفاظت یقینی ہوجاتی ہے۔یہ ویکسین جسم میں پولیوسے لڑنے کی مدافعت بڑھاتی ہے۔ 1998ء تک دنیاکے تمام ممالک میں پولیو وائرس موجود تھا۔ براعظم افریقہ کے تمام ممالک اس وائرس سے شدید متاثر تھے۔2011ء تک پولیوصرف بھارت،پاکستان، افغانستان اور نائجیریامیں رہ گیا تھا۔بھارت بھی 2011ء کیاختتام تک پولیو فری ملک ڈیکلئیر ہوگیا،جبکہ 2016ئمیں نائجیریامیں بھی پولیوختم ہوگیا۔

(جاری ہے)

آج دنیامیں صرف پاکستان اور افغانستان دوایسے ملک ہیں جہاں پولیوکاخطرہ موجودہے۔
پاکستان میں اگرچہ پولیو سے بچاو کی مہم ذوالفقارعلی بھٹوکے دورمیں 1974ء میں شروع ہوئی اورآج تک سرکاری سطح پر ویکسین کااستعمال جاری ہے۔باضابطہ آگاہی مہم اور قطرے پلانے کا پروگرام1994ء میں بینظیربھٹو نے شروع کیا۔ایک دہائی میں سوسے زائدبارویکسین پلانے کے باوجود پولیوکاخاتمہ نہیں ہوسکا۔


2014ئمیں دنیا بھرمیں پولیوکے سب سے زیادہ کیس پاکستان میں تھے۔ 2015ئمیں 54 کیس رپورٹ ہوئے۔ جبکہ2017ء میں8, 2019ء میں 147اور2020ء میں 84کیس رپورٹ ہوئے۔2020ء کے اعداد وشمارکیمطابق صوبہ پنجاب میں 14, سندھ میں 22, کے پی کے میں 22,بلوچستان میں 26کیس موجود تھے۔
پاکستان میں گزشتہ26سال سے پولیو کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ہمارے پاس پولیو سے بچاوکے قطرے پلانے والا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک، کوالٹی ڈیٹا،جدید لیبارٹریزاورماہرین کی خدمات میسر ہیں۔

اس کے باوجود پاکستان پولیو فری نہیں ہورہا۔
قارئین کرام! اقوام عالم کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ساری دنیااس سے چھٹکارا حاصل کر چکی ہے مگر پاکستان اور افغانستان اب بھی پولیو فری ملک کا درجہ نہیں رکھتے۔پولیو ویکسین کے حوالہ سے منفی باتیں،سازشی تھیوری اورپولیو ورکرزپرحملے اس سلسلہ میں رکاوٹ ہیں۔
حکومت کے ساتھ ساتھ ہرشہری کو اپنا فرض اداکرنا ہوگا۔

یہ ایک قومی فریضہ ہے۔مہم کامیاب بنانے کے لیے اجتماعی سوچ اورمثبت رویہ ضروری ہے۔پولیو کمیٹی میں صرف علماء کرام کی علامتی شرکت ہی کافی نہیں بلکہ سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ میڈیا پرسن کی عملی شرکت بھی ضروری ہے۔من پسند افراد کے ذریعے کاروائی تو ڈالی جاسکتی ہے لیکن نتائج کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔پولیو ورکرز کو پولیس سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔

ہر سال تشہیری مہم بھی چلائی جاتی ہے۔اضلاع کی سطح پر پولیو کیمٹیاں بھی موجود ہیں۔حکومتی اقدامات عالمی
 معیار کے مطابق ہیں مگر 100فی صد رزلٹ ابھی تک حاصل نہیں ہوسکے۔
تقاضا وقت ہے کہ ہر پاکستانی اس مہم میں اپنی شرکت اور تعاون یقینی بنائے۔پولیوکی مہم کو مکمل یکسوئی سے جاری رکھا جائے۔کاغذی کرداروں پر تکیہ کرنے کی بجائے موثرکرداروں اور اداروں کو فعال کردار ادا کرنے دیا جائے۔

ریسکیو 1122ہمارا سب سے بہترین ادارہ ہے۔ عالمی معیار کے عین مطابق ہر مشکل میں پاکستانیوں کے دروازے اور ہر اس جگہ موجود ہوتا ہے جہاں انسان کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریسکیو 1122 تشہیری مہم میں آگے ہو تو کوئی وجہ نہیں ان کی تربیت اور نصیحت سے کوئی انکار کرے۔راقم الحروف بھی ضلعی پولیو کیمٹی میں شامل رہا۔ بیوروکریسی کی اپنی دنیا ہے اور ہمیں اپنی حیثیت میں رہنا پسند ہے۔

حقیقت پسندی کے اصول پر قائم رہتے ہوئے افسران سے دور رہنا ہی بہتر جانتے ہیں۔ بھاگ بھاگ کر تعلقات بنانا گوارا نہیں۔اس لیے سرکاری تقریبات میں شامل ہونا مطمع نظرہی نہیں۔ قوم و ملت کے لیے کام اپنے دائرہ میں رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں اوکاڑہ میں پولیو آگاہی مہم کے سلسلہ میں نجی سکول اور ریسکیو 1122کے اشتراک سے ایک آگاہی مہم منی میراتھن ریس کا انعقاد کیا گیا۔

ریسکیو 1122کے ڈسرکٹ انچارج ظفر اقبال کی جانب سے شرکت کی دعوت ملی۔وہ قابل ستائش اور قابل فخر کردار کی حامل شخصیت ہیں۔ میرے نزدیک جذبہ خدمت سے سرشارایک پروفیشنل ریسکیوآفیسرکے طورپرحقیقی ہیرو کادرجہ رکھتے ہیں۔ انکے مدعو کرنے پر انکارکی گنجائش نہیں۔ مگرذاتی مصروفیات کی وجہ سے تقریب میں عدم شرکت پر ان سے معذرت خواہ ہوں۔ریسکیو 1122کے دفتر میں منعقدہ تقریب میں ضلعی افسران نے پولیو کے حوالہ سے اظہار خیال کیا۔

اس کے بعد منی میراتھن ریس کا انعقاد ہوا۔ اس موقعہ پرسول سوسائٹی کے نمائندے،وکلاء، ڈاکٹرز،صحافیوں سرکاری افسران اور ریسکیو 1122کا عملہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے ڈاکٹرذیشان اور ڈاکٹر ناصر بھی موجود تھے۔ سکول کے بچے میراتھن میں دوڑے اور افسران سے تعلق بنانے کے خواہش منداحباب افسران کے پیچھے ڈورتے نظر آئے۔ نجی سکول اور ریسکیو 1122کے اشتراک سے یہ کاوش قابل ستائش ہے۔


میری دانست کے مطابق پولیو آگاہی مہم میں ریسکیو 1122کا کردار سب سے موثر اور نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔ یہ واحد ادارہ ہے جو پریشان پاکستانیوں کے لیے خیراور بھلائی کا ذریعہ اور علمبردار ہے۔ ریسکیو 1122نے جس طرح خدمات کی اعلی مثالیں قائم کیں کوئی وجہ نہیں قوم محکمہ صحت اور ریسکیو 1122 کے ساتھ کھڑی ہوجائے توایسے میں میرا تھن میں پولیو کی شکست یقینی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :