وسائل پر سب کا حق

جمعہ 30 اپریل 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وطن عزیز میں سیاسی فوائد کے لیے ملکی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے مختلف علاقوں میں احساس محرومی کو جنم دیا۔لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر بھی اربابِ اختیار کی جانب سے فرق روا رکھا جانے کا شکوہ بھی سننے کو ملتا ہے۔ ترقی کے نام پر سیاسی لیڈر شپ نے مالی اور سیاسی فائدے اٹھائے۔ ان تمام اقدامات اور فیصلوں نے وفاقِ پاکستان کو کمزور کیا۔

مختلف صوبوں کے درمیان ہی نہیں ایک صوبے میں رہنے والوں کا معیار زندگی ایک بھی جیسا نہیں۔ انگریز سرکار کی طرف سے اپنے فائدے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایسے اقدامات برٹش ہسڑی کا حصہ ہیں۔قیام پاکستان کے بعد اس روش پر چلنے کے نتیجہ میں سقوطِ ڈھاکہ ہوا مگر سیاسی قیادت نے اپنا چلن نہ بدلا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس طرزِ سیاست کو خوب پروان چڑھایا۔

(جاری ہے)

اس طرز سیاست سے سنٹرل پنجاب میں ووٹ بنک محفوظ بنایا۔ آج اپر پنجاب مسلم لیگ (ن) کے تسلط میں ہے۔اپر پنجاب بلخصوص لاہور شریف خاندان کی نوازشات کا مرکز رہا۔ سا?تھ پنجاب بری طرح نظر انداز کیا گیا۔سیاسی اقتدار کے لیے انتظامی اضلاع اور ڈویژن بھی سنٹرل پنجاب میں بنائے گے۔ ناروال، حافظ آباد، چینوٹ، ننکانہ صاحب، منڈی بہاوالدین کو اضلاع کا درجہ دیا گیا۔

ساہیوال ڈویژن بنا جبکہ اس عرصہ میں دیکھیں تو سا?تھ پنجاب میں لودھراں کے علاوہ کوئی نیا ضلع نہیں بنا۔سرائیکی خطہ کے ساتھ اس سلوک پر آواز نہ اٹھانے والے مقامی سیاست دان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں جو شریف خاندان کے ساتھ منسلک تھے۔ ووٹ مقامی آبادی سے لیکر لاہور کی ترقی کے رول ماڈل پر ن لیگ کی قیادت کو داد تحسین دیتے رہے۔جنوبی پنجاب صوبہ کے مطالبہ اور اس انتظامی صوبہ کی تشکیل میں رکاوٹ بھی مسلم لیگ (ن) ہی تھی اور آج بھی ہے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ سے نئے صوبہ کے لیے پی پی پی نے قردار داد پاس کروائی اور پنجاب اسمبلی کی منظوری کے بغیر یہ عمل مکمل نہیں ہوسکتا تھا اس لیے نئے صوبے کو تشکیل نہ دیا جاسکا۔ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام پی ٹی آئی کا بھی منشور ہے مگر یہ معاملہ بھی اب تک سیاست کی نظر ہی ہوتا آ رہا ہے۔
انتظامی لحاظ سے جنوبی پنجاب کے عوام کی مشکلات کا احساس تو ضروری ہے۔

اس کے لیے فنڈز کی منصفانہ تقسیم شرط اول ہے۔گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلی عثمان بزدار کے ہمراہ ملتان میں 130ارب روپے کے خصوصی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔اس موقعہ پر انہوں نے حسبِ روایت اپنے سیاسی مخالفین پر کھل کر تنقید کی۔انھوں نے کہاحکومت کی پوری توجہ جنوبی پنجاب کے عوام کی محرمیاں دور کرنے اور خوشحالی لانے پر مرکوز ہے۔

وزیراعظم نے کہا ماضی کے حکمران وسائل کو رائیونڈ کی تعمیر پر خرچ کرتے رہے۔ جنوبی پنجاب کی آبادی صوبہ پنجاب کی 33 فیصد ہے اور یہاں کا بجٹ 17فیصد تھا۔ تاہم پچھلے سات سال کے دوران ان علاقوں کے لیے مختص کیے گئے 260ارب روپے بھی دوسرے علاقوں پر خرچ کردئیے گے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 33فیصد آبادی کو اس کے وسائل ملیں گے۔ یہاں کے لوگوں کو آبادی کے مطابق ملازمتوں میں کوٹہ بھی دیا جائے گا۔

جنوبی پنجاب صوبہ بھی بنے گا۔ وزیراعظم عمران خان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جنوبی پنجاب کے حالات سے انکار ممکن نہیں۔نوازشریف اور شہباز شریف براہِ راست ان محرمیوں کے ذمہ دار ہیں۔سیاست کو کاروبار کے انداز میں چلانے کا ہنر جاننے والی مسلم لیگی قیادت نے ترقی کے نام پر اپر پنجاب میں ووٹ بنک مضبوط کیا اور جنوبی پنجاب کے بااثر سیاسی خاندانوں کو ساتھ ملائے رکھا۔

شہباز شریف نے سیاست میں تشہیر کر ذریعے خوب نام کمایا۔ اس طرز سیاست سے لاہور، گوجرانوالا اور فیصل آباد ڈویژن میں پارٹی مضبوط ہوئی اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں احساس محرومی بڑھا۔ ترقی اور پسماندگی میں نمایاں فرق پیدا ہوا۔ ترقی کے نام پر پنجاب کو مقروض تر صوبہ بنا دیا گیا۔ لاہور میں سڑکیں تعمیر ہوئیں لیکن اوکاڑہ کے حالات آج کچھ ایسے ہیں کہ ایک بھی سڑک بہتر حالت میں نہیں۔

طبّی سہولیات کا فقدان، بنیادی مسائل حل طلب لیکن لاہور کی ترقی کے نام پر اوکاڑہ کی عوام سے بھی بااثرامیدوران کو ٹکٹ دے کر سیاسی کامیابی حاصل کرلی۔ اوکاڑہ صرف لاہور سے 12کلومیڑ جبوبی پنجاب کی طرف سفر شروع کریں تو مین جی ٹی روڈ پر واقع یہ شہر ترقی کے تمام دعوے جھوٹے ثابت کردیتا ہے۔ یہاں شہباز شریف کی ترقی کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کی گواہی کے لیے ایک بھی منصوبہ نہیں جو بطور حوالہ پیش کیا جاسکے۔

جنوبی پنجاب کی حالتِ زار اور پسماندگی تو ہر جگہ زیرِ بحث آتی ہے لیکن اربابِ اختیار سیاسی مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں-
قارئین کرام! قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ان سیاسی غلطیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ اقتدار اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی وقت کا تقاضہ ہے۔ موجودہ حکمران جماعت اسی منشور پر برسراقتدار آئی۔ آج وسائل عمران خان کی مکمل دسترس میں ہیں۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کا وزیر اعلی موجود ہے۔ سردار عثمان بزدار کے انتخاب کی واحد وجہ بھی پسماندہ علاقہ سے تعلق ہے۔ اب کوئی امر معنی نہیں رکھتا کہ موجودہ حکومت اپنے پروگرام پر عمل پیرا نہ ہو سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت مصروف عمل بھی ہے۔ اعلانات کی حد تک سب کچھ ٹھیک ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے ان اعلانات پر عمل بھی ہو سکے۔یہ طرزِ سیاست پاکستان اور وفاق کے لیے ضروری ہے قومی سوچ اور اجتماعی مفاد سب کے لیے اہم ہونا چائیے اس لیے حکومت کے بہتر اقدامات کی ستائش کی جائے۔ جہاں کوتاہی نظر آئے اسکی نشاندہی اور اصلاح و احوال سب پر فرض ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :